خبریں

شرجیل – صفورہ اور دیگر کو بری کرنے والے جج نے خود کو جامعہ تشدد کے معاملوں سے الگ کیا

گزشتہ 4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے جامعہ تشدد کیس میں شرجیل امام، آصف اقبال تنہا ، صفورہ  زرگر اور آٹھ دیگر کو بری کر دیا تھا۔ جج ورما نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو  نہیں پکڑااور ان ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا’ بنانے میں کامیاب رہی۔

شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا۔ (تصویر: پی ٹی آئی/فیس بک)

شرجیل امام، صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا۔ (تصویر: پی ٹی آئی/فیس بک)

نئی دہلی: دہلی کی عدالت کے جج جنہوں  نے چھ دن پہلے جے این یو کے طالبعلم شرجیل امام اور 10 دیگر کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے پاس ہوئے 2019 کے تشدد کے سلسلے میں الزامات سے بری کر دیا تھا، اب انہوں نےاس واقعے سے متعلق دیگر معاملات کی سماعت سے خود کو الگ کر لیا ہے۔

انڈین ایکسپریس نے اپنی رپورٹ میں اس سلسلے میں جانکاری دی ہے۔

گزشتہ 4 فروری کو ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ کے ایڈیشنل سیشن جج ارول ورما نے شرجیل امام،آصف اقبال تنہا ، صفورہ  زرگر اور آٹھ دیگر کو الزامات سےبری کر دیا تھا۔ جج نے پایا تھا کہ پولیس نے ‘حقیقی مجرموں’ کو نہیں پکڑا اور ان  ملزمین کو ‘قربانی کا بکرا‘ بنانے میں کامیاب رہی۔

جمعہ کو دہلی پولیس نے جج ورما کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے ہائی کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ پولیس نے کہا کہ ٹرائل کورٹ نے جذبات  کی رو میں بہہ کر استغاثہ اور تفتیشی ایجنسی کے خلاف سنگین منفی ریمارکس دیے ہیں۔

جسٹس ورما کی عدالت 13 دسمبر اور 15 دسمبر 2019 کو جامعہ ملیہ اسلامیہ کے قریب  ہوئے تشدد سے متعلق دو مقدمات کی سماعت کر رہی ہے۔

جمعہ کی صبح اپنے کورٹ روم میں 15 دسمبر کے کیس کی سماعت شروع ہوتے ہی  ایڈیشنل سیشن جج ورما نے ملزمین کے وکیلوں سے کہا کہ وہ ذاتی وجوہات کی بناء پر اس معاملے سے خود کو الگ کر رہے ہیں۔ منتقلی کی درخواست کے ساتھ اب یہ معاملہ ساکیت ڈسٹرکٹ کورٹ  کے پرنسپل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کو بھیجا گیا ہے۔

اب اس  معاملے کی سماعت 13 فروری کو ہوگی۔

اس کیس میں ایک ملزم کی پیروی کرنے والی وکیل دکشا دویدی نے انڈین ایکسپریس کو بتایا، جب ہم شنوائی کے لیے موجود تھے تو جج نے کہا کہ میں خود کو کیس سے الگ کر رہا ہوں۔ میں نے جج سے کہا کہ یہ بہت افسوسناک ہے۔ جج نے ہم سے کہا کہ آپ کو قانون اور عدلیہ پر بھروسہ رکھنے  کی ضرورت ہے اور آپ کو سسٹم  پر بھروسہ کرنے کی ضرورت ہے۔

بتادیں کہ 13 دسمبر 2019 کے جامعہ تشدد کیس میں ملزم کو بری کرتے ہوئے ایڈیشنل سیشن جج ورما کے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ  اختلاف رائے اظہار رائے کی آزادی کے بنیادی حق کی توسیع ہے۔ یہ واضح کرنا ضروری  ہے کہ اختلاف رائے اور کچھ نہیں بلکہ معقول پابندیوں کے ساتھ ہندوستان کے آئین کے آرٹیکل 19 میں درج بولنے اور اظہار رائے کی آزادی کےبیش  قیمتی بنیادی حق کی توسیع ہے۔اس لیے یہ ایک حق ہے جس کو برقرار رکھنے کا ہم نے حلف اٹھایا ہے۔

شرجیل امام اور دیگر کو الزامات سے بری کرنے کے فیصلے کو چیلنج دینے  والی عرضی   فوری سماعت کے  لیے منظور

دریں اثنا، دہلی ہائی کورٹ نے جمعہ کو اس مقدمے میں شرجیل امام اور آصف اقبال تنہا سمیت 11 افراد کو الزامات سے بری کرنے کے ٹرائل کورٹ کے فیصلے کو چیلنج کرنے والی عرضی  کو فوری سماعت کے لیے منظور کرلی۔

سالیسٹر جنرل تشار مہتہ نے دہلی پولیس کی عرضی کا ذکر چیف جسٹس ستیش چندر شرما اور جسٹس سبرامنیم پرساد کی ڈویژن بنچ کے سامنےکیا، جس نے اسے 13 فروری کو سماعت کے لیےلسٹ کرنے کی منظوری دی ۔

مہتہ نے کہا کہ عدالت کی رجسٹری نے عرضی میں کچھ اعتراضات اٹھائے ہیں۔

نچلی عدالت کے 4 فروری کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے پولیس نے 7 فروری کو ایک عرضی داخل کی تھی۔

تاہم، شرجیل امام ابھی جیل میں ہی رہیں گے کیونکہ وہ 2020 کے شمال–مشرقی دہلی میں ہوئے دنگوں کی سازش کے معاملے میں بھی ملزم ہیں۔ پولیس نے شہریت ترمیمی قانون (سی اے اے) کے خلاف احتجاج کرنے والے لوگوں اور پولیس کے درمیان جھڑپوں کے بعد ہوئے فرقہ وارانہ تشدد کے سلسلے میں آئی پی سی کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی تھی۔

یو اے پی اے کے تحت اس معاملے کے ملزمین میں صفورہ زرگر اور آصف اقبال تنہا کے نام بھی شامل ہیں۔

(خبر رساں ایجنسی بھاشا کے ان پٹ کے ساتھ)