خبریں

ڈاکیومنٹری تنازعہ کے بعد بی بی سی کے دفتر پہنچا محکمہ انکم ٹیکس، کہا – ’سروے کے لیے آئے ہیں‘

بی بی سی کے دہلی اورممبئی واقع دفاتر میں یہ کارروائی  2002  کے گجرات فسادات میں نریندر مودی کے کردار اور ہندوستان  میں اقلیتوں کی صورتحال  پر دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے نشر ہونے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے۔ اس ڈاکیومنٹری پر حکومت ہند نے پابندی عائد کر  رکھی ہے۔

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

(تصویربہ شکریہ: Tim Loudon/Flickr, CC BY 2.0)

نئی دہلی: محکمہ انکم ٹیکس نے منگل کی صبح تقریباً 11.30 بجے سے دہلی اور ممبئی میں بی بی سی کے دفاتر میں ‘سروے’ شروع کیا ہے۔

یہ کارروائی 2002 کے گجرات فسادات میں نریندر مودی کے کردار اور ہندوستان میں اقلیتوں کی حالت پر دو حصوں پر مشتمل ڈاکیومنٹری ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ کے نشر ہونے کے چند ہفتوں بعد ہوئی ہے۔

این ڈی وی نے ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ مبینہ سروے بین الاقوامی ٹیکسیشن اور ٹرانسفر پرائسنگ سے متعلق بے ضابطگیوں کے الزامات کے سلسلے میں کیے جا رہے ہیں۔

خبر رساں ایجنسی پی ٹی آئی کے مطابق، عہدیداروں نے بتایا کہ محکمہ کمپنی کے کاروباری آپریشنز اور اس کے ہندوستانی یونٹ سے متعلق دستاویزوں  کا جائزہ لے رہا ہے۔

ایک سروے کے تحت، انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ صرف کمپنی کے کاروباری احاطے کی  ہی کا جانچ  کرتا ہے اور اس کے پروموٹرز یا ڈائریکٹروں کی رہائش گاہوں اور دیگرمقامات پر چھاپے نہیں مارتا ہے۔

ذرائع کے مطابق، سروے کے دوران دفتر میں موجود ملازمین کے فون اور لیپ ٹاپ ضبط کر لیے گئے ہیں۔ جو لوگ دفتر میں ہیں انہیں ‘ سروے’ جاری رہنے تک باہرکے  کسی شخص سے بات کرنے سے بھی  روک دیا گیا ہے۔

بی بی سی کے ایک اسٹاف نے جو دفتر میں نہیں ہیں، انہوں  نے دی وائر کو تصدیق کی کہ نئی دہلی کے دفتر میں اسٹاف کے فون بند ہیں اور صبح سے کسی سے رابطہ نہیں ہوسکا ہے۔

بین الاقوامی خبر رساں ادارے اے ایف پی نے ایک نامعلوم ذرائع  کے حوالے سے بتایا کہ ‘انکم ٹیکس نے دفتر پر چھاپہ مارا ہے، وہ  سارے  فون ضبط کر رہے ہیں’۔

معلوم ہو کہ بی بی سی کی دستاویزی فلم ‘انڈیا: دی مودی کویسچن‘ میں بتایا گیا ہے کہ برطانوی حکومت کی جانب سے  کرائی گئی تحقیقات (جو اب تک غیر مطبوعہ رہی  ہے) میں تشدد کے لیے نریندر مودی کو براہ راست ذمہ دار پایا گیا تھا۔

اس کے ساتھ ہی وزیر اعظم نریندر مودی اور ملک کے مسلمانوں کے درمیان کشیدگی پر بھی بات کی گئی ہے۔ اس میں فروری اور مارچ 2002 کے مہینوں میں گجرات میں بڑے پیمانے پر ہونے والے فرقہ وارانہ تشدد میں ان کے کردار کے بارے میں کیے گئے دعووں کا بھی جائزہ لیا گیا ہے۔

دو حصوں پر مشتمل دستاویزی فلم کی پہلی قسط 2002 کے گجرات دنگوں کی بات کرتی ہے، اور مودی اور ریاست کی بی جے پی حکومت کو تشدد کے لیے براہ راست ذمہ دار ٹھہراتی ہے۔ دوسری قسط میں، مرکز میں مودی کے اقتدار میں آنے کے بعد–خصوصی طور پر 2019 میں ان کے دوبارہ ااقتدار میں آنے کے بعد–مسلمانوں کے خلاف تشدد اوران کی حکومت کے ذریعے لائے گئے امتیازی قوانین کے بارے میں بات کی گئی  ہے۔

حکومت نے20 جنوری کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ٹوئٹر اور یوٹیوب کو ‘انڈیا: دی مودی کویسچن’ نامی دستاویزی فلم کے لنکس بلاک کرنے کی ہدایت دی تھی۔

اس سے قبل وزارت خارجہ نے دستاویزی فلم کو ‘پروپیگنڈے کا حصہ’ قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا تھا اور کہا تھا کہ اس میں معروضیت کا فقدان ہے اور یہ نوآبادیاتی ذہنیت کی عکاسی کرتی ہے۔

تاہم، بی بی سی اپنی ڈاکیومنٹری پر قائم  ہےاور اس کا کہنا ہے کہ کہ کافی تحقیق کے بعد یہ ڈاکیومنٹری بنائی  گئی ہے ،جس میں اہم ایشوز کو غیر جانبداری کے ساتھ  اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی  ہے۔ چینل نے یہ بھی کہا کہ اس نے اس پر حکومت ہند سے جواب مانگا تھا، لیکن حکومت نے کوئی جواب نہیں دیا۔

اس دوران ملک کی مختلف ریاستوں کے کیمپس میں دستاویزی فلم کی نمائش کو لے کر تنازعہ کھڑا ہو گیا ہے۔

غور طلب ہے کہ محکمہ انکم ٹیکس کے ‘سروے’ سے ایک دن پہلے مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے نیوز ایجنسی اے این آئی کو دیےانٹریو میں بی بی سی ڈاکیومنٹری تنازعہ پر کہا تھا، ‘سچ پر ایک ہزار سازش کرلو،  کچھ نہیں ہوتا ہے۔  وہ سورج کی طرح ہی نکلتا ہے۔یہ تو  مودی جی کے پیچھے  2002 سے کر رہے  ہیں۔ لیکن ہر بار  مودی جی زیادہ مضبوط ہوکر، سچے بن کر اور عوام میں زیادہ مقبولیت حاصل کر کے باہر آئے  ہیں۔

دریں اثنا  اپوزیشن نے بی بی سی پر انکم ٹیکس کے ‘سروے’ پر مودی حکومت کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگریس نے ایک ٹوئٹ میں کہا کہ یہ غیر اعلانیہ ایمرجنسی ہے۔

کانگریس لیڈر اور سابق مرکزی وزیر جے رام رمیش نے ایک ویڈیو ٹوئٹ میں کہا، یہاں ہم اڈانی کیس میں جے پی سی کا مطالبہ کر رہے ہیں اور وہاں حکومت بی بی سی کےپیچھے پڑی ہوئی  ہے۔

ترنمول کانگریس کی ایم پی مہوا موئترا نے بھی بی بی سی’ سروے’ کو لے کر طنز کرتے ہوئے لکھا، ‘ بی بی سی کے  دہلی دفتر میں آئی ٹی  چھاپہ ! کس قدر  ناقابل یقین! اس بیچ  جب اڈانی  سیبی  کے دفتر پہنچیں گے، تو ان کی مہمان نوازی ہوگی۔

ہندوستان  کی پریس فریڈم رینکنگ (رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرز کے مطابق) دنیا کے 180 ممالک میں سے 150 ویں نمبر پر ہے، جس میں سروے کے مطابق، ہندوستان  اب دنیا کے 30 بدترین ممالک میں شامل ہے۔

ایک دن پہلے، نیویارک ٹائمز نے ایک اداریہ شائع کیا جس میں اس پر بات کی گئی تھی کہ ہندوستان میں آزاد پریس مسلسل خطرے میں ہے۔ اس میں کہا گیا ہے، جب سے مودی نے اقتدار سنبھالا ہے، صحافیوں نےاس بارے میں رپورٹ کرنے کے لیے ، جو حکومت انہیں نہیں دکھانا چاہتی کہ وہ دکھائیں ، اپنے کیریئر اور اپنی زندگی کو جوکھم  میں ڈال دیا ہے۔