فکر و نظر

بی بی سی ڈاکیومنٹری 2: مودی تفرقہ پیدا کرنے والے سیاستداں، ’نیو انڈیا‘ میں فرقہ وارانہ کشیدگی عروج پر

 بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی دوسری اور آخری قسط منگل کو برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں بی جے پی حکومت کے دوران لنچنگ کے واقعات میں ہوئے اضافہ، آرٹیکل  370 کے خاتمہ، سی اے اے اور اس کے خلاف مظاہروں اور دہلی میں ہوئے  فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کی گئی ہے۔

(اسکرین شاٹ بہ شکریہ: بی بی سی یوکے)

(اسکرین شاٹ بہ شکریہ: بی بی سی یوکے)

لندن: بی بی سی کی دستاویزی سیریز ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ کی دوسری (اور آخری) قسط منگل کی شب بی بی سی ٹو پر برطانیہ میں نشر کی گئی۔ اس میں کہا گیا ہے کہ یہ ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی کے 2014 کے مقابلے زیادہ اکثریت کے ساتھ 2019 میں دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد ان کے اور ہندوستان کی مسلم اقلیت کے ‘کشیدہ تعلقات’ کی تفتیش  کرتی ہے۔

برطانیہ میں نشر ہوئی یہ رپورٹ ہندوستانی آئین کے آرٹیکل 370 کے اچانک خاتمے اور متنازعہ شہریت (ترمیمی) ایکٹ 2019 (جسے ایک بڑے طبقے کے درمیان امتیازی اور غیر آئینی سمجھا جاتا ہے اور  جس پر ابھی ملک کی سپریم کورٹ میں سماعت ہونی ہے) کے ساتھ ہی  2020 میں شمال–مشرقی دہلی کے فرقہ وارانہ تشدد کے بارے میں بات کرتی ہے۔

بی بی سی کی اس سیریز کی آخری قسط میں متاثرہ فریقوں، ماہرین تعلیم ، پریس اور سول سوسائٹی کے اراکین کی آزادانہ  رپورٹ، شہادتوں اور تبصروں  کو دکھاتے ہوئے ان تمام مسائل پر حکومت اور پولیس کی جانب سے کیے گئے دفاع  کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس میں بی جے پی کے نقطہ نظر کی نمائندگی کرنے والے تین افراد کےمفصل تبصرے بھی شامل ہیں، جن میں سب سے اہم صحافی اور سابق بی جے پی ایم پی سوپن داس گپتا ہیں۔

دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ مودی کے ‘خوشحالی کے نئے دور’ اور ‘نیو انڈیا’ کا وعدہ کرنے کے باوجود ان کے دور حکومت میں ملک ‘مذہبی  ہنگامہ آرائی’سے دوچار ہے۔ اس سیریز میں  دعویٰ ہے کیا گیا ہے کہ گجرات فسادات کے سلسلے میں ان کے خلاف تمام الزامات کو ہندوستان کی سپریم کورٹ نے مسترد تو کر دیا ہے، لیکن یہ ناگزیراور لازمی  ہے کہ ‘تشویش دور نہیں ہوں گے’۔

لنچنگ

سال 2014 میں اقتدار میں آنے کے تین سال بعد مسلمانوں کے خلاف بڑے پیمانے پر لنچنگ کے معاملے سامنے آئے۔ گلابی کرانتی (انقلاب)  کے نام پر گائے کے گوشت کو لانے–لے جانےکو تیزی سے متنازعہ بنا دیا گیا، جس کے بعد  کئی ہندوستانی ریاستوں میں گائے کے گوشت کو غیر قانونی بنا دیا گیا،کیونکہ گائے کو ہندوؤں میں مقدس سمجھا جاتا ہے۔

گئو رکشکوں کے معاملے پرڈاکیومنٹری علیم الدین انصاری کی کہانی بیان کرتی ہے، جنہیں 2017 میں مبینہ طور پر گئورکشکوں کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا تھا، ٹھیک اسی دن مودی نے اپنی لمبی خاموشی کے بعد ‘گئو رکشا کے نام پر قانون کو اپنے ہاتھ میں نہ لینے’ کی بات کہی تھی۔ .ڈاکیومنٹری میں کہا گیا ہے کہ اس کے فوراً  بعد ایک ‘حیرت انگیز تبدیلی’ واقع ہوئی جوڈاکیومنٹری کو متاثر کرتی ہے۔

دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح بی جے پی کے ترجمان نتیانند مہتو کو علیم الدین کے قتل کا مجرم پایا گیا اور انہیں عمر قید کی سزا سنائی گئی۔ لیکن مودی کے ایک وزیر نے ان کی اور دیگرسزا یافتہ لوگوں کی قانونی فیس ادا کرنے میں مدد کی اور جب وہ ضمانت پر جیل سے باہر آئے تو ا ن کا خیر مقدم کرتے ہوئے ان کی گلپوشی کی گئی ۔

دستاویزی فلم میں انصاری کی اہلیہ یہ کہتے ہوئے نظر آ رہی ہیں کہ ‘وہ پورے ملک کے  راجا ہیں  اور جب وہی  ان لوگوں کے ساتھ ہیں  تو ہم غریب لوگ کچھ نہیں کر سکتے ہیں۔’ ڈاکیومنٹری میں دکھایا گیا ہے کہ تقریباً چار سال کے بعد تمام ملزمین اب بھی  آزاد ہیں۔

دستاویزی فلم کے مطابق، ہیومن رائٹس واچ کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ مئی 2015 سے دسمبر 2018 کے درمیان ساڑھے تین سالوں میں مبینہ گئو رکشکوں  نے ‘گائے سے متعلق تشدد میں 44 افراد کو ہلاک  کیا اور تقریباً 280  لوگوں کوکو زخمی کر دیا، جن میں سے اکثر مسلمان تھے۔ ‘

جب سوپن داس گپتا سے  پوچھا گیا کہ ملک میں لگاتار لنچنگ کے واقعات کے خطرناک حد تک عام ہورہے ہیں توانہوں نے اسے ‘غلط فہمی’ قرار دیا۔ داس گپتا وزیر اعظم کے دفاع میں اصرار کرتے ہیں کہ مودی کے ہندو راشٹرواد کے برانڈ کو ‘ہندوستانی ووٹروں کی ریکارڈ تعداد سے تائید حاصل ہے’۔

ہندوستانی سیاست کے ماہر اور سینٹ اینڈریوز یونیورسٹی کے ایسوسی ایٹ پروفیسر کرس اوگڈن ڈاکیومنٹری میں کہتے ہیں، ‘بنیادی مقصد  یہ ہے کہ جس طرح سے ہندوستان چلتا ہے اس کا ‘ہندوکرن’ کرنا اور ہندوستان کی سیاسی، سماجی اور ثقافتی نوعیت کو ناقابل تغیر ڈھنگ سے تبدیل کرنا۔ اب سب کچھ کھلم کھلا ہو رہا ہے۔

کشمیر اور آرٹیکل 370

 اگست 2019 میں نئی دہلی کی جانب سےآرٹیکل 370 کو متنازعہ طریقے سے اچانک ختم کرتے ہوئے ایک ریاست کو مرکز کے زیر انتظام علاقے میں تبدیل کرنے کے غیر معمولی قدم پرڈاکیومنٹری کہتی ہے کہ  یہ ‘مودی کے بطور وزیر اعظم حلف اٹھانے کے بعد کا نواں ہفتہ ‘ تھا جب ‘فوجی کشمیربھیج دیے گئے، اور اس کے نتیجے میں  ایک ‘کمیونی کیشن  بلیک آؤٹ’ جہاں اس خطے کا ‘براہ راست کنٹرول’ نئی دہلی کے قبضے میں چلا گیا۔

دستاویزی فلم میں مزید کہا گیا ہے کہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس کی پالیسیاں خطے میں ‘امن  وامان اور ترقی لا رہی ہیں۔’

ماہر تعلیم، مصنف اور طویل عرصے سے ہندوستان پر نظر رکھنے والے کرسٹوفر جیفرلاٹ کے مطابق، ان حقائق کے ساتھ ہی  ‘بھارتیہ کرن’ کی ایک  نئی پالیسی بن رہی ہے۔ڈاکیومنٹری میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ آرٹیکل 370 (جموں و کشمیر کو مرکز کے زیر انتظام علاقہ بننے) کے خاتمے کے بعد صرف پہلے مہینے میں ‘تقریباً 4000 لوگوں کو حراست میں لیا گیاتھا۔’

شہریت ترمیمی قانون اور شمال–مشرقی دہلی میں تشدد

شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے)، جس کا مقصد مذہب کو ہندوستان کی شہریت سے جوڑنا تھا، کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے اور پھر  فروری 2020 میں دہلی میں فرقہ وارانہ تشدد، جس میں کم از کم 53 افراد ہلاک ہوئے،کے حوالے سے ڈاکیومنٹری میں کہا گیا ہے کہ شدت پسند  ہندو علمبرداروں نے مسلمان مظاہرین کو دھمکیاں دی تھیں۔

سوشل میڈیا پر وائرل ایک ویڈیو کا حوالہ دیتے ہوئےڈاکیومنٹری میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ فیضان نامی 23سالہ مسلمان لڑکے کو ‘پولیس نے پیٹ پیٹ کرمار ڈالا۔’ڈاکیومنٹری میں فیضان کی والدہ کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے،’میں اپنے بیٹے کے لیے انصاف چاہتی  ہوں۔ وہ بے گناہ  تھا اور اسے بلاوجہ قتل کیا گیا۔’

دستاویزی فلم میں بتایا گیا ہے کہ ‘[2020 کے دہلی تشدد میں] مرنے والوں میں سے دو تہائی مبینہ طور پر مسلمان تھے۔

اس میں ایمنسٹی انٹرنیشنل کی تحقیقات کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ ‘پولیس نے انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیاں- تشدد اور ناروا سلوک، مظاہرین پر طاقت کا بے تحاشہ اور من مانا استعمال، اور تشدد میں سرگرم شرکت– کی تھی۔’

ایمنسٹی انٹرنیشنل انڈیا کے سربراہ آکار پٹیل کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے کہ ‘دہلی میں ہوئےتشدد پر ایمنسٹی کی رپورٹ سے پتہ چلتا ہے کہ پولیس نے ویسے  کام نہیں کیا جیسااس کو کرنا چاہیے تھا۔ جہاں اس نے کارروائی کی، وہاں اس نے اکثر غلط لوگوں کا نام لیا۔ متاثرین کو اکثر تشدد کرنے والوں کے طور پر نامزد کیا تھا۔ ہم نے اس کی مناسب تحقیقات کا مطالبہ کیا تھا جو آج تک نہیں ہوئی ہے۔

دستاویزی فلم میں دہلی پولیس کا کہنا ہے کہ ایمنسٹی کی رپورٹ ‘پولیس کے خلاف غیر متوازن اور جانبدارانہ’ تھی اوراس میں ‘بد نیتی سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا کیس بنایا’ گیا تھا۔

فسادات کے دوران پولیس نے 2000 سے زیادہ لوگوں کو گرفتار کیا، جو ہندو اور مسلمان دونوں تھے۔

دستاویزی فلم میں صحافی علی شان جعفری یہ کہتے ہیں  کہ،’مسلمانوں کو یہ پیغام مل گیا  ہے کہ  ان کو حکومت سے ان کے تحفظ  کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔’

معروف ادیبہ ارندھتی رائے کہتی ہیں، ‘ہم لوگ اب ایک دوسرے سے بات کرتے ہیں کیا آپ کو لگتا ہے کہ ایسا ہو گا؟’ ‘کیا آپ کو لگتا ہے کہ یہ واقعی روانڈا جیسا ہو گا؟’ میں اس ڈاکیومنٹری میں آپ سے کیوں بات کر رہی ہوں؟ صرف اس لیے  کہ کہیں نہ کہیں  ایک ریکارڈ رہے کہ ہم سب اس سے متفق نہیں تھے۔ لیکن یہ مدد کے لیے  کوئی فریاد نہیں ہے، کیونکہ کوئی مدد نہیں آئے گی۔

نتیجہ

دستاویزی فلم آخرمیں یہ کہتی ہے، ‘آج ہندوستان میں صحافیوں کو اپنا کام کرنے کے لیے تشدد، دھمکیوں اور گرفتاریوں کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ کارکنوں کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد پریس کی آزادی میں گراوٹ  آئی ہے اور اب یہ خطرے میں ہے۔ انسانی حقوق کے کارکنوں کا کہنا ہے کہ ان پر بھی حملے ہو رہے ہیں۔

ہندوستان  میں ایمنسٹی کا کہنا ہے کہ اسے حکومت کی طرف سے کام بند کرنے پر مجبور کیا گیا تھا۔ حکومت نے کہا کہ انہوں  نے ‘غیر ملکی چندہ  وصول کرنے کے قوانین کو نظر انداز کر کے’ قانون شکنی کی ہے۔

دستاویزی فلم میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ 2015 کے بعد ہندوستان میں ہزاروں این جی او بند ہو چکے ہیں۔ اس کے اختتامی حصے میں، داس گپتا کو یہ کہتے ہوئے سنا جا سکتا ہے، ‘ہماری جمہوریت بھلے ہی  پرفیکٹ نہ ہو، لیکن یہ مسلسل بہتر ہو رہی ہے’۔

سال 2014 میں جب مودی  اقتدار میں آئے تو امریکی تھنک ٹینک فریڈم ہاؤس نے ہندوستان کو ایک آزاد ملک تسلیم کیا تھا۔ڈاکیومنٹری میں کہا گیا ہے کہ اب اس کے مطابق، ملک صرف ‘جزوی طور پر آزاد’ ہے۔

لیکن بین الاقوامی سطح پر اس پر کوئی ٹھوس بات کیوں نہیں ہورہی ہے؟ جیفرے لاٹ کے مطابق، ‘مغرب، ہندوستان کو چین کے برعکس  توازن قائم کرنے کے بہترین طریقے کے طور پر دیکھ رہا ہے۔ اور اسی لیے وہ تنقید نہیں کریں گے،جو  فیصلے لیے گئے ہیں ان میں اکثر  کی وہ  مذمت نہیں کریں گے۔ انسانی حقوق اب اس فہرست میں بہت اوپر نہیں ہے کیونکہ ایک بڑا چیلنج (چین) سامنے ہے۔

ڈاکیومنٹری کی  تفصیلات میں بتایا گیا ہے کہ مودی اور ان کی حکومت کسی بھی تجویزجس میں  ان کی پالیسیاں مسلمانوں کے تئیں کسی تعصب کی عکاسی کرتی ہیں،کو مسترد کرتی ہے، لیکن ایمنسٹی انٹرنیشنل جیسی انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پالیسیوں کو بار بار تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ حکومت ہند کی جانب سے مالی بے ضابطگیوں کے الزامات کی تحقیقات،جس کو  ایمنسٹی نے خارج کر دیا ہے، کی جانچ کے سلسلے میں بینک اکاؤنٹس کو منجمد کیے جانے کے بعد تنظیم نے اب دہلی میں اپنے دفاتر بند کر دیے ہیں۔

یہ بات قابل ذکر ہے کہ بی بی سی کی اس سیریز کی پہلی قسط کو حکومت ہند نے اپنے نئے آئی ٹی قوانین کے ہنگامی اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے سوشل میڈیا فورم سے ہٹوا دیا ہے۔ اپوزیشن، صحافیوں اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی جانب سے اس سینسر شپ کی بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے۔

گزشتہ ہفتے برطانیہ میں نشر ہونے والا پہلا ایپی سوڈ 2002 کے گجرات فسادات کے بارے میں تھا، جس میں برطانوی حکومت کی اب تک غیر مطبوعہ رہی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتایاگیا تھا کہ ریاست کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ نریندر مودی تشدد کے لیے ‘براہ راست ذمہ دار’ تھے۔

(کلرو جوشی لندن میں مقیم ملٹی میڈیا صحافی ہیں۔)

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)