خبریں

’پٹھان‘ فلم تنازعہ کے بعد مرکزی وزیر نے کہا – بائیکاٹ کلچر سے ماحول خراب ہوتا ہے

اطلاعات و نشریات کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم سے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ  مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔ بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کر دیتے  ہیں۔

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

مرکزی وزیر اطلاعات و نشریات انوراگ ٹھاکر۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: اطلاعات و نشریات  کے مرکزی وزیرانوراگ ٹھاکر نے جمعہ کو بعض فلموں کو نشانہ بنانے والے ‘بائیکاٹ کلچر’ کی مذمت کی اور کہا کہ ایسے وقت میں اس طرح کے واقعات ماحول کو خراب کرتے ہیں،  جب ہندوستان خود کو ‘سافٹ پاور’ کے طور پر اپنے اثر ورسوخ کو بڑھانے کا خواہاں ہے۔

ٹھاکر نے کہا کہ اگر کسی کو کسی فلم کوسے کوئی مسئلہ ہے تو اسے متعلقہ سرکاری محکمے سے بات کرنی چاہیے جو فلمسازوں کے ساتھ متعلقہ  مسئلے کو اٹھا سکتا ہے۔

مختلف گروپوں کی طرف سے فلموں کے بائیکاٹ کے بارے میں پوچھے جانے پر ٹھاکر نے یہاں ممبئی میں  نامہ نگاروں کو بتایا، ایک ایسے وقت میں جب ہندوستان ایک ‘سافٹ پاور’ کے طور پر اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا خواہاں ہے، ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے  ہرکونے میں ہندوستانی فلمیں دھوم مچارہی ہیں، اس طرح کی  باتیں ماحول کو خراب کرتی ہیں۔

وزیر موصوف  کا یہ تبصرہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بدھ کو ریلیز ہونے والی شاہ رخ خان کی فلم ‘پٹھان’ کے ایک گانے پر بائیکاٹ کرنے کی اپیل  کی جارہی ہے۔اس سے پہلےاکشے کمار کی ‘سمراٹ پرتھوی راج’، عامر خان کی ‘لال سنگھ چڈھا’ اور دیپیکا پڈوکون کی ‘پدماوت’ کو بائیکاٹ کا سامنا کرنا پڑا ہے۔

ٹھاکر نے کہا، اگر کسی کو (فلم کے ساتھ) کوئی مسئلہ ہے، تو انہیں متعلقہ محکمہ سے بات کرنی چاہیے، جو اسے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کے ساتھ اٹھائے گا۔ تاہم بعض اوقات ماحول کو خراب کرنے کے لیے کچھ لوگ اسے پوری طرح جاننے سے پہلے ہی اس پر تبصرہ کردیتے ہیں۔ اس سے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔’

ٹھاکر شنگھائی کوآپریشن آرگنائزیشن (ایس سی او) فلم فیسٹیول کا افتتاح کرنے کے لیے ممبئی میں ہیں، جس میں آٹھ یوریشیائی ممالک کے علاقائی گروپ کی 58 فلمیں دکھائی جائیں گی۔

دی ہندو کے مطابق، ٹھاکر نے کہا کہ پانچ روزہ فلم فیسٹیول کی شروعات پدم شری اور نیشنل ایوارڈ یافتہ فلمساز پریہ درشن کی تمل فلم اپتھا کی نمائش کے ساتھ ہوگی۔

انہوں نے کہا کہ فلم فیسٹیول ایس سی او خطے میں فلموں اور فلمسازی کے تنوع کو ظاہر کرنے کے لیے شامل ہونے  اور تعاون کرنے کا ایک پلیٹ فارم ہے اور اب وقت آگیا ہے کہ اکٹھے ہو کر ایسی فلمیں بنائیں جو ہندوستانی ثقافتوں کی عکاسی کرتی ہوں۔

ٹھاکر نے کہا، ‘ہندوستان دنیا کا سب سے بڑا فلمساز ملک ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں ہم نے دیکھا ہے کہ ایک ملک کے طور پر ہندوستان نے دنیا پر کس طرح اثر ڈالا ہے۔ راج کپور کی ‘میرا نام جوکر’ یا متھن چکرورتی کی ‘آئی ایم اے ڈسکو ڈانسر ہوں’ پوری دنیا میں ہندوستانی سنیما انڈسٹری کے اثر و رسوخ کے بارے میں بہت کچھ ظاہر کرتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سنیما ایک عبوری ملک کی لازوال کہانیاں بیان کرتا ہے اور ہندوستان دنیا کے مواد کا مرکز بننے کا ہدف بنارہا ہے۔ وزیر نے تخلیقی خودمختاری کی بھی پرزور وکالت کی اور کہا کہ ‘اوور دی ٹاپ’ (او ٹی ٹی) پلیٹ فارم پر مواد کی نگرانی کے لیے خاطر خواہ اقدامات کیے گئے ہیں۔ ٹھاکر نے کہا، تخلیقیت پر کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ وزارت اطلاعات و نشریات کواو ٹی ٹی  پلیٹ فارم پر مواد کے حوالے سے شکایات موصول ہوتی ہیں، لیکن تقریباً 95 فیصد شکایات پروڈیوسر کی سطح پر حل ہو جاتی ہیں اور دیگر کو’ایسوسی ایشن آف پبلشرز’ کے دوسرے مرحلے پر حل کیا جاتا ہے۔

وزیر نے کہا کہ صرف ایک فیصد شکایات انٹر ڈپارٹمنٹل کمیٹی تک پہنچتی ہیں اور اس بات کو یقینی بنایا جاتا ہے کہ ایسے معاملات میں سخت کارروائی کی جائے۔

بتا دیں کہ اس سے پہلے حال ہی میں وزیر اعظم نریندر مودی نے بی جے پی کارکنوں سے کہا تھا کہ وہ فلموں کے خلاف غیر ضروری تبصرے نہ کریں۔ انہوں نے بی جے پی لیڈروں سے کہا تھاکہ وہ سرخیوں میں آنے کے لیے فلموں اور مشہور شخصیات کے خلاف غیر ضروری تبصرہ کرنے سے گریز کریں۔

معلوم ہو کہ گزشتہ  ماہ سے شاہ رخ خان کی فلم ‘پٹھان’ تنازعات میں گھری ہوئی تھی۔ 12 دسمبر 2022 کو اس کے گانے ‘بےشرم رنگ’ کے ریلیز ہونے کے بعد اس پر پابندی لگانے کا مطالبہ کیا جانے لگا تھا۔ گانے کے ایک سین  میں اداکارہ دیپیکا پڈوکون کو بھگوا رنگ کی بکنی میں دیکھا جا سکتا ہے، جس کے خلاف  ملک بھر میں احتجاج  کیے گئے اور ‘ہندو جذبات کو ٹھیس پہنچانے’ کے الزامات لگائےگئے۔

مدھیہ پردیش کے وزیر داخلہ نروتم مشرا اور وشو ہندو پریشد جیسی تنظیمیں ان لوگوں میں شامل رہے ہیں جنہوں نے ‘بےشرم رنگ’ گانے پر اپنی ناراضگی  کا اظہار کیا اور اس میں تبدیلی کا مطالبہ کیا۔

بی جے پی کے وزراء اور دائیں بازو کی تنظیموں نے یہ دعویٰ  بھی کیا  کہ گانے میں بھگوا رنگ کی توہین کی گئی ہے، جو ہندو برادری کے لیے مقدس ہے۔

بھوپال سے بی جے پی کی رکن پارلیامنٹ سادھوی پرگیہ نے کہا تھا، ‘ان کے پیٹ پر لات مارو، ان کے دھندے چوپٹ کر دو اور کبھی ان کی کوئی فلم مت  دیکھو’۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)