فکر و نظر

بی بی سی ڈاکیومنٹری: ہماری یونیورسٹی کے وی سی اکثریت کی آمریت کے محافظ ہیں  

غیرت نہایت ہی  غیر ضروری اور فضول شے ہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا  بھلے مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلر بنے رہنا ناممکن ہے۔ جامعہ اور علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وی سی وقتاً فوقتاً اس کی تصدیق کرتے رہتے ہیں۔

جامعہ کیمپس میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے اعلان کے بعد کیمپس کے گیٹ کے باہر تعینات سکیورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

جامعہ کیمپس میں بی بی سی کی دستاویزی فلم کی اسکریننگ کے اعلان کے بعد کیمپس کے گیٹ کے باہر تعینات سکیورٹی اہلکار۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

ہماری یونیورسٹی کے وائس چانسلر اکثریت کی  آمریت کے لٹھیٹ اور ترجمان بن چکے ہیں۔ جامعہ ملیہ اسلامیہ کی وائس چانسلر نے پولیس کو طلب کیا تاکہ طلبہ کو بی بی سی کی اس دستاویزی فلم دیکھنے سے روکا جاسکے جو گجرات کے 2002 کے تشدد کی چھان بین کرتی ہے۔ انٹرنیٹ بند کر دیا گیا، سینکڑوں  کی تعداد میں پولیس نے جامعہ کو گھیرے میں لے لیا اور یونیورسٹی کے دروازے بند کر دیے گئے۔ 10 طالبعلموں کو گرفتار کر لیا گیا۔

جامعہ کی وائس چانسلر نے ایک سخت بیان جاری کیا کہ یونیورسٹی میں ہر قیمت پر امن و امان کوبرقرار رکھا جائے گا۔ چاہے اس کے لیے طلبہ کو زدوکوب  کرنا پڑے یاانہیں گرفتار کروانا پڑے۔ ان کے مطابق کیمپس میں امن ہے۔ طلبہ پڑھنا چاہتے ہیں اور امتحان دینا چاہتے ہیں۔ صرف مٹھی بھر طالبعلم، جو سیاسی ہیں، اور جن کے ساتھ کوئی نہیں، کیمپس میں ہنگامہ برپاکرنا چاہتے ہیں۔ اس کی ہر گز اجازت نہیں دی جا سکتی۔

ہمارےیہ طالبعلم آئین کی تمہیدکے آزادی کے حق کے عزم پر عمل کرنے کی وجہ سے یوم جمہوریہ کی سالگرہ جیل میں منائیں گے۔ آخر یوم جمہوریہ پر کوئی شہری اپنے آئین سے اپنی وابستگی کا اظہار کیسے کر سکتا ہے؟

آئین کی کتاب کے سامنے دھوپ بتی  جلانا ایک چیز ہے اور اس کے عزم کو پوراکرنے کے لیے اپنے آپ کو خطرے میں ڈالنابالکل دوسری بات ہے۔ اس لیےجامعہ کے ہمارےان طالبعلموں کو پورے ملک کی طرف سے سلام۔

لیکن ہم وی سی کاکیا کریں؟ وہ اچھی طرح جانتی ہیں کہ جامعہ میں امن نہیں ہے۔ جامعہ کا مطلب ہے جامعہ کے طلبہ اور اساتذہ ۔ ان کے دل بے چین ہیں۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم نے انہیں ایک موقع فراہم کیا کہ وہ اپنی اس ضطراری کیفیت  میں  مل سکیں۔

یہ فلم تو 20 سال پہلے دہلی سے  دور گجرات کے تشدد کی یاد دلاتی ہے۔ دسمبر اور جنوری کی سردیوں میں جامعہ کے طالبعلموں کو اس تشدد  کی یاد آتی ہے جو جمہوریہ ہند کی پولیس نے ان پر کیا تھا۔ قاعدے سے جامعہ کی وائس چانسلر کو اس کے بعد استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا۔ لیکن یہ توقع  ہم ان سے کر سکتے ہیں جن میں غیرت بچی ہو۔

غیرت کا کچھ احساس تین سال پہلےبچاتھا جب وائس چانسلر نے پولیس تشدد کی تحقیقات کا مطالبہ کیا  تھااور کہا کہ وہ طالبعلموں کے ساتھ ہیں۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ہی  انہوں نے محسوس کیا کہ یہ غیرت نہایت ہی غیر ضروری اور فضول شےہے۔ اس کے بغیر انسان بنے رہنا بھلے  مشکل ہو، غیرت کے ساتھ وائس چانسلربنے  رہنا ناممکن ہے۔ اس لیے انہوں نے اسے کہیں گہرائی میں دفن کر دیا۔

جامعہ کی وی سی سے پہلے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے آج کے ہندوستان کے اکثریتی نظام کے تئیں اپنی وفاداری کے اظہار کے لیے بی بی ڈاکیومنٹری کے خلاف ایک مضمون ہی لکھ دیا۔ وہ جانتے ہیں کہ تانا شاہ کو خاموش وفاداری سے تسلی نہیں ہوتی۔ اسے بار بار اس کا اعلان سننا ہوتا ہے۔

اسی لیے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر نے بھارتیہ جنتا پارٹی کے ترجمان کی زبان میں اس فلم کو پرانے زخموں کو کریدنے کی ایک غیر ضروری کوشش تو قرار دیا ہی ۔ ڈاکیومنٹری  بنانے والوں کو ‘وہائٹ میڈیا’ کہہ کر اپنے حساب سے سب سے بڑی پوسٹ کالونیل گالی بھی دی۔

وہ استاد بھی رہے ہیں۔ انہوں نے یہ دیکھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ ڈاکیومنٹری  بنانے والے گورے بالکل نہیں ہیں۔ وہ تو ہندوستانی ہی ہیں۔ لیکن اس طرح کی جانچ– پڑتال کی توقع اس عجلت پسندی میں رکھنا غلط ہے جو وائس چانسلر جیسے لوگوں کو ہوتی ہے، جب وہ دربار  میں اپنی وفاداری ثابت کرنے والوں میں بھی اول آنا چاہتے ہیں۔

جناب وائس چانسلر نےڈاکیومنٹری بنانے والوں کی سرزنش کرتے ہوئے کہا کہ ان کی اپنی برادری کو ایسے خودمختار رہنمانہیں چاہیے۔ یہ برادری 2002 کو کہیں پیچھے چھوڑ آئی ہے۔اس نظام کی رحمتوں  کے لیے وہ  کتنی شکر گزار ہے، اس کا اندازہ وائس چانسلر کو بالخصوص ان مسلم خواتین سے ملاقات کے بعد ہوا جنہیں عظیم رہنما نے آزاد کیا ہے۔

پتہ نہیں وائس چانسلر کس برادری کی بات کر رہے ہیں؟ کیا یہ وائس چانسلروں  کی  برادری  ہے یا سرکاری مسلمانوں کی؟ ورنہ ذکیہ جعفری بھی ایک مسلم خاتون ہیں جوخواہ مخواہ  20 سال گزر جانے کے بعد بھی انصاف کی رٹ لگائے بیٹھی  ہیں اور بلقیس بانو بھی ایک مسلمان خاتون ہیں۔ لیکن یہ سمجھا جانا چاہیے کہ ٹھیک اسی وجہ سے وائس چانسلر کو اس نظام میں مسلم خواتین کی خوشحالی  کا ذکر لانا ضروری تھا، تاکہ اس نظام کو ان کی بے غیرتی  کے بارے میں پوری تسلی ہوجائے۔

ابھی ہم یہ بات نہیں کر رہے  کہ انہوں نے خود علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کو ایک ‘خوف گاہ’ میں تبدیل کر دیا ہے۔ کوئی بھی  استاد اگر کہیں اس حکومت پر تنقید کرتے ہوئے کچھ لکھتا ہے تو اسے فوراً اوپر سے تنبیہ کی جاتی ہے۔ طالبعلموں کی طرف سے ہونے والے لٹریچر فیسٹیول کو روکنے کی کوشش بھی اوپر سے  کی گئی۔جیسے  2019 میں جب پولیس نے جامعہ میں گھس کر طلبہ پر حملہ کیا تھاویسے ہی  طرح علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں بھی۔ اس بات کو ہوئے ابھی تین سال ہی ہوئے ہیں اور وائس چانسلر کے لیے وہ بھی  ماضی  کا قصہ بن چکا ہے۔ پھر 2002 کا تشدد توان کے لیے زمانہ قدیم کی بات ہو گی ہی۔

ان  سب سے حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ جامعہ کی وائس چانسلر نے عہدہ ملنے کے بعد اپنی پہلی تصویریں جاری کی تھی، جس میں وہ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کی طرف سے مسلمانوں کو پالتو بنانے کو مقرر شخص سے آشیرواد لے رہی تھیں۔ اس شخص پر ان دہشت گردانہ حملوں کی سازش  کا الزام ہے جن میں مسلمان مارے گئے تھے۔ یہ درست ہے کہ ہندوستان کی تفتیشی ایجنسیوں نے انہیں بری کر دیا،  لیکن انہوں نے تو  2002 کے تشدد کے معاملے میں گجرات کے اس وقت کے وزیر اعلیٰ کو بھی بری کر دیا ہے۔

بی بی سی کی فلم سے ناراضگی یہی تو ہے کہ اس میں پوچھا گیا ہے کہ کیا اس تشدد سےاس شخص کو بری کیا جا سکتا ہے۔ یہ سوال سنا نہ جائے اسی کے لیے ہمارے یہ وی سی چاق و چوبند ہیں۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)