فکر و نظر

جنرل پرویز مشرف اور کشمیر

پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا  موقع تو ملا۔

Pakistan's former President Pervez Musharraf. Photo: © Europen Parliament/P.Naj-Oleari pietro.naj-oleari@europarl.europa.eu

Pakistan’s former President Pervez Musharraf. Photo: © Europen Parliament/P.Naj-Oleari pietro.naj-oleari@europarl.europa.eu

ویسے تو پاکستان کو کئی ایسے حکمراں  نصیب ہوئے ہیں، جو خاصے پیچیدہ، متلون مزاج اور پل میں تولہ اور پل میں ماشہ جیسی خصوصیات رکھتے تھے، مگر سابق صدر اور فوجی سربراہ جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کو، جن کا اتوار کو دبئی کے ایک اسپتال میں طویل علالت کے بعد انتقال ہوگیا،بیک وقت جارحانہ جنگی جنون رکھنے اور امن مساعی کے لیےیاد کیا جائے گا۔

میر ی دو بار ان سے ملاقات ہوئی ہے۔  ایک توجب جولائی2001کو آگرہ میں چوٹی مذاکرات میں شرکت کرنے سے ایک روز قبل نئی دہلی میں پاکستانی سفیر نے ان کے اعزاز میں چائے کی دعوت رکھی تھی اور صحافیوں اور چند دانشوروں کو اس میں مدعو کیا تھا، دوسرا 2005 میں جب وہ ایک بار پھر نئی دہلی میں تھے اور اس وقت وہ ہندوستان  اور پاکستان کے مابین ایک روزہ کرکٹ میچ دیکھنے آئے تھے۔

اس دوران وزیر اعظم منموہن سنگھ کی طرف سے ان کے اعزاز میں دی گئی ضیافت اور پھر خود مشرف نے تاج ہوٹل میں پاکستانی اور ہندوستانی ٹیموں کے اعزاز میں ڈنر کی دعوت دی، جس میں دہلی کی اشرافیہ کی ایک بڑی تعداد نیز صحافی اور سفارت کار بھی مدعو تھے۔ وہ ایک اچھے میزبان کی طرح ہر ٹیبل پر خبر و خیریت دریافت کرنے آکر ہاتھ ملا رہے تھے۔

ان دونوں دوروں کے دوران ان کا رویہ یکسر برعکس تھا۔ 2001میں وہ خاصے جارحانہ موڈ میں تھے اور اسی لہجے میں باتیں کر تے تھے، مگر 2005میں ان کی بولی بکل مختلف تھی۔ 2001میں جب ابھی حریت کانفرنس متحد تھی اور آگرہ مذاکرات سے قبل  اس کے لیڈران نے  ان سے پاکستانی سفیر کی رہائش گاہ پر ملاقات  کی  تو عبدالغنی لون اور پروفیسر عبدالغنی بٹ نے ان سے استفسار کیا کہ کرگل جنگ کے اہداف میں ناکامی کے بعد کیا کوئی متبادل راستہ ڈھونڈا جائےگا اور جنگ جیسے اقدام کے لیے پاکستان کی سیاسی قیادت اور فوجی قیادت ایک پیج پر کیوں نہیں تھی اور حریت کو بھی اعتماد میں کیوں نہیں لیاگیا تھا، تاکہ وہ ایک رائے عامہ بناتے تو مشرف خاصے جزبجز ہوگئے۔

ان لیڈران نے کہا کہ لاہور اعلامیہ کے فوراً بعد ہی کیوں کرگل کا واقعہ رونما ہوا؟ اگر کرگل میں فوج کشی کرنی تھی تو ہندوستانی وزیر اعظم واجپائی کو لاہور آنے ہی نہیں دینا چاہیے تھا۔ مشرف نے ان سوالات کو ان کی کمزوری سے تشبہہ دےکر اسی میٹنگ میں موجود سید علی گیلانی کی تعریفوں کے پل باندھ دیے کہ وہ اپنے موقف پر ڈٹے ہیں۔

مگر  2005 میں جب حریت تقسیم ہو چکی تھی اور اس کے دھڑے الگ الگ اسی کمرے میں دوبارہ ا ن سے ملے، تو ان کا رویہ الٹا تھا۔ اس میٹنگ میں تو انہوں نے میرواعظ عمر فاروق کے سربراہی والے گروپ کی تو تعریف کی مگر دوسری میٹنگ جو علی گیلانی کے ساتھ تھی اس میں ان کا پارہ چڑھا ہو اتھااور وہ ان کو طعنے دے رہے تھے کہ وہ بس ایک ہی رٹ لگائے ہوئے ہیں۔ اس میٹنگ میں تو بلوچستان اور اکبر بگتی سے نمٹنے کے حوالے سے علی گیلانی کے دیے گئے بیانات پر مشرف خاصے غصہ میں تھے۔ یہ میٹنگ تو ایک لفظی جنگ کا نمونہ بن گئی۔

مشرف میں لاکھ برائی سہی۔پاکستانی ان کو ملک میں دہشت گردی کی لہر اور اپنے ہی لوگوں کو ڈالروں کے عوض امریکہ کے سپرد کرنے کا بھی ذمہ دار ٹھہراتے ہیں، مگر ان کا سب سے بڑا کارنامہ یہ تھا کہ ہندوستان کے ساتھ امن مساعی کے نام پر انہوں نے ایک ماحول تیار کرنے میں مدددی تھی، جس کی وجہ سے کشمیر میں سیاسی جماعتوں بشمول حریت کانفرنس اور دیگر آزادی پسند گروپوں کو سانس لینے کا  موقع تو ملا۔

علی گیلانی نے اس کا بھر پور فائدہ اٹھا کر ریاست کے طول و عرض میں قریہ قریہ دورہ کرکے عوام کو لام بند کیا،جس کا شاخسانہ بعد میں 2008اور 2010پھر بعد میں 2016کی عوامی بغاوت تھی۔ گو کہ 2003کے بعد وزارت اعلیٰ کے عہدے پر فائز مفتی محمد سعید اس پالیسی کاکریڈیٹ اپنے سر لیتے ہیں، کیونکہ ان کا کہنا تھا کہ انہوں نے نئی دہلی کو قائل کرایا تھا کہ وہ سیاسی میدان میں آزادی پسندوں کا مقابلہ کریں گے۔ مگر یہ مشرف کے بغیر ناممکن تھا۔

ان ایجی ٹیشنز کی وجہ سے جو اہم تبدیلی رونما ہوئی وہ یہ تھی کہ تحریک کی کمان، عسکریت سے سیاسی قیادت کے پاس چلی گئی۔ اعتماد سازی کے کئی اقدامات روبہ عمل لائے گئے، جن میں سب سے اہم لائن آف کنٹرول کو راہداری اور تجارت کے لیے کھولنا تھا۔

علاو ہ ازیں مشرف کے کشمیر پر فارمولہ پر بحث و اختلاف کی گنجائش تو موجود ہے، مگر یہ پہلا موقع تھا کہ جب دو طرفہ مذاکرات میں مسئلہ کشمیر پر کئی دہائیوں کے بعدسنجیدگی کے ساتھ گفت و شنید ہو رہی تھی اور لگتا تھا کہ شاید اب برف پگھل رہی ہے۔ دونوں ممالک نان پیپرز کا تبادلہ کر رہے تھے۔ جون 1997میں جب ہندوستان اور پاکستان نے آٹھ متنازعہ امور کی نشاندہی کرکے ان پر الگ الگ ورکنگ گروپ بناکر مربوط جامع مذاکرات کا احیا کیا، تو میں نے ان مذاکرات کو کور کرنا شروع کردیا تھا۔

یہ آٹھ امور، امن و سلامتی اور اعتماد سازی، جموں و کشمیر، سیاچن، ولر بیراج، سر کریک، تجارت اور اقتصادی تعاون، دہشت گردی اور ڈرگ ٹریفکنگ اور عوامی روابط و کلچر کا فروغ تھے۔ جہاں دیگر ورکنگ گروپوں کی میٹنگ گھنٹوں چلتی تھی، کشمیر والے ورکنگ گروپ کی میٹنگ بس چند منٹ میں ہی ختم ہوجاتی تھی۔

دونوں ملکوں کے خارجہ سکریٹریز اپنے موقف کا اعادہ کرتے تھے اور اس کے بعد مذاکرات ختم ہو جاتے تھے۔ چونکہ میں دیگر صحافیوں کے ساتھ مذاکراتی کمرے کے باہر ہی بیٹھا ہوتا تھا، ہم مذاکرات کی کامیابی یا ناکامی میٹنگ کی طوالت سے تولتے تھے۔

مگر جنوری 2006 کو دہلی کے حیدر آباد ہاؤس میں جب کشمیر سے متعلق ورکنگ گروپ کے مذاکرات منعقد ہوئےتو یہ غیر معمولی طور پر خاصے طویل رہے۔ بیچ میں لنچ کا وقت ہوا اور اس کے بعدوسرا دور شروع ہوا۔ شاید صبح دس بجے سے دوپہر تین بجے تک یہ مذاکرات جاری رہے ہوں گے۔ اس لیے تجسس تھا کہ ایسا کیا کچھ آج پک رہا ہے؟ہندوستان  کے سکریٹری خارجہ شیام سرن نے ان کے اختتام پر اعتراف کیا کہ کئی دہائیوں کے بعد دونوں فریقین نے واقعی آج کشمیر کے معاملے پر سیر حاصل گفتگو کی اور ایک دوسرے کے پرپوزل اور اعتراضات کو کھلے ذہن کے ساتھ سنا اور ان کے نکات پر بحث کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستانی وفد کو بتایا گیا کہ ہندوستان  پوری طرح کشمیر پر بات چیت کرنے کے لیے تیار ہے اور ‘جو کچھ ہمارے سامنے رکھا جائےگا، اس پر غور کرنے کے لیے ہماری طرف سے پوری آمادگی ہے۔’ ہندوستان میں سرکاری فورم پر کافی عرصے کے بعد بتایا جا رہا تھا کہ مسئلہ کا حل ہندوستان، پاکستان اور کشمیری عوام کو منظور ہونا چاہیے اور اس کے لیے عوامی رائے عامہ بنانے کی ضرورت ہے۔ ورنہ تو ہندوستان اس مسئلہ کے ہونے سے ہی انکاری تھا اور بس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کو ہی حل طلب ایشو گردانتا تھا اور اس پر قبضہ کرنے کی خواہش ظاہر کرتا رہتا تھا۔

مشرف کے دور کے وزیر خارجہ خورشیدمحمود قصوری نے اس فارمولہ کا اپنی کتاب میں تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ گو کہ اس کو چار نکاتی فارمولہ بتایا جاتا ہے، مگر قصوری کے مطابق یہ نو نکات پر مبنی تھا۔ اس کے مندرجات کچھ یوں تھے۔

 تشدد کے واقعات کو لگام لگانا اور لائن آف کنٹرول کے آر پار عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں پر روک لگانا۔

فوجی انخلاء، خاص طور پر سویلین علاقوں اور جائیدادوں سے فوجیوں کے انخلاء کی شروعات کرنا اور پھر بتدریج دونوں خطوں میں افواج میں کمی کرنا

حق خود اختیاری یعنی سیلف گورننس کا ایک اسٹریکچر دونوں طرف قائم کرنااور بھارتی آئین کی دفعہ 370کو مزید مستحکم اور مضبوط کرنا (اس دفعہ کو مودی حکومت نے ختم کر دیا ہے۔)

بین الاقوامی مشاہدین کی نگرانی میں دونوں اطراف آزادانہ اور شفاف انتخابات کا انعقاد

دونوں ممالک کو یہ اختیار دینا کہ وہ اسٹریٹجک طور پر اہم کشمیر کے ایک یا دو یونٹ اپنے کنٹرول میں رکھیں تاکہ پاکستان گلگت–بلتستان اور ہندوستان  لیہہ یا پورے لداخ پر کنٹرول رکھ سکے ۔

مشترکہ نگرانی میکانزم کا قیام، جس میں ہندوستان  اور پاکستان کے نمائندے اور دونوں اطراف کی اسمبلیوں سے منتخب اراکین شامل ہوں۔ یہ میکانزم لائن آف کنٹرول کے آر پار تجارت، سیاحت، راہداری وغیرہ کی نگرانی کرےگا۔

پانی کے وسائل اور نظام پر ایک مشترکہ پالیسی وضح کرنا۔

وزرائے خارجہ کی سربراہی میں ایک مانیٹرنگ میکانز کا قیام، جو 15سال تک سالانہ اس فارمولہ کے اطلاق کا جائزہ لے گا۔

تمام حل طلب امور کے تصفیہ کے بعد امن، سلامتی اور باہمی دوستی پر مبنی ایک ٹریٹی پر دستخط کرنا تا کہ دونوں ممالک ایک دوسرے کی ترقی میں معاون اور حصہ بنیں۔

ویسے اسی طرح کا میکانزم لاہور اعلامیہ کے بعد نواز شریف کے مقرر کردہ ایلچی نیاز نائک اور واجپائی کے رابطہ کار آر کے مشرا بھی ترتیب دے رہے تھے۔ پاکستانی مصنف شجاع نواز نے نواز شریف کے دست راست سرتاج عزیز کے حوالے سے لکھا ہے کہ مارچ 1999میں سری لنکا کے نورا علیا میں اس نے ہندوستانی وزیر خارجہ جسونت سنگھ کے ساتھ بھی ایسے ہی خدو خال پر بات کی تھی۔ سنگھ جموں و کشمیر کی مذہبی تقسیم کے خلاف تھے، مگر جغرافیائی تقسیم ان کو گوارا تھی۔

اگست 2006کو مشرف نے اسلام آباد میں معروف دانشور اور کالم نگار اے جی نورانی کو فرنٹ لائن کے لیے دیے گئے انٹرویو میں پہلی بار اس فارمولہ کے خد و خال عوام کے سامنے پیش کیے۔ وہ باضابطہ طو ر پر ہندوستانی حکومت خاص طور پر وزیر اعظم منموہن سنگھ کی ایما اور رضامندی سے اسلام آباد چلے گئے تھے، تاکہ یہ فارمولہ عوامی فورم پر پیش کیا جاسکے۔ واپسی پر ممبئی جاتے ہوئے، جب نورانی دہلی کے انڈیا انٹر نیشنل سینٹر میں ٹھہرے تھے، تو میں نے ان سے کہا کہ کیا یہ اچھا نہ ہوتا کہ اگر یہ فارمولہ بجائے مشرف کے منموہن سنگھ عوام کے سامنے پیش کرتے۔ پاکستان کشمیر کو تو مسئلہ مانتا ہی ہے اور اس کے حکمران، دانشور اور صحافی آئے دن ہی کوئی نہ کوئی حل لےکربازار میں نکلے ہوتے ہیں، ہندوستان ہی اس مسئلہ کے وجود سے انکاری ہے۔ اس سے کم از کم  سرکاری طور پر ہندوستان کو یہ مسئلہ تسلیم کروایا جاسکتا تھا اور یہ فارمولہ بھی  ریکارڈ میں رہتا۔ مگر ان کا کہنا تھا کہ حکومتی حلقوں میں یہ تاثر ہے کہ اگر یہ حل نئی دہلی سے آتا ہے تو کشمیری لیڈران اور عوام کی غالب اکثریت کو یہ قابل قبول نہیں ہوگا اور وہ اس کو شک کی نگاہ سے دیکھیں گے۔ دوسرا یہ کہ چونکہ اس فارمولہ کی بنیادیں جنوری 2004کے واجپائی اور مشرف کی ملاقات اور اس سے قبل 1999کے واجپائی–نواز شریف کے اعلامیہ سے جڑی ہیں، اس لیےہندوستان میں اپوزیشن بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) آن بورڈ ہے، پاکستان میں سیاسی قیادت او ر عوامی رائے عامہ کو آن بورڈ لانا ضرور ی تھا۔

اپریل 2007کو جب سارک سربراہ کانفرنس میں شرکت کرنے کے لیے شوکت عزیز دہلی آئے، تو وہ یہی معلوم کرنے کی کوشش کررہے تھے کہ ہندوستان میں سیاسی قیادت کس حد تک اس فارمولہ پر متفق ہے۔ وہ واجپائی سے ملنے تو چلے گئے، مگر وہ علیل تھے۔ اس لیے انہوں نے اپوزیشن لیڈر ایل کے اڈوانی سے ملاقات کی، جو 2009میں ہونے والے انتخابات میں وزیر اعظم بننے کے لیے پر تول رہے تھے۔ انہوں نے دوٹوک الفاظ میں عزیز کو بتایا کہ وہ منموہن سنگھ حکومت کو اس پر پیش رفت نہیں کرنے دیں گے۔ ‘ہاں، جب ہم پاور میں آئیں گے، تو ہم اس کو ضرور آگے بڑھائیں گے۔’ یعنی ان کاواضح پیغام تھا کہ پاکستانی حکومت ان کے اقتدار میں آنے تک انتظار کرے۔ مگر کانگریس پارٹی اس سے چند ماہ قبل خود ہی یہ بساط لپیٹ چکی تھی۔امن مساعی کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے 2007 کے اوائل میں طے ہوگیا تھا کہ چونکہ سائچن گلیشیر اور سرکریک کے معاملے پر خاصی پیش رفت ہو چکی ہے اس لیے ان پر اگریمنٹ کرکے باقی مسائل کو حل کروانے کے لیے عوامی سطح پر ماحول تیار کیا جائے۔

فروری 2007کو پاکستان کے سکریٹری دفاع طارق وسیم غازی جب معاہدے پر دستخط کرنے کےلیے دہلی وارد ہوئے اس سے چند روز قبل الیکشن کمیشن نے سب سے بڑے صوبہ اتر پردیش کی صوبائی اسمبلی کے انتخابا ت کا اعلان کردیا تھا۔ مذاکرات سے ایک روز قبل سونیا گاندھی کی رہائش گاہ پر کانگریس کی اعلیٰ فیصلہ ساز مجلس ورکنگ کمیٹی کا اجلاس اتر پردیش میں امیدوار طے کرنے کے لیے بلایا گیا تھا۔ مگر اس میں سونیا گاندھی کی موجودگی میں ان کے سیاسی مشیر احمد پٹیل نے منموہن سنگھ کو سیاچن پر مذاکرات اور وہاں سے فوجوں کے انخلاکے سوال پر خوب آڑے ہاتھوں لیا۔ میٹنگ میں موجود افراد کا کہنا ہے کہ اس طرح کی صورت حال میں سونیا گاندھی اکثر منموہن سنگھ کی حمایت میں کھڑی ہوجاتی تھی، مگر اس وقت و ہ خاموش رہی۔ احمد بھائی نے منموہن سنگھ کو بتایا کہ پاکستان کے ساتھ کسی اگریمنٹ کرنے سےاتر پردیش میں پارٹی کو ہزیمت کا سامنا کرنا پڑے گااور یہ پارٹی کے ابھرتے ہوئے لیڈر راہل گاندھی کے کیریر کے لیے خطرہ بن جائےگا۔

یہ اجلاس جاری تھا کہ معلوم ہوا کہ شمال–شرقی ریاستوں کا دورہ کرتے ہوئے فوج کے سربراہ جنرل جے جے سنگھ نے سیاچن سے فوجوں کے انخلا کی مخالفت کی ہے۔ جبکہ چند روز قبل کابینہ کی سلامتی سے امور کمیٹی کے اجلاس میں انہوں نے اس معاہدے کو منظوری دی تھی۔ احمد پٹیل کی یہ مخالفت پاکستان کے ساتھ امن مساعی کے تابوت میں ایک کیل ثابت ہوئی۔ اس کے فوراً بعدپاکستان میں وکلا ء کی ایجی ٹیشن نے مشرف کو داخلی طور پر الجھائے رکھا اور کولہو کے بیل کی طرح ہم جہاں سے چلے تھے’ وہیں آ پہنچے۔یعنی بس یہ ایک دائرے کا سفر تھا۔ ہندوستان میں تو اب ایک ایسی حکومت ہے کہ جو اس مسئلہ کو ایک ایسی انتہا تک لے گئی ہے، جہاں مسئلہ کو تسلیم کرنا تو دور کی بات، کشمیری عوام کی شناخت اور ان کی زبان و کلچر و زمین ہی داؤ پر لگی ہوئی ہے۔ ایسے میں لگتا ہے کہ اگر مشرف کا فارمولہ مسئلہ کا حل نہ بھی تھا، کم از کم اعتماد سازی کے بطور وہ کشمیری عوام جو ستر سالوں سے پس رہے ہیں کا مداوا تو بن گیا تھا۔

 بس نام رہے گا اللہ کا

جو غائب بھی ہے حاضر بھی

جو منظر بھی ہے ناظر بھی

 الوداع پرویز مشرف…