خبریں

اعظم گڑھ اور اطراف میں اعلیٰ تعلیم کے مواقع کا فقدان

اعظم گڑھ گرچہ اپنی علمی اور ادبی حیثیت کے لیے ملک اوربیرون ملک مشہور ہے، پھر بھی  نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے یہاں بہت سارے مسائل برسوں سے حل طلب ہیں۔ابتدائی تعلیم توکسی طرح ہوجاتی ہے، لیکن اس کے بعد سیکنڈری، سینئرسیکنڈری اور اس سے آگے معیار ی تعلیم کا حصول آسان نہیں ہے۔

علامتی تصویر، پی ٹی آئی

علامتی تصویر، پی ٹی آئی

عبداللہ کے لیے وہ دن بہت سخت تھا۔ ایک طرف اعلیٰ تعلیم کے لیے ممتاز دانش گاہ علی گڑھ جانے کی خوشی تو دوسری طرف والدین اور بھائی بہنوں سے جدائی کا غم۔ 12 سالہ عبد اللہ پہلی بار اتنی دور جارہے تھے۔ والدین جہاں ان کی  اعلیٰ تعلیم کا خواب سجائے تھے  وہیں کم عمری میں بیٹے کے گھر سے سینکڑوں میل دورجانے سے غمگین تھے۔ گرچہ وقت گزرنے کے ساتھ سب کچھ ٹھیک ہوگیا اور اب عبداللہ گریجویشن کے طالبعلم ہیں لیکن ان  کو پہلی بار گھر سے علی گڑھ آنے کا دن اچھی طرح یاد ہے۔

 یہ کہانی صرف  عبداللہ کی نہیں بلکہ اعظم گڑھ اوراطراف کے ہزاروں نوجوانوں کی ہے۔ معیاری تعلیم کے حصول کی لگن ان کو کم عمری میں اپنوں سے جدا کردیتی ہے اور پھر کچھ کرجانے کا خواب ان کےاحساسات کو دوریوں اورتنہائیوں سے بھر دیتا ہے۔

اعظم گڑھ اور آس پاس کا علاقہ گرچہ اپنی علمی اور ادبی حیثیت کے لیے ملک اوربیرون ملک مشہور ہے۔مرد م شماری 2011 کے مطابق  یہاں کی شرح خواندگی تقریباً 71 فیصد ہے جو کہ ریاستی اور قومی  شرح خواندگی سے زیادہ ہے پھر بھی  نئی نسل کی تعلیم وتربیت کے حوالے سے بہت سارے مسائل برسوں سے حل طلب ہیں۔

گاؤں کی سطح پر سرکاری و نجی  اسکول اور مکاتب موجود ہیں جہاں ابتدائی تعلیم کسی طرح ہوجاتی ہے۔ اس کے بعد سیکنڈری، سینئرسیکنڈری اور اس سے آگے معیار ی تعلیم کا حصول آسان نہیں ہے۔

تعلیمی اداروں کی قلت ، پیشہ ورانہ اور تکنیکی اداروں کی عدم دستیابی،  بہتر ماحول  اور وسائل کی کمی جیسی متعدد وجوہات ہیں۔ پچھلے کئی سالوں سے بہت سارے والدین کو اپنے بچوں کو دور بھیجنے میں سیکورٹی کے خدشات بھی لاحق   رہے ہیں۔

گزشتہ سال ریاستی حکومت نے اعظم گڑھ میں سہیل دیواسٹیٹ یونیورسٹی کے قیام کا اعلان کیا تھا۔ اس سے قبل پورے ضلع میں پھیلے 268گریجویشن اور پوسٹ گریجویشن کالج ویر بہادر سنگھ پوروانچل یونیورسٹی ، جو ن پور سے ملحق تھے۔ آبادی کے لحاظ سے یہ تعداد کم ہے اس کے علاوہ بہت سارے کالج چند کمروں پر ہی مشتمل ہیں اور امتحان کے دنوں میں ہی آباد ہوتے ہیں۔ پیشہ ورانہ کورسز والے کالجوں کی تعداد انتہائی کم ہے۔

اسکولوں کا معیارگرچہ کالجوں سے کسی درجہ بہتر ہے لیکن پھربھی طلبہ کی ایک بڑی تعداد علی گڑھ وغیرہ کے اچھے اسکولوں میں داخلہ کی کوشش کرتی ہے۔ اس کے علاوہ دیہی علاقوں کے متمول والدین بھی بچوں کی سیکنڈری اور سینئر سیکنڈری کی بہتر تعلیم کے لیے 20 سے 25کلومیٹر دور شہر کے اسکول بھیجتے ہیں۔

عبد اللہ بتاتے ہیں کہ، داخلہ کے مہینوں میں اگر آپ اعظم گڑھ سے لکھنؤ ، علی گڑھ یا دہلی جانے والی ٹرینوں میں سفر کریں تو آپ کو طلبہ کی ایک بڑی تعداد نظر آئے گی  جن میں اسکول کی عمر کے بچے بھی ہوتے ہیں۔

ماسٹر ابوسفیان  جو کہ اپنے گاؤں بیناپارہ میں نصف درجن چھوٹے بڑے اداروں کے بانی ہیں کا ماننا ہے کہ،معیاری تعلیم کے فقدان میں بنیادی وجہ اچھے کالجوں کی کمی ہے اورجواچھے  کالج ہیں ان کی انتظامیہ  بہت زیادہ سنجیدہ نہیں  ہے۔ اگر انتظامیہ بچوں کے مستقبل کو لے کر فکر مند ہو تومعیاری تعلیم  کا مسئلہ حل  ہوسکتا ہے ۔

محمد پور کے ارسلان احمد سینٹرل یونیورسٹی آف کیرالہ میں ایم ایڈ کے طالبعلم ہیں ، ماسٹر ابوسفیان کی بات سے متفق نظر آتے ہیں۔ تعلیمی نظام پر سوال  کرتے ہوئے ارسلان کہتے کہ ،ہمارے یہاں اکثر ڈگری کالجوں میں پڑھائی تو ہوتی ہے لیکن اس کا کوئی خاص معیار نہیں ہے۔ طلبہ کالج میں داخلہ لیتے ہیں اوربغیر کلاس کیے امتحان دیتے ہیں اور ان کو ڈگر ی مل جاتی ہے۔سینٹرل یونیورسٹی میں آنے کا بڑا فائدہ یہ ہے کہ تعلیم کا معیار سمجھ میں آتا ہے۔پڑھنے پڑھانے کے ماحول میں خود سے سیکھنے ا ور کرنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔

معیاری تعلیم کے ساتھ ساتھ نئے اور پیشہ ورانہ کورسز کی کمی بھی ایک اہم مسئلہ ہے جویہاں کے لوگوں کو دوردراز کے اداروں کے سفر کے لیے مجبور کرتی ہے۔

چاند پٹی سے تعلق رکھنے والے اسامہ عظیم  فلاحی پنجابی یونیورسٹی پٹیالہ میں مطالعہ مذاہب میں پی ایچ ڈی کررہے ہیں ۔ اسامہ بتاتے ہیں کہ انہیں اتنی دور اس لیے آنا پڑا کیوں کہ،ایک تو اپنے یہاں یہ کورس نہیں ہے۔دوسرے جو شعبے ہیں ان کا معیار اس قابل نہیں کہ کوئی   وہاں رہ کراعلیٰ تعلیم حاصل کرے۔ڈگری تو مل جاتی ہے لیکن عملی میدان میں کوئی خاص فائدہ نہیں ہوتا ۔’

قاسم شہباز نوئیڈا میں بیچلر آف کمپیوٹر اپلی کیشن (بی سی اے) کے طالب علم ہیں، ان  کا بھی یہی ماننا ہے۔ ان کے بقول ،اعظم گڑھ میں پیشہ ورانہ کورسز بہت کم ہیں اور جو ہیں وہ ڈپلوما تک محدود ہیں۔ اس لیے لوگ گھر چھوڑ کرلکھنؤ،علی گڑھ اور دہلی وغیرہ جانا پسند کرتے ہیں۔

نفیس احمد اعظم گڑھ کے گوپال پور اسمبلی حلقہ سے سماجوادی پارٹی کے ایم ایل اے ہیں اور سال 2006میں علی گڑھ مسلم یونیورسٹی طلبہ یونین کے صدر رہے ہیں۔ نفیس اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ معیاری اسکول اور کالج مناسب تعداد میں موجود نہیں ہیں۔

وہ کہتے ہیں ، علاقہ میں معیاری تعلیم کی کمی کا بڑا سبب معیاری اسکول اور کالج کا فقدان ہے۔ شبلی کالج جیسے کئی ادارے عوامی کوششوں سے وجود میں آئے لیکن سرکاری سطح پر کوئی خاص پیش رفت نہیں ہوئی ۔میں نے بھی اپنی سطح سے کوشش کی لیکن ابھی تک کامیابی نہیں ملی۔

پیشہ ورانہ  کورسز آمدنی کا اچھا ذریعہ ہوتے  ہیں، جن میں داخلہ لینے اور سیکھنے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ لیکن  ایسے  کالج  اور کوسز کی تعداد بھی  آبادی کےلحاظ سے آٹے میں نمک کے برابرہیں ۔محمد شاہد اعظم گڑھ پبلک اسکول میں استاذ ہیں اور اس سے قبل دہلی پبلک اسکول میں ایک عرصہ تک اپنی خدمات انجام دے چکے ہیں، وہ کہتے ہیں،تکنیکی اور پیشہ ورانہ کورسزبہت کم ہیں اور جو ہیں بھی ان کے بارے میں طلبہ کو صحیح   معلومات  نہیں ہے۔اعلیٰ تعلیم کے نام پر صرف بی اے ، ایم اے ، بی ایس سی، ایم ایس سی ، ایم بی اے اور ایل ایل بی وغیرہ کی تعلیم ہوتی ہے۔

یہ مسائل لڑکیوں کی تعلیم کے معاملہ میں دوچند ہوجاتے ہیں۔ گرچہ لڑکیوں میں اعلیٰ تعلیم کے حصول کا رجحان بڑھاہے  لیکن جو لڑکیا ں شہر اور قصبوں میں رہتی ہیں ان کے لیے اتنے مسائل نہیں ہیں لیکن دیہات کی اکثر لڑکیاں دسویں یا بارہویں کے بعد پڑھائی چھوڑ دیتی ہیں ۔

مینہ نگر کی رہنے والی کَنک لتا یادو جو  جواہر لعل نہرو یونیور سٹی میں بین الاقوامی تعلقات میں  پی ایچ ڈی کررہی ہیں، ان  کا خیال ہے،اپنے یہاں لڑکیوں کی پڑھائی دوسرے اضلاع کے مقابلے بہتر ہے ۔ بہت کم لوگ ہوں گے جو اپنی لڑکیوں کو نہیں پڑھاتے ۔ لیکن لڑکیوں کے لیے دور جاکر پڑھنا آسان نہیں ہوتا ۔گھر سے باہر رہ کر پڑھنے میں  سب سے بڑا مسئلہ ان  کی رہائش  کا ہے جو اب پہلے سےزیادہ  بڑھ گیاہے۔

آمدنی کے وسائل کی کمی بھی معیاری تعلیم کے حصول میں ایک بڑی رکاوٹ ہے۔ معاش کا انحصار زیادہ تر کھیتی باڑی یا پھر بڑے شہروں اور خلیج کے ملکوں  میں ملازمت پر ہے۔ بہت سے بچے اور بچیاں اس لیے اعلیٰ تعلیم نہیں حاصل کرپاتے کےان کے والدین کے پاس اتنی رقم نہیں ہے کہ وہ اپنے بچوں کو گھر سے باہر رکھ کر پڑھائیں یا بچیوں کو دور جانے کے لیے سواری کا انتظام کرسکیں۔

سماجی کارکن مسیح الدین سنجر ی بتاتے ہیں کہ ،حکومت اور عام لوگوں کی نظر سے دیکھیں تو یہاں غربت نہیں ہے ،لیکن آمدنی کا کوئی  مستقل ذریعہ بھی موجود نہیں ہے۔اس لیے لوگ اپنے گھریلو خرچ سے ہر ماہ بچوں کی تعلیم کے لیے 7سے  8 ہزار روپیہ نکالنے سے  پہلے سوچتے ہیں ۔

یونیورسٹی کے قیام سےلوگوں  میں امید کی ایک نئی کرن پیدا ہوئی ہے ۔سینٹ زیویرس اسکول میں معاشیات کے استاذحمزہ ایوبی کے مطابق،یونیورسٹی کھلنے سے بڑا فائدہ یہ ہوگا کہ  اس کی وجہ سے بہت سے سرکاری و غیر سرکاری  اسکول و کالج  بھی کھلیں گے ، تعلیم کا معیار بہتر ہوگا لوگوں میں تعلیمی  بیداری بڑھے گی ۔

تاہم ماسٹر ابوسفیان کہتے ہیں کہ،معیار ماحول  سے بنتاہے اور ماحول سماجی خدمت سے ۔تعلیمی ماحول کے لیے ضروری ہے کہ معاشرے کے پڑھے لکھے افرادا سماجی خدمت کےلیے  آگےآئیں۔ بغیر سماجی خدمت کے تعلیمی رجحان پیدا ہونا مشکل ہے۔

معیار تعلیم بلند کرنے کے لیے عوامی بیداری اور خواص کی شمولیت یقیناً  ضروری ہے لیکن اس سے زیادہ ضروری انفراسٹرکچر کی فراہمی ہے۔ ادھر کچھ سالوں میں عوامی  بیدار ی بڑھی ہے لیکن حکومت اور انتظامیہ کے ذریعہ بہت سے مسائل پر فوری توجہ وقت کی سب سےا ہم ضرورت ہے۔

(ابوالفیض ایک فری لانس صحافی ہیں ۔انہوں نے یہ رپورٹ این ایف آئی کی آزادصحافیوں کے لیے فیلو شب پروگرام کے تحت تیار کی  ہے۔)