خبریں

نیتی آیوگ نے ​​حکومت پر پی ڈی ایس کی نجکاری کرنے، مفت راشن کا دائرہ گھٹانے اور سبسڈی کو کم کرنے کا دباؤ بنایا

خصوصی رپورٹ:  دستاویزوں سے پتہ چلتا ہے کہ نیتی آیوگ غذائی تحفظ کے پروگراموں کے دائرہ  کو بڑھانے کے سخت خلاف ہے۔ اس نے بار بار غریبوں کو سبسڈی والا راشن  فراہم کرنے والے پبلک فوڈ ڈسٹر ی بیوشن سسٹم کے سائزکو کم کرنے اور اس میں غیر معمولی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی ہے ۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: پہلی فروری کو پیش کیے گئے مرکزی بجٹ میں غریبوں کے لیےفوڈ سبسڈی میں 63 فیصد کی شدید کٹوتی کی گئی ہے۔ اس خرچ  کو کم کرنے کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے حکومت نے دسمبر 2022 میں کووڈ کے وقت شروع کی گئی سب کے لیے مفت خوراک اسکیم کو ختم کردیا اور نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کے تحت دیگر اسکیموں میں ردوبدل کرتے ہوئے اس میں وزیر اعظم کا نام جوڑ کر، اس کی  ری برانڈنگ کر دی ۔

دو مہینے پہلے حکومت نے فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت فائدہ اٹھانے والوں کے دائرے کو بڑھانے کے سلسلے میں سپریم کورٹ کی ہدایت کی مخالفت کی تھی۔ درخواست گزار نے کہا تھا کہ اس قانون کا فائدہ اٹھانے والے لوگوں کی تعداد 80 کروڑ سے کچھ زیادہ تعداد پر  مستحکم کر دی گئی ہے ،جو 2011 کی مردم شماری پر مبنی ہے۔ جبکہ عام  اندازوں کےلحاظ سے بھی بات کریں تو کم از کم دس کروڑ لوگ آبادی میں اضافے کی وجہ سےاس پروگرام کے دائرے سے باہر ہیں۔

اب دی رپورٹرز کلیکٹو کے ہاتھ آئے بعض داخلی سرکاری دستاویز فوڈ سبسڈی کو کم  کرنے میں پالیسی تھنک ٹینک نیتی آیوگ کے کردار پر روشنی ڈالتے  ہیں۔

ان دستاویزوں  سےمعلوم ہوتا ہے کہ نیتی آیوگ فوڈ سیکورٹی پروگراموں کے دائرے کو بڑھانے کے سخت خلاف ہے۔ اس نے بار بار غریبوں کو سبسڈی والاراشن فراہم کرنے والےپبلک فوڈ ڈسٹری بیوشن سسٹم کے سائز کوکم کرنے اور اس میں غیر معمولی تبدیلیاں کرنے کی کوشش کی ہے۔

عدالت میں فوڈ سیکورٹی پروگرام کے دائرے کو بڑھانے کے خلاف حکومت کی دلیل نیتی آیوگ کی سفارشات کے عین مطابق ہے۔ حکومت نے سپریم کورٹ میں داخل کردہ حلف نامے میں کمیشن کی بعض آراء کا  حوالہ بھی  دیا۔ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد بڑھانے کی سپریم کورٹ کی ہدایت کے باوجود بجٹ میں اگلے مالی سال میں فوڈ سبسڈی میں 179884 کروڑ روپے کے اسکیم  کی بات کی گئی ہے۔

دستاویزوں کے مطابق، کمیشن نے حکومت سے اس بات کا جائزہ لینے کی سفارش کی ہے کہ کیا ‘ملک کی تقریباً دو تہائی آبادی کو سستی خوراک فراہم کرنا ممکن اور مطلوب ہے۔’

اب تک کی صورتحال کے مطابق مرکز کی سابقہ یو پی اے حکومت کے ذریعے 2013 میں لایا گیا نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کہتا ہے کہ دیہی علاقوں میں رہنے والی 75 فیصد آبادی اور شہری آبادی کا 50 فیصدسرکاری  سے سبسڈی والا کھانا لے سکتے ہیں۔ یہ تعداد  ملک کی کل آبادی کی دو تہائی ہے۔

نیتی آیوگ نے کووڈ کی وبا کے درمیان فوڈ سکیورٹی  کے دائرے کو کم کرنے کے لیے دباؤ بنایا۔ اس نے فوڈ سبسڈی کو کم کرنے کی اپنی سفارشات یہ جانتے ہوئے پیش کی کہ غریبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے اور پیسہ کی  تنگی  ہونے پر لوگ سب سے پہلے اپنے کھانے کے اخراجات میں کٹوتی کرتے ہیں۔

دستاویزوں  کا ایک دوسرا پلندہ دکھاتاہے کہ کمیشن نے پرائیویٹ اور کارپوریٹ سیکٹر کو غذائی اجناس کی خریداری کے کاروبار میں شامل کرنے اور اس کو فلاحی پروگراموں کے تحت غریبوں میں تقسیم کرنے کی بھی سفارش کی۔ اس وقت یہ کام پوری طرح سے  سرکاری محکموں اور ایجنسیوں کے پاس ہے۔

دی رپورٹرز کلیکٹو نے ایک تفصیلی سوالنامہ ڈپارٹمنٹ آف فوڈ اینڈ پبلک ڈسٹری بیوشن، جو فوڈ سکیورٹی ایکٹ کو نافذ کرتا ہے، اور نیتی آیوگ، جو اس کے دائرہ کو کم کرنے کی کوشش میں ہے، کے پاس بھیجا ہے۔ بارباریاد دہانی کے باوجوددونوں میں سے کسی نے بھی ان سوالوں کا جواب نہیں دیا۔

مئی 2020 میں، جب کووڈ  کا قہر  اپنے عروج پر تھا، ایک این جی او نے اپنی نوکری سے ہاتھ دھونے والے اور کنگال ہوکر اپنے گھروں کو واپس لوٹنے کے لیے مجبور ہوئے مزدوروں کی حالت زار کے سلسلے میں عدالت سے رجوع کیا۔ عدالت نے کہا کہ حکومت کو  پھر سے آبادی میں اضافے کے اعداد و شمار کی بنیاد پر نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت سبسڈی والی  قیمتوں پر خوراک حاصل کرنے کی  اہلیت  رکھنے والے لوگوں  کی تعداد کا تعین کرنا چاہیے۔

سال 2013 میں پاس  ہونے والے اس ایکٹ کے مطابق، دیہی علاقوں میں رہنے والے  75 فیصد اور شہری علاقوں میں رہنے والے 50 فیصد لوگ حکومت سے سبسڈی والی  قیمتوں پر خوراک حاصل کر سکتے ہیں۔ قانون کی دفعات کے تحت مرکزی حکومت مردم شماری کے اعداد و شمار کا استعمال کرتے ہوئے اہل لوگوں کی تعداد کا تعین کرتی ہے۔ اس کے بعد ہر ریاستی حکومت اہل لوگوں کی شناخت کے لیے معیار طے کرتی ہے۔

لیکن، 2013 سے تمام ریاستوں میں فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار کی بنیاد پرمستحکم کر دی گئی ہے، جبکہ 2011 کی مردم شماری کے اعداد و شمار اب پرانے ہو چکے  ہیں۔

درخواست گزاروں کی طرف سےوکیل پرشانت بھوشن نے کہا کہ 2013 کے بعد سے آبادی میں اضافہ ہوا ہے اور اس طرح  سے مفت اناج کی ضرورت  رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں بھی ممکنہ طور پر اضافہ ہوا ہوگا۔ لیکن چوں کہ پروگرام کے دائرے  کو 2013 کی سطح پر مستحکم رکھا گیا  ہے، اس لیے کروڑوں ضرورت مند غریب اس دائرے سے باہر رہ گئے ہیں۔

قابل ذکر ہے کہ 29 جون 2021 کو سپریم کورٹ نے فیصلہ دیا  تھاکہ مرکزی حکومت کو  کسی ریاست کے دیہی اور شہری علاقوں میں نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت فائدہ  حاصل کرنے والے لوگوں کی تعداد کا دوبارہ تعین کرنے کے لیے اقدامات کرنے چاہیے۔ عدالت نے کہا کہ یہ’بڑے پیمانے پر لوگوں کے لیےمفید’ ہوگا۔

لیکن حکومت پر بے حسی طاری رہی۔ ستمبر 2021 میں بھوشن نے امور صارفین، خوراک اور عوامی تقسیم کے وزیر،جو غریبوں میں سبسڈی والے اناج کی تقسیم کی نگرانی کرتے ہیں،کو قانونی نوٹس بھیج کر عدالتی احکامات  کی تعمیل کے لیے کہا۔ لیکن انہوں  نے اس کو نظر انداز کر دیا۔

جنوری 2022 میں، انہوں نے ایک اور درخواست دائر کی جس میں حکومت سے عدالت کے حکم کی تعمیل کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ تقریباً چھ ماہ بعد حکومت نے جواب دیا۔ اپنے حلف نامے میں حکومت نے سپریم کورٹ کو بتایا کہ نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ سے فائدہ اٹھانے والوں کے دائرہ  کو نئی مردم شماری کے بعد ہی بڑھایا جا سکتا ہے۔

اس میں رجسٹرار جنرل اور مردم شماری کے  کمشنر کا ایک خط منسلک کیا گیا ہے جس سے یہ پتہ چلتا ہے کہ مردم شماری کو غیر معینہ مدت کے لیے ملتوی کر دیا گیا ہے۔ یعنی حکومت نے یہ واضح کر دیا ہے کہ مستقبل قریب میں سماجی تحفظ کے دائرے  کو بڑھانے کا اس  کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔

عدالت نے حکومت کے بہانوں کے اندر سے ایک  راستہ نکال لیا۔ اس نے حکومت سے کہا کہ وہ ایک فارمولہ تیار کرے یاایک  پالیسی بنائے تاکہ یہ ایکٹ 2011 کی مردم شماری کے زنجیروں میں جکڑا نہ رہے  اور ضرورت مند شہریوں کو  اس ایکٹ سے فائدہ  حاصل ہوسکے۔

ایک پوری مردم شماری کا انتظار کرنے کے بجائے، جسے 2024 کے وسط میں ہونے والے پارلیامانی انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دیا گیا ہے، عدالت نے حکومت سے کہا کہ وہ فارمولہ بنانے کے دوران 2011 اور 2021 کے درمیان کی مدت کے لیے آبادی کے تخمینے (پروجیکشن )  کا استعمال کرے۔

دستاویزوں  سے پتہ چلتا ہے کہ عدالت کی ہدایت کے بعدحکومت کے اندر بات چیت شروع ہوئی۔ رجسٹرار جنرل، نیتی آیوگ، وزارت شماریات اور محکمہ خوراک کے درمیان باہمی مشاورت کا ایک دور شروع ہوا۔ 31 اگست 2022 کو ایسی ہی ایک میٹنگ میں پہلی بار نیتی آیوگ نے عدالت کے حکم کی تعمیل نہ کرنے کے حق میں ایک قانونی دلیل پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ ‘معزز سپریم کورٹ نے کوریج کے دوبارہ تعین کے لیے ایکٹ کی دفعات میں ترمیم کرنے کی ہدایت نہیں کی ہے۔’ مزید یہ کہ نیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ  میں کوریج کے تعین کے لیے آبادی کے تخمینے کے استعمال کرنے کا کوئی اہتمام نہیں ہے۔ اس نے کہا کہ معزز عدالت کی ہدایت ایکٹ کی شق  9 میں موجود دفعات کے خلاف ہے۔

درحقیقت اس طرح  سے یہ فوڈ سیکورٹی اسکیم کی توسیع کی مخالفت کے لیے زمین تیار کر رہا تھا۔ اگر حکومت کی منشا  عدالت کے حکم پر عمل کرنے کی ہوتی  اور اسے معلوم ہو تا  کہ ایسا کرنا خلاف قانون ہے تو اس کے پاس ہمیشہ قانون میں ترمیم کا آپشن موجود تھا۔

نیتی آیوگ نے سپریم کورٹ کے فیصلے میں خامی تلاش کرنے کا کام کیا نہ کہ کوئی حل تلاش کرنے کا۔ حکومت نے نیتی آیوگ کے خدشات کے بارے میں عدالت کو کچھ نہیں کہا۔ اس کے بجائے ستمبر 2022 میں نیتی آیوگ نے اس اسکیم کی توسیع کو روکنے کے لیے ایک بالکل  ہی مختلف دلیل پیش کی۔ حکومت نے یہ دلیل عدالت میں پیش کی۔

اس میں کہا گیا ہے کہ غریبوں کی تعداد اتنی نہیں ہے جتنی ایک دہائی پہلے تھی ، اس لیے کوریج کو بڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔

نیشنل فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے نفاذ کے بعد گزشتہ 8 سالوں میں ہندوستان کی آبادی کی فی کس آمدنی میں حقیقی معنوں میں 33.4 فیصد اضافہ ہوا ہے۔ فی کس آمدنی میں اضافہ یقینی طور پر گھرانوں کی ایک بڑی تعداد کو زیادہ آمدنی والے طبقے میں لے آئے گا اور وہ 2013-14 کی طرح کمزور حالت میں نہیں ہوں گے۔

کلیکٹو نے اس سلسلے میں ماہرین سے بات کی۔ ان ماہرین نے کہا کہ یہ انتہائی ناقص دلیل ہے۔ فی کس آمدنی وہ اوسط رقم ہے جو کسی ملک میں ہر فرد سالانہ کماتا ہے۔ جب امیرآدمی زیادہ پیسہ کماتا ہے تو فی کس آمدنی بڑھ جاتی ہے لیکن وبائی امراض کے دوران لاکھوں لوگ اپنی نوکریوں سے ہاتھ دھو بیٹھے اور غربت کی حالت کو پہنچ گئے۔ ایسے میں فی کس آمدنی سماجی و اقتصادی بحران کی تصویر پیش نہیں کرتی ہے۔

اس بات کو ایک مثال سےسمجھا جا سکتا ہے۔ صرف قومی راجدھانی میں راشن کارڈ کی درخواستوں کی تعداد میں نمایاں اضافے سے امیر اور غریب کے درمیان خلیج جس طرح سے بڑھی ہے اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

سال 2022 میں راشن کارڈ کے لیے زیر التواء درخواستوں کی تعداد 10 لاکھ سے زیادہ تھی، جو مئی 2021 کے مقابلے میں 50 فیصد زیادہ ہے۔ متعدد معاشی رپورٹس نے وبائی امراض کے دوران اور اس کے بعد معاشی اصلاحات کے دوران بڑھ رہے معاشی عدم مساوات کو اجاگر کیا ہے۔ اس کے باوجود مرکزی حکومت نے نیتی آیوگ کے اس نظریہ کو کہ فائدہ اٹھانے والوں کی تعداد میں کمی آئی ہوگی، سپریم کورٹ کے سامنے پیش کیا۔

حکومت کی دلیل کمیشن کی طرف سےسال 2021 میں ایک ڈسکشن پیپر میں کیے گئے اعتراف کے خلاف ہے جسے جاری پریکٹس کے خلاف پبلک نہیں کیا گیا۔

اس پیپر میں کمیشن نے اندازہ لگایا تھا کہ سال 2011 سے 2021 تک اس ایکٹ کے دائرے میں آنے والے لوگوں کی تعداد 80 کروڑ سے بڑھ کر 89.5 کروڑ ہو جائے گی۔ دوسرے لفظوں میں، قانون اور اندازوں کے مطابق 9.52 کروڑ اضافی مستفیدین کو فوڈ سیکورٹی ایکٹ کے تحت لایا جانا چاہیے اور انہیں سبسڈی والا راشن ملنا چاہیے۔

(تصویر: پی ٹی آئی)

(تصویر: پی ٹی آئی)

‘پی ڈی ایس میں انقلابی تبدیلی’

سال 2019 میں حکومت کے تھنک ٹینک نے پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم (پی ڈی ایس) میں انقلابی تبدیلیوں کی پرزور وکالت کی۔ اس نے کسانوں سے اناج خریدنے اور غریبوں میں تقسیم کرنے کے پورے عمل میں نجی کمپنیوں کی شمولیت کا مطالبہ کیا تھا۔ اس کے ساتھ ہی  غریبوں کو دی جانے والی اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں اضافے کا بھی مطالبہ کیا گیا تھا۔

کمیشن کے پروجیکٹ اپریزل اینڈ مینجمنٹ ڈویژن نے نومبر 2019 میں لکھا؛

غذائی اجناس کے یوٹیلائزیشن کے ساتھ ساتھ  مؤثر طریقے سے اس کے ڈسٹری بیوشن کو یقینی بنانے کے لیےنیشنل فوڈ سکیورٹی ایکٹ کے تحت اناج کا  ڈسٹری بیوشن  پی پی پی (پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ) کے تحت کیا جانا ضروری ہے۔

یہ ریمارکس ملک میں غذائی قلت کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے امورصارفین اور فوڈ  اینڈ پبلک ڈسٹری بیوشن منسٹری  کو جمع کرائے گئے ایک نوٹ کا حصہ تھے۔

ڈویژن کے الفاظ یہ تھے؛

شناخت شدہ علاقوں میں یا ریاستی یا قومی سطح پر آپریشنل مقاصد کے علاوہ بفر اسٹاک بنائے رکھنے کے لیے ایک مخصوص مقدار میں اناج کی خریداری اور نقل و حمل اور ذخیرہ کا کام نجی کھلاڑیوں کو سونپا جانا چاہیے۔

پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا یہ ماڈل بغیر کسی لیکیج کے لاگت سے مؤثر غذائی اجناس کی خریداری اور اناج کی بروقت تقسیم کے ساتھ ساتھ اناج کی مناسب ذخیرہ اندوزی کو یقینی بنائے گا تاکہ غذائی اجناس کا معیار خراب نہ ہو۔ فی الحال ایف سی آئی /دیگر سرکاری ایجنسیوں کے ذریعے اپنائے جانے والے نظام  رساؤ(لیکیج)، انکلوژن/ایکسکلوزن کی غلطیوں اور نقل و حمل/اسٹوریج کی اونچی  قیمتوں جیسی کئی پریشانیوں کی زد میں ہے۔

دہلی کی امبیڈکر یونیورسٹی میں معاشیات کی اسسٹنٹ پروفیسر دیپا سنہا نے کلیکٹو کو بتایا کہ پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کے معاملے میں  اچھی  ریاستیں،مثلاًتمل ناڈو، ہماچل پردیش، چھتیس گڑھ اور دیگرمیں کمیونٹی یا حکومت کے زیر انتظام پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کا کام کر رہی  ہے۔ ‘کارپوریٹ کے زیر انتظام عوامی تقسیم کے نظام میں سسٹم  کی ذمہ داری کو طے کرنے کا کوئی طریقہ نہیں ہوگا۔’

انہوں نے یہ بھی کہا، پبلک ڈسٹری بیوشن سسٹم کی نجکاری فوڈ مارکیٹ میں دیگر مفادات رکھنے والی کمپنیوں کے لیے جگہ بنانے کا کام  کرے گی۔

ماضی میں نجی شعبے کی جانب سے بچوں کو مڈ ڈے میل جیسی اسکیموں کے تحت سبسڈی والے  خوراک کی فراہمی کے کاروبار میں داخل ہونے کی کوششوں کی مثالیں موجود ہیں۔ اس نے احتجاج کو جنم دیا، جس کے بعد حکومت کو اپنے اقدامات واپس لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

دیپا کہتی ہیں،عوامی تقسیم کے نظام کے تحت اناج کی خریداری اور تقسیم کا پورا نظام مارکیٹ کی غلطیوں کو درست کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ یہ مارکیٹ قیمت کم ہونے پر بھی کسانوں کو صحیح قیمت ادا کرکے اور بازار کی قیمت زیادہ ہونے کے باوجود اسے کم قیمت پر صارفین کو فروخت کرکے کیا جارہا ہے۔ یہ کام دوسرے تجارتی مفادات رکھنے والے تاجروں کے حوالے کرنا اپنے آپ میں مفادات کا ٹکراؤ ہوگا۔

اس بجٹ میں کسانوں سے اناج کی خریداری کے لیے ذمہ دار اہم ایجنسی فوڈ کارپوریشن آف انڈیا (ایف سی آئی ) کا بجٹ  کم کر دیا گیا ہے۔ موجودہ سال کے اناج کی خریداری کے لیے اسے 90000 کروڑ دینے کے بجائے حکومت نے ایف سی آئی  سے کہا ہے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے بازار سے قرض لے۔

اس سے ایف سی آئی کی کام کرنے کی صلاحیت مزید کم ہو جائے گی اور اسے سود کے ساتھ قرض کی ادائیگی کا بوجھ بھی اٹھانا پڑے گا، جبکہ اسے یہ رقم حکومت سے ملنی چاہیے تھی۔

(شری گیریش جلیہل دی رپورٹرز کلیکٹو کے رکن ہیں۔)

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)