خبریں

ہندوستان نے گجرات دنگوں پر ڈاکیومنٹری کو ’پروپیگنڈہ‘ بتایا، بی بی سی نے کہا – حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا

برطانیہ میں نشر ہونے والی ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ میں بی بی سی نے کہا ہے کہ برطانوی حکومت کی خفیہ تحقیقات میں نریندر مودی  گجرات دنگوں کے ذمہ دار پائے گئے تھے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے اسے ‘پروپیگنڈہ’ قرار دیتے ہوئے  کہا کہ اس میں تعصب ہے،غیرجانبداری کا فقدان  ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی ہے۔

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: وزیر اعظم نریندر مودی کو گجرات دنگوں کے لیے  ذمہ دار بتانے والی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری پر تنازعہ کے درمیان ہندوستان نے اسے ‘پروپیگنڈے کا ایک حصہ’ قرار دیتے ہوئے سرے سےخارج کر دیا ہے اور کہا ہے کہ اس میں تعصب ہے، غیرجانبداری کا فقدان ہے اور نوآبادیاتی ذہنیت واضح طور پر نظر آتی ہے۔

جمعرات کو بی بی سی کی ڈاکیومنٹری پر نامہ نگاروں کے سوالوں کا جواب دیتے ہوئے وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے کہا کہ یہ ایک ‘غلط بیانیہ’ کو آگے بڑھانے کے لیےپروپیگنڈہ مہم کا حصہ ہے۔

باگچی نے کہا، یہ ہمیں اس قواعد کے مقصد اور اس کے پیچھےکےایجنڈے کے بارے میں سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ واضح طور پر وہ ایسی کوششوں کو اہمیت نہیں دینا چاہتے۔

غور طلب  ہے کہ بی بی سی نے ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’کے نام سے دو حصوں میں ایک نئی سیریز بنائی ہے۔ یہ سیریز 2002 میں گجرات میں ہونے والے دنگوں پر مبنی ہے جب نریندر مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ تھے۔ اس میں کہا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی طرف سے گجرات دنگوں کی تحقیقات (جو ابھی تک غیر مطبوعہ رہی ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

منگل کی شام بی بی سی ٹو پر برٹن میں نشر ہونے والی ایک نئی سیریز کے پہلے حصے میں برطانوی حکومت کی ایک رپورٹ ، جس پر  پہلے پابندی عائد کر دی گئی تھی،  جو آج تک نہ کبھی شائع  ہوئی اور نہ ہی سامنے آئی، کو تفصیل سے دکھایا گیا ہے۔

ڈاکیومنٹری میں رپورٹ کی تصویروں کی ایک سیریز پیش کی گئی ہے اور ایک بیان میں تحقیقاتی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘نریندر مودی براہ راست ذمہ دار ہیں۔’اس میں واقعات کے سلسلے کو ‘تشدد کی منظم مہم’ کے طور پر پیش کیا گیا ہے، جس میں ‘نسل کشی کے تمام اشارے’بھی ہیں۔

ڈاکیومنٹری میں دنگوں کے بارے میں سابق برطانوی خارجہ سکریٹری جیک سٹرا کے تبصروں کے بارے میں پوچھے جانے پر باگچی نے کہا، ایسا لگتا ہے کہ وہ (سٹرا) برطانوی حکومت کی اندرونی رپورٹ کا ذکر کررہے تھے اور یہ 20 سال پرانی رپورٹ  ہے اوراس تک ہماری رسائی کیسے ہوسکتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ یہ بات صرف جیک سٹرا نے کہی، اسے کیسے جواز مل سکتا ہے۔ انہوں نے کہا، ‘میں نے تحقیقات جیسے کچھ الفاظ سنے ہیں۔ اور اسی لیے ہم اس حوالے سے نوآبادیاتی ذہنیت کا لفظ استعمال کر رہے ہیں۔ ہم یوں ہی کوئی لفظ نہیں کہتے۔کیسی جانچ؟  کیا وہ ملک پر حکومت کر رہے تھے؟ میں ایسی باتوں سے اتفاق نہیں کرتا۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ ڈاکیومنٹری ہندوستان میں ٹیلی کاسٹ نہیں ہوگی۔ برطانوی شہریوں کی موت کے دعووں کے سوال پر انہوں نے کہا کہ اگر ایسا ہوتا تو ہندوستان میں قانونی طریقہ کار پر عمل کیا جاتا۔

معلوم ہو کہ ایک برطانوی سفارت کار نے اپنی شناخت مخفی رکھتے ہوئے  کہا کہ ، ‘تشدد کے دوران کم از کم 2000 افراد کو قتل کیا گیا، جن میں اکثر مسلمان تھے۔ ہم نے اسے نسل کشی کے طور پر پیش  کیا –مسلم کمیونٹی کو نشانہ بنانے کی ایک دانستہ اور سیاسی طور پرکی گئی کوشش۔’

اس رپورٹ میں راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) سے وابستہ وشو ہندو پریشد (وی ایچ پی) کا بھی ذکر کیا گیا ہے۔ سابق سفارت کار نے کہا، ‘یہ تشدد بڑے پیمانے پر ایک انتہا پسند ہندو قوم پرست گروپ وی ایچ پی نے منظم کیا تھا۔’

رپورٹ میں کہا گیا ہے، وی ایچ پی اور اس کے اتحادی ‘ریاستی حکومت کے ذریعے سزا سے چھوٹ  کے احساس’ کے بغیر اتنا نقصان نہیں کرسکتے تھے۔

ڈاکیومنٹری میں الزام لگایا گیا ہے کہ ‘سزا سے چھوٹ کے احساس نے تشدد کے لیے  ماحول تیار کیا’۔

سابق برطانوی وزیر خارجہ سٹرا نے بی بی سی کو بتایا، بہت گمبھیر دعوے کیے گئے تھے – کہ وزیر اعلیٰ مودی نے پولیس کو واپس بلانے  اور ہندو انتہا پسندوں کی خاموشی سے حوصلہ افزائی کرنے میں بہت فعال کردار ادا کیا۔

بی بی سی نے کہا- کافی تحقیق کے بعد بنائی گئی ڈاکیومنٹری

دوسری جانب بی بی سی نے ڈاکیومنٹری کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ یہ کافی تحقیق کے بعد بنائی گئی ہے، جس میں اہم ایشوزکو معروضی انداز میں اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔

بی بی سی کا یہ تبصرہ حکومت کی جانب سے اسے ‘پروپیگنڈہ مواد’ قرار دینے کے ایک دن بعد سامنے آیا ہے۔

بی بی سی کے ایک ترجمان نے اپنے بیان میں کہا: ڈاکیومنٹری پر اعلیٰ ترین ادارتی  عمل اور معیارکے مطابق تحقیق کی گئی۔

بی بی سی نے کہا کہ اس نے سیریز بناتے وقت الگ الگ  رائے رکھنے والے متعدد لوگوں سے رابطہ کیا۔ ترجمان نے کہا، الگ الگ رائے رکھنے والے لوگوں، گواہوں اور ماہرین سے رابطہ کیا گیا، اور ہم نے کئی طرح کی رائے  پیش کی ہے- اس میں بی جے پی کے لوگوں کے ردعمل بھی شامل ہیں۔ ہم نے حکومت ہند سے سیریز میں اٹھائے گئے ایشوز پر جواب دینے کو کہا – اس نے جواب دینے سے انکار کردیا۔

بی بی سی نے کہا کہ وہ دنیا بھر میں اہم ایشوز کو اجاگر کرنے کے لیے پرعزم ہے اور یہ دستاویزی سیریز ‘ہندوستان کی ہندو اکثریت اور مسلم اقلیت کے درمیان کشیدگی  کی جانچ کرتی ہے اوراس  کشیدگی کے حوالے سے ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کی سیاست کا جائزہ لیتی ہے۔

ترجمان نے کہا کہ یہ حال کے برسوں میں ہندوستان اور دنیا بھر میں رپورٹنگ اور دلچسپی کا ایک قابل ذکر سورس رہا ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)