عالمی خبریں

بی بی سی ڈاکیومنٹری: برطانوی حکومت نے بی بی سی کی آزادی کا دفاع کیا

گجرات دنگوں میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول  پر بنی  بی بی سی ڈاکیومنٹری کے خلاف اوورسیز انڈین کمیونٹی کے بڑے پیمانے پر احتجاج کےمدنظر برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے ترجمان نے کہا کہ وہ اس بات پر زور دینا چاہیں گے کہ ہم ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دارتسلیم کرتے ہیں۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: bbc.co.uk)

(اسکرین گریب بہ شکریہ: bbc.co.uk)

نئی دہلی: گجرات دنگوں  میں وزیر اعظم نریندر مودی کے رول  پر بنی بی بی سی کی دستاویزی سیریز’انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے خلاف اوورسیز انڈین کمیونٹی کے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے مد نظر برطانوی حکومت نے بی بی سی کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ایک آزاد صحافتی ادارہ  ہے۔

بدھ کو دارالحکومت لندن میں ڈاؤننگ اسٹریٹ میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے برطانوی وزیر اعظم رشی سنک کے ترجمان نے اس ہفتے کے شروع میں پارلیامنٹ میں دیے گئے وزیر خارجہ جیمس کلیورلی کے اس بیان کا اعادہ کیا، جس میں کہا گیا تھا کہ برطانیہ کی حکومت ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات کو بہتر بنانے کے لیے پرعزم ہے۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کی ہندوستان کی مذمت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے کہا،بی بی سی اپنے کام میں آزاد ہے اور ہم اس بات پر زور دیں گے کہ ہم ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دارتسلیم کرتے ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ،ہم آنے والی دہائیوں میں ہندوستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں مزید سرمایہ کاری کریں گے اور ہمیں یقین ہے کہ یہ اور مضبوط ہوتا جائےگا۔

خبرر ساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، اسی طرح کا ردعمل وزیر خارجہ جیمس کلیورلی نے منگل (31 جنوری) کو ہاؤس آف کامنز میں دیا تھا، جب انہوں نے بی بی سی کے خلاف ہندوستانی تارکین وطن کے حتجاج کے تناظر میں برطانوی حکومت کی طرف سے ہندوستان کو کرائی  گئی یقین دہانیوں پر کنزرویٹو پارٹی کے ایک ساتھی کے سوال کا جواب دیا تھا۔

وزیر خارجہ نے اراکین پارلیامنٹ سے کہا، ‘مجھے حال ہی میں اس  پراور کئی دیگر مسائل پر ہندوستانی ہائی کمشنر وکرم دوریسوامی سے بات کرنے کا موقع ملا’۔

انہوں نے کہا، ‘ہم تسلیم کرتے ہیں کہ حکومت ہند کی یہ عکاسی  ہندوستان میں کیسی رہی ہے۔ میں نے واضح کر دیا ہے کہ  بی بی سی اپنے آؤٹ پٹ میں آزاد ہے، برطانیہ ہندوستان کو ناقابل یقین حد تک اہم بین الاقوامی شراکت دار کے طور پر تسلیم کرتا ہے اور ہم آنے والی دہائیوں میں اس تعلقات میں اورزیادہ سرمایہ کاری کریں گے۔

وزیر آل پارٹی پارلیامانی گروپ فار برٹش ہندوز (اے پی پی جی) کے چیئرمین ٹوری ایم پی باب بلیک مین کے ایک سوال کا جواب دے رہے تھے، جنہوں نے اس دستاویزی فلم کو ‘ہندوستان مخالف پروپیگنڈہ’ قرار دیا۔

گزشتہ ہفتے انڈیا گلوبل فورم کے یوکے انڈیا پارلیامانی لنچ  کے دوران جیمس کلیورلی نے ہندوستانی ہائی کمشنر وکرم ووریسوامی سے ملاقات کی اور تمام شعبوں میں دوطرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کے لیے اراکین پارلیامنٹ اور کاروباری رہنماؤں کے ایک جلسے سے خطاب کیا۔

اس سے قبل 20 جنوری کو برطانوی وزیر اعظم رشی سنک  پارلیامنٹ میں دستاویزی فلم پر بات کرتے ہوئے مودی کا دفاع کرتے ہوئے دیکھے گئے ۔

بی بی سی کی دستاویزی فلم پر رکن پارلیامنٹ عمران حسین کے سوال کا جواب دیتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ ‘جناب اسپیکر، اس پر برطانوی حکومت کا موقف کافی عرصے سے واضح ہے اور اس میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ بے شک ہم ہراسانی کو برداشت نہیں کرتے، یہ جہاں بھی ظاہر ہوتا ہے، لیکن مجھے یقین نہیں ہے کہ میں اس سے پوری طرح اتفاق کرتا ہوں جو محترم نے سامنے رکھا ہے۔

معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم  ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی  گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ  اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی نمائش کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو)، دہلی یونیورسٹی اور جامعہ ملیہ اسلامیہ کے طلبہ نےگزشتہ دنوں اس وقت احتجاجی مظاہرہ کیا تھا،  جب یونیورسٹی حکام نے دستاویزی فلم کی نمائش کی اجازت دینے سے انکار کردیا تھا۔

اطلاعات کے مطابق، جہاں طلبہ تنظیموں نے کالجوں/یونیورسٹیوں میں اسکریننگ جاری رکھنے کی کوشش کی وہیں بجلی کاٹ دی گئی اور انٹرنیٹ کنکشن بھی معطل کر دیا گیا۔

اس کے باوجود، ملک بھر میں حزب اختلاف کی جماعتیں اور طلبہ گروپ اس دستاویزی فلم کی عوامی نمائش کرنےکی کوشش کر رہے ہیں، جن میں کچھ معاملوں میں پولیس کے ساتھ تصادم بھی ہوا۔

اس سلسلے میں نیشنل الائنس آف جرنلسٹس، دہلی یونین آف جرنلسٹس اور آندھرا پردیش ورکنگ جرنلسٹس فیڈریشن جیسے صحافتی اداروں نے کہا تھا کہ انہیں مختلف یونیورسٹیوں میں بی بی سی کی دستاویزی فلم نشر کرنے کی کوشش کرنے والے طلبہ اور ان کی یونین پر بڑھتے ہوئے حملوں کو لے کر تشویش ہے۔ہم  بہت پریشان  ہیں۔ ان کے مطابق یہ پریس کے حقوق اور آزادی پر حملوں کے تسلسل کا حصہ ہے۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)