خبریں

مرکز کی جانب سے پابندی عائد کرنے کی کوششوں کے باوجود مختلف ریاستوں میں بی بی سی ڈاکیومنٹری کی اسکریننگ جاری

ہندوستان میں گجرات دنگوں میں نریندر مودی کے رول سےمتعلق بی بی سی ڈاکیومنٹری  کے ٹیلی کاسٹ کو روکنے کے لیے مرکزی حکومت کی ہر ممکن کوشش کے باوجود جمعرات کو ملک میں کم از کم تین جگہوں- ترواننت پورم میں کانگریس اورکولکاتہ اور حیدرآباد میں اسٹوڈنٹس فیڈریشن آف انڈیا نے اس کی اسکریننگ کا اہتمام کیا۔

بی بی سی ڈاکیومنٹری انڈیا: دی مودی کویسچن۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: bbc.co.uk)

بی بی سی ڈاکیومنٹری انڈیا: دی مودی کویسچن۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: bbc.co.uk)

نئی دہلی: کانگریس پارٹی کی کیرالہ یونٹ نے جمعرات  (26 جنوری) کو ترواننت پورم میں نریندر مودی پر بنی بی بی سی کی ڈاکیومنٹری دکھائی۔

واضح ہو کہ مرکزی حکومت اس بات کو یقینی بنانے کی پوری کوشش کر رہی ہے کہ ہندوستان میں اس دستاویزی فلم کی نمائش نہ ہو، اس لیے سوشل میڈیا پر اس کے لنکس کو بلاک کیا جا رہا ہے اور یونیورسٹیوں میں اس کی اسکریننگ کو روکنے کی کوشش کی جارہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق، اس دستاویزی فلم کی اسکریننگ کیرالہ میں پہلی بار نہیں کی گئی، اس سے قبل بائیں بازو کی طلبہ تنظیمیں بھی وہاں اس فلم کی اسکریننگ کرچکی ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) مقتدرہ ریاستی حکومت مودی حکومت کی جانب سے دستاویزی فلم کو آن لائن فورم سے ہٹانے کی کوششوں کے خلاف سامنے آئی ہے۔

دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

سی پی آئی (ایم) کی طلبہ ونگ اسٹوڈنٹ فیڈریشن آف انڈیا (ایس ایف آئی) نے بھی  جمعرات کی شام کولکاتہ کی جادو پور یونیورسٹی میں دستاویزی فلم کی اسکریننگ کی۔ ترنمول کانگریس کی حکومت والی پولیس نے اس میں رکاوٹ ڈالنے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ایس ایف آئی نے جمعرات کو حیدرآباد یونیورسٹی میں بھی دستاویزی فلم  دکھائی۔ تنظیم کے مطابق، اس دستاویزی فلم کی نمائش سینٹرل یونیورسٹی آف ہریانہ میں بھی کی گئی۔

کئی طلبہ تنظیموں نے پچھلے کچھ دنوں میں دہلی، حیدرآباد، کولکاتہ اور چندی گڑھ میں اس فلم کی نمائش کی ہے، جبکہ یونیورسٹی انتظامیہ نے کچھ معاملات میں اسے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی ہے۔

منگل کو دہلی کی جواہر لال نہرو یونیورسٹی کی انتظامیہ نے اسکریننگ کو روکنے کے لیے مبینہ طور پر بجلی اور انٹرنیٹ دونوں ہی کاٹ دیے، اور  دائیں بازو کی طلبہ تنظیم نے مبینہ طور پر ان لوگوں پر پتھراؤ کیا جو دستاویزی فلم دیکھنے کے لیے جمع ہوئے تھے۔ تاہم، طالبعلموں نے اپنے لیپ ٹاپ اور موبائل فون پرڈاکیومنٹری دیکھی۔

سینٹرل یونیورسٹی آف ہریانہ کے ہاسٹل میں اسکریننگ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ایس ایف آئی فیس بک پیج)

سینٹرل یونیورسٹی آف ہریانہ کے ہاسٹل میں اسکریننگ۔ (فوٹو بہ شکریہ: ایس ایف آئی فیس بک پیج)

بدھ کے روز جامعہ ملیہ اسلامیہ میں پولیس نے اسکریننگ سے پہلے طلبہ  کارکنوں کوحراست میں لے لیا، اور دنگا  پولیس کو کیمپس  میں بھیجا گیا۔

دستاویزی فلم کیرالہ اور حیدرآباد کی یونیورسٹیوں میں بھی دکھائی گئی۔ حیدرآباد یونیورسٹی انتظامیہ نے اس بات کی تحقیقات کا حکم دیا ہے کہ اس کی اسکریننگ کا اہتمام کس نے کیا اور یہ کیسے ہوا۔

معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

فلم میں برطانیہ حکومت کی اب تک ان دیکھی  تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیا گیا ہے، جس میں کہا گیا ہے کہ ‘نریندر مودی براہ راست ذمہ دار ہیں’۔ یہ واقعات کے سلسلے کو ‘تشدد کی ایک منظم مہم’ کے طور پر بیان کرتی ہے جس میں ‘نسل کشی  کے تمام اشارے’ ہیں۔

اس وقت کے برطانوی وزیر خارجہ جیک اسٹرا اس میں یہ کہتے ہوئے نظر آ رہے ہیں کہ برطانوی ٹیم نے ‘بہت جامع  رپورٹ تیار کی ہے’۔

حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

گزشتہ 20 جنوری کو وزارت خارجہ کے ترجمان ارندم باگچی نے بی بی سی کی اس فلم پر صحافیوں کے سوالات کا جواب دیتے ہوئے کہا  تھاکہ یہ ‘غلط بیانیہ’ کو آگے بڑھانے کے لیےایک پروپیگنڈے کا حصہ ہے۔

تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم  ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی  گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ  اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔