فکر و نظر

مودی-اڈانی ماڈل: خون اور دولت کے دلدل میں کھل رہا ہے کمل — ارندھتی را ئے کی خصوصی تحریر

بی بی سی اور ہنڈن  برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیا اس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان  کےٹوین  ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین  ٹاور ہیں، وزیر اعظم نریندر مودی اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔

فوٹو بہ شکریہ : پی ٹی آئی / فیس بک

فوٹو بہ شکریہ : پی ٹی آئی / فیس بک

ہندوستان بیرونی  طاقتوں کے حملوں کی زد میں ہے، بالخصوص برطانیہ اور ریاستہائے متحدہ امریکہ کے حملوں کی۔ یا پھر ہماری حکومت چاہتی ہے کہ ہم اس طرح سوچیں۔ کیوں؟ کیونکہ پرانی استعماری حکمت عملی  اور نو سامراجی قوتیں  ہماری دولت اور خوشحالی کو برداشت نہیں کر پا رہی  ہیں۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ اس حملے کا نشانہ  ہمارے ینگ نیشن  کی سیاسی اور اقتصادی بنیادیں ہیں۔

چھپ کر وار کرنے والے خفیہ ایجنٹ  ہیں بی بی سی اور ہنڈن برگ ریسرچ نامی ایک چھوٹی  سی — امریکی کمپنی۔ بی بی سی نے جنوری میں دوحصوں میں ایک ڈاکیومنٹری فلم نشر کی، جس کا نام ہے انڈیا: دی مودی کویسچن۔ ہنڈن برگ ریسرچ  38  سالہ ناتھن اینڈرسن کی کمپنی ہے، جس کی مہارت ایسی سرگرمیوں میں ہے جو  ایکٹوسٹ شارٹ –شیلنگ کے نام سے معروف ہے۔

بی بی سی– ہنڈن برگ معاملے کو ہندوستانی میڈیااس طرح پیش کر رہا ہے کہ یہ ہندوستان کےٹوین ٹاورز پر کسی حملے سے کم نہیں ہے۔ یہ ٹوین  ٹاورز ہیں وزیر اعظم نریندر مودی، اور ہندوستان کے سب سے بڑے صنعت کار گوتم اڈانی  — جو ابھی حال تک  دنیا کے تیسرے امیر ترین شخص تھے۔ ان دونوں پر لگائے گئے الزامات ہلکے نہیں ہیں۔ بی بی سی اشارہ کرتی ہے کہ مودی نے نسل کشی  کے لیے اکسایا۔ وہیں، 24 جنوری کو شائع ہونے والی ہنڈن برگ رپورٹ نے اڈانی پر’کارپوریٹ  کی تاریخ میں سب سے بڑی جعلسازی ‘ کرنے کا الزام لگایا ہے (اس الزام کی اڈانی گروپ نے سختی سے تردید کی ہے)۔

مودی اور اڈانی کی شناسائی دہائیوں پرانی ہے۔ 2002 کے مسلمانوں کے قتل عام کے بعد ان دونوں کے لیے حالات بہتر ہونے لگے تھے۔ گجرات میں یہ قتل عام اس وقت ہوا جب مسلمانوں کو ٹرین کی ایک بوگی میں آگ لگانے کا ذمہ دار ٹھہرایا گیا،جس میں 59 ہندو تیرتھ یاتری زندہ جل کر لقمہ اجل بن گئے۔ اس قتل عام سے چند ماہ قبل ہی مودی ریاست کے وزیر اعلیٰ بنائےگئے تھے۔

اس وقت گجرات کے قصبوں اور دیہاتوں میں مشتعل  ہندو ہجوم کے ذریعے ‘بدلے میں’ مسلمانوں کے کھلے عام قتل اور ریپ  کے واقعات پر ہندوستان  دہشت سے لرز اٹھا تھا۔ کنفیڈریشن آف انڈین انڈسٹری کے پرانے فیشن کے چند ارکان نے مودی کےتئیں  کھلے عام اپنی  ناراضگی کا اظہار کیا تھا۔ اس موقع پر گوتم اڈانی نمودار ہوتے ہیں۔ گجراتی صنعت کاروں کے ایک چھوٹے سے گروپ کے ساتھ انہوں نے ریسرجنٹ گروپ آف گجرات کے نام سے کاروباریوں  کا ایک نیا فورم تشکیل دیا۔ انہوں نے اپنے ناقدین کو مسترد کر تے ہوئے مودی کی حمایت کی، جنہوں نے ‘ہندو ہردیہ سمراٹ’ کےروپ میں، ٹھیک ٹھیک کہیں تو ہندو ووٹ بینک کو پولرائز کرنے والے ایک رہنما کی حیثیت سے، اپنے نئے سیاسی کیرئیر کا آغاز کیا تھا۔

سال 2003 میں انہوں نے وائبرینٹ گجرات کے نام سے سرمایہ کاروں کی ایک سمٹ کا اہتمام کیا۔ اس طرح  اس شے کا جنم ہوا جسے’وکاس ‘کے گجرات ماڈل کے نام سے جانا جاتا ہے؛  کارپوریٹ دنیا کی بڑی مدد سے مضبوط ہوتا پرتشدد ہندو راشٹرواد۔ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر تین ٹرم  کے بعد مودی 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم منتخب ہوئے۔ دہلی میں حلف برداری کی تقریب کے لیے وہ ایک پرائیویٹ جیٹ میں سوار ہوکرآئے،  جس پر اڈانی کا نام بڑے اور جلی حروف میں لکھا ہوا تھا۔ مودی کے دور اقتدار کے نو سالوں میں،  اڈانی کی دولت 8 ارب  ڈالر سے بڑھ کر 137 ارب  ڈالرہوگئی ہے۔ صرف 2022 میں انہوں نے 72 ارب  ڈالربنائے، جو دنیا میں ان کے ٹھیک  نیچے نو ارب پتیوں کی مشترکہ دولت سے بھی زیادہ ہے۔

اب اڈانی گروپ کا ایک درجن تجارتی بندرگاہوں پر کنٹرول ہے، جس کے ذریعے ہندوستان میں سامان کی مجموعی نقل و حرکت کا 30فیصد کام ہوتا ہے۔ ان کے ہاتھ میں سات ہوائی اڈے ہیں، جہاں سے ہندوستان کے کل 23 فیصد  ہوائی مسافر آتے جاتے ہیں۔ ہندوستان کے کل اناج کا 30فیصد حصہ  اڈانی کے زیر کنٹرول گوداموں  (ویئر ہاؤس )میں جمع  ہے۔ وہ ہندوستان میں نجی شعبے میں بجلی پیدا کرنے والے سب سے بڑے بجلی گھروں  کے مالک ہیں  یا انہیں  چلاتے ہیں۔ ‘وکاس کا  گجرات ماڈل’ اسی طرح لاگو  ہوا ہے، اور کہیں بڑے پیمانے پر لاگو ہوا ہے۔

لوگ اب مذاق میں کہتے ہیں کہ،  ‘پہلے مودی اڈانی کے ہوائی جہاز میں جاتے تھے، اب اڈانی مودی کے ہوائی جہاز میں جاتے ہیں۔’ اور اب دونوں طیاروں کے انجن میں خرابی پیدا ہوگئی ہے۔ خود کو ہندوستانی پرچم میں لپیٹ لینے سے کیا وہ  اس بحران سے نکل سکتے ہیں؟

بی بی سی کی فلم دی مودی کویسچن کا پہلا حصہ (جس کے ایک انٹرویو میں چند لمحے کے لیے میں  نظر آتی ہوں) 2002 کے گجرات قتل عام کے بارے میں ہے –صرف قتل ہی کے بارے میں نہیں، بلکہ یہ کچھ متاثرین کے 20 سالہ طویل  اس سفر کے بارے میں بھی ہے، جسے انہوں نے ہندوستان کے قانونی نظام کی بھول بھلیاں میں،  اپنے یقین کو سینے سے لگائے، انصاف اور سیاسی جوابدہی کی امید میں  طے کیا ہے۔ فلم میں عینی شاہدین کے بیانات شامل  ہیں، جن میں سب سے دہلا  دینے والی گواہی  امتیاز پٹھان کی ہے، جنہوں نے’گلبرگ سوسائٹی قتل عام’ میں اپنے خاندان کے دس افراد کو کھو دیا تھا۔ گلبرگہ سوسائٹی میں ہونے والا قتل عام اُن دنوں گجرات میں ہونے والے بہت سےخوفناک قتل عام میں سے ایک تھا۔

پٹھان بتاتے ہیں کہ کس طرح وہ سب کانگریس کے سابق ایم پی احسان جعفری کے گھر میں پناہ لیےہوئے تھے اور باہر بھیڑ جمع ہو رہی تھی۔ وہ بتاتے ہیں کہ امیدکا دامن چھوڑتے  ہوئے جعفری نے آخری بار نریندر مودی کو مدد کے لیے فون کیا اور جب انہیں اس کا احساس  ہوا کہ کوئی مدد نہیں آئے گی تو وہ اپنے گھر سے باہر آئے اور خود کو ہجوم کے حوالے کر دیا۔ انہیں امید تھی  کی کہ وہ ہجوم کو اس کے لیے  راضی کرلیں گے کہ بچنے کے لیے ان کی پناہ میں آئے لوگوں کو بخش دیا جائے۔ جعفری کو کاٹ کر ٹکڑے  ٹکڑے کر دیا گیا اور لاش کو اس طرح  سےجلا دیا گیا کہ  ان کی کوئی پہچان باقی نہ رہے۔ اس کے بعد قتل و غارت کا سلسلہ گھنٹوں جاری رہا۔

جب معاملے کی عدالتی شنوائی شروع ہوئی تو گجرات حکومت نے اس بات سے انکار کیا کہ کوئی فون آیا تھا۔ جبکہ اس بات کا ذکر صرف امتیاز پٹھان نے ہی نہیں کیا بلکہ کئی دوسرے گواہوں نے بھی اپنے بیانات میں کیا تھا۔ حکومت کے انکار کو سچ مان لیا گیا۔ بی بی سی کی فلم بھی صاف صاف  اس کا ذکر کرتی  ہے۔ حکومت ہند فلم کو چاہے جتنا  بدنام کرے، لیکن اصل میں یہ  نسل کشی کے بارے میں بھارتیہ جنتا پارٹی اور سپریم کورٹ آف انڈیا کے  نقطہ نظر کو پیش کرنے کی ہر ممکن کوشش کرتی ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 24 جون 2022 کو اس عدالت نے احسان جعفری کی بیوہ ذکیہ جعفری کی عرضی  کو خارج کر دیا، جس میں ذکیہ نے الزام لگایا تھا کہ ان کے شوہر کے قتل کے پیچھے ایک بڑی سازش کام کر رہی تھی۔ عدالت نے اپنے فیصلے میں کہا کہ ان کی عرضی ‘پروسیس  کا غلط استعمال’ تھی ، اور تجویز پیش کی کہ اس معاملے کی قانونی لڑائی جاری رکھنے والوں پر مقدمہ چلایا جائے۔ مودی کے حامیوں نے اس فیصلےکو مودی کی بے گناہی پر مہر کی طرح لیتے ہوئے جشن منایا۔

فلم میں وزیر داخلہ امت شاہ کا انٹرویو بھی دکھایا گیا ہے، جو گجرات سے آنے والے مودی کے ایک اور دوست ہیں۔ شاہ مودی کا موازنہ بھگوان شیو سے کرتے ہیں، جنہوں نے انیس سال تک’زہر پینے کے بعد گلے میں اتار’ لیا۔ سپریم کورٹ کی ‘کلین چٹ’ کے بعد وزیر نے کہا، ’سچ سونے کی طرح چمکتا ہواباہر آیا ہے۔

بی بی سی ڈاکیومنٹری کےجس  حصےپر حکومت نے  سب سے زیادہ ناراضگی کا اظہار کیاہے ، اس میں اپریل 2002 میں برطانوی دفتر خارجہ کی تیار کردہ ایک اندرونی رپورٹ کواُجاگر کیا گیا ہے،جس سے عوام اب تک ناواقف تھی۔ فیکٹ –فائنڈنگ  رپورٹ کا اندازہ تھا کہ’کم از کم 2000′ افراد کو قتل کیا گیا تھا۔ اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ قتل عام  کی منصوبہ بندی پہلے سے کی گئی تھی اور اس میں ‘نسل کشی  کی تمام خاص نشانیاں’نظر آتی ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ باوثوق ذرائع  نے انہیں بتایا تھا کہ پولیس کو خاموش کھڑے رہنے کے احکامات دیے گئے تھے۔ رپورٹ بالکل براہ راست مودی کی جانب  انگلی اٹھاتی ہے۔ یہ منظر لرزہ طاری کر دینے والا تھا، جس میں ایک سابق برطانوی سفارت کار، جو فیکٹ –فائنڈنگ کے مشن میں ایک  تفتیش کار تھے، اب بھی اس قدر محتاط ہیں کہ انہوں نے گمنام رہنے کا فیصلہ کیا، اور کیمرے میں صرف ان کی پشت نظر آتی ہے۔

بی بی سی ڈاکیومنٹر ی کا دوسرا حصہ کم دیکھا گیا، لیکن یہ کہیں زیادہ خوفناک ہے۔ یہ وزیر اعظم کی حیثیت سے اپنے دور میں  مودی کے ذریعے خطرناک پھوٹ کے اور گہری دراڑوں کو بڑھائے جانے کے بارے میں ہے ۔ زیادہ تر ہندوستانیوں کے لیے یہ  ہمارا روزمرہ کا تجربہ ہے؛ تلواروں کے ساتھ ہجوم؛ مسلمانوں کی نسل کشی اور مسلم خواتین کے ساتھ گینگ ریپ کی اپیل کرتے بھگوا دھاری دھرماتما، وہ بے خوف حوصلہ جس کے ساتھ ہندو کھلے عام سڑکوں پر مسلمانوں کو پیٹ پیٹ کر مار  سکتے ہیں۔ ایسی کرتوت کرتے ہوئے وہ نہ صرف اپنا ویڈیو بناتے ہیں،  بلکہ مودی کابینہ کے سینئر وزراء پھولوں کے ہار پہنا کر ان کا استقبال کرتے ہیں۔

دی مودی کویسچن صرف برطانوی ناظرین کے لیے نشر کیا گیا، اور صرف برطانیہ تک محدود تھا، لیکن ناظرین نے اسے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیا اوراس کے لنک ٹوئٹر پر پوسٹ کیے۔ انٹرنیٹ سرگرم ہوا۔ ہندوستان میں طلبہ کو وارننگ دی گئی  کہ وہ اسے نہ ڈاؤن لوڈکریں اور  نہ دیکھیں۔ جب انہوں نے کچھ یونیورسٹی کیمپس میں بڑے پیمانے پر اس کودیکھنے کا اعلان کیا تو ان کی بجلی کاٹ دی گئی۔

دوسرے کیمپس میں انہیں فلم دیکھنے سے روکنے کے لیے پولیس پورے لاؤ لشکر کے ساتھ پہنچ گئی۔ حکومت نے یوٹیوب اور ٹوئٹر کو تمام لنکس اور اپ لوڈز کو ہٹانے کی ہدایت دی۔ اظہار رائے کی آزادی کی پیروکار یہ یہ کمپنیاں فوراً سے پیشتر راضی ہو گئیں۔ میرے کچھ مسلمان دوست الجھن میں تھے۔’وہ  کیوں اس پر پابندی لگانا چاہتے ہیں۔ گجرات کے قتل عام نے تو  ہمیشہ ان کی مدد کی ہے۔ اور پھر یہ انتخابی سال بھی ہے۔’

اور تبھی  دوسرے ٹاور پر بھی حملہ ہوا۔

تقریباً 400 صفحات پر مشتمل ہنڈن برگ رپورٹ اسی دن شائع ہوئی، جس دن  بی بی سی کی فلم کا دوسرا حصہ نشر ہوا تھا۔ رپورٹ ان سوالوں  پر تو غور کرتی  ہی ہے، جو ہندوستانی صحافی پہلے سے ہی اٹھا تے  رہے ہیں، بلکہ یہ ان سے  آگے بھی جاتی  ہے۔ اس میں الزام لگایا گیا ہے کہ اڈانی گروپ  ‘بڑے پیمانے پر شیئروں کی  دھاندلی اور اکاؤنٹنگ فراڈ ‘ میں ملوث رہا ہے،  جس نے آف شور شیل کمپنیوں کا استعمال کرکے ،(اسٹاک مارکیٹ میں) لسٹڈ اپنی کمپنیوں کی قیمت کو فرضی طریقے سے بڑھا چڑھا کر دکھایا۔

اس کی وجہ سے اس کے چیئرمین کے کل اثاثوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ ہنڈن برگ کی رپورٹ کے مطابق، اڈانی کی لسٹڈ کمپنیوں  میں سے سات کو ان کی اصل قیمت سے 85 فیصد زیادہ قیمت پر دکھایا گیا ہے۔ خبروں کے مطابق، ان قیمتوں  کی بنیاد پر،کمپنیوں نے بین الاقوامی بازاروں سے ، اور اسٹیٹ بینک آف انڈیا جیسے  پبلک سیکٹر کے بینکوں اور لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا سے اربوں ڈالر کے قرض لیے، جہاں لاکھوں عام ہندوستانی اپنی زندگی بھر کی کمائی جمع کراتے ہیں۔

اڈانی گروپ نے 413 صفحات میں ہنڈن برگ  کی رپورٹ کا جواب دیا۔ اس نے دعویٰ کیا ہے کہ ہندوستانی  عدالتوں نے گروپ کو کسی غیر قانونی کارروائی میں ملوث نہیں پایا اور  کہا  کہ ہنڈن برگ کے الزامات بدنیتی پر مبنی اور بے بنیاد تھے  اور  وہ ہندوستان  پر حملے کے مترادف تھے۔

یہ سرمایہ کاروں کو قائل کرنے کے لیے کافی نہیں تھا۔ ہنڈن برگ کے تجزیے کی اشاعت کے بعد مارکیٹ میں پھیلی بھگڈر میں اڈانی گروپ کو 110  ارب ڈالر کا نقصان ہوا۔ کریڈٹ سوئس، سٹی گروپ اور اسٹینڈرڈ چارٹرڈ نے مارجن لون کے لیے کولیٹرل کے طور پر اڈانی کے بانڈز کوقبول کرنا بند کر دیا۔ فرانسیسی کمپنی ٹوٹل انرجیز نے اڈانی گروپ کے ساتھ ماحولیات سے مطابقت رکھنے والے  ہائیڈروجن منصوبے کے معاہدے پر فیصلہ مؤخر کر دیا،  جس پر دستخط ہونے باقی تھے۔ خبرہے کہ بنگلہ دیش کی حکومت بھی بجلی سے متعلق معاہدے کو تبدیل کرنا چاہتی ہے۔

لارڈ جو جانسن نے لندن میں قائم فرم ایلارا کیپیٹل کے ڈائریکٹر کے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ یہ ان کمپنیوں میں سے ایک ہے، جن کا ذکرکرتے ہوئے ہنڈن برگ رپورٹ نے اڈانی گروپ سے ان کا رشتہ جوڑا ہے۔ جو جانسن برطانوی حکومت کے ایک وزیر تھے، اور وہ سابق وزیر اعظم بورس جانسن کے بھائی ہیں۔

ہنڈن برگ رپورٹ کی وجہ سے پیدا ہوئے سیاسی طوفان نے ان اپوزیشن جماعتوں کو متحد کیا، جو ایک دوسرے کے خلاف برسرپیکار رہے ہیں، اور  انہوں نے ایک جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی سے  اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا۔ حکومت نے اپنے  کان بند کر لیے۔ اس میں  ہندوستانی ریگولیٹری انتظامات کو لے کر بین الاقوامی مالیاتی سرمائے کے منیجروں کے ممکنہ خدشات کے بارے میں ایک خطرناک بے حسی نظر آتی ہے۔ پارلیامنٹ  میں جاری بجٹ اجلاس  میں دو اپوزیشن ممبران پارلیامنٹ، آل انڈیا ترنمول کانگریس کی مہوا موئترا اور انڈین نیشنل کانگریس کے راہل گاندھی بولنے کے لیے کھڑے ہوئے۔ یہ دونوں ہی برسوں سے اڈانی گروپ کے بارے میں سوال کرتے  رہے  ہیں۔

مہوا موئترا نے جو سوالات اٹھائے ان میں سے کچھ یہ تھے؛ وزارت داخلہ نے ‘اے’ گروپ کو بندرگاہوں اور ہوائی اڈوں کو چلانے کے لیے سیکورٹی کلیئرنس کیسے دے دی جبکہ یہ  اپنے ایک شیئر ہولڈر کی شناخت ظاہر کرنے سے انکار کرتی ری ہے۔ گروپ نے ماریشس واقع  چھ فنڈز سے فارن  پورٹ فولیو انویسٹمنٹ  میں تقریباً 42000 کروڑ روپے (تقریباً 5 ارب ڈالر)جمع کر لیے، جبکہ ان  سبھی کےایڈریس اور کمپنی سیکریٹری ایک ہی تھے؟ کس بنیاد پر پبلک سیکٹر کےاسٹیٹ بینک اور لائف انشورنس کارپوریشن آف انڈیا نے گروپ میں اپنی سرمایہ کاری جاری رکھی؟

راہل گاندھی نے وزیر اعظم کے اسرائیل، آسٹریلیا اور بنگلہ دیش کے دوروں کا ذکرکیا اور پوچھا،’اور ان میں سے کتنے ممالک سے، جہاں آپ نے دورہ کیا، اڈانی جی کو ٹھیکے ملے؟’ انہوں  نے کچھ کی فہرست پیش کی؛ اسرائیل کے ساتھ  دفاعی معاہدہ، آسٹریلیا میں کوئلے کی کان کے لیے اسٹیٹ بینک آف انڈیا سے 1 ارب ڈالر کا قرض، بنگلہ دیش کے لیے  1600 میگاواٹ کا پاور پروجیکٹ۔ آخر میں، اور سب سے اہم بات، گاندھی نے پوچھا کہ بی جے پی کو خفیہ الیکٹورل بانڈز میں اڈانی گروپ سے کتنی رقم ملی ہے۔

اصل بات یہی ہے۔ 2016 میں بی جے پی نے انتخابی بانڈز کی اسکیم متعارف کرائی تھی، جس میں کارپوریٹ کمپنیوں  کو اپنی شناخت ظاہر کیے بغیر سیاسی پارٹیوں کوپیسے دینے کی اجازت مل گئی۔ ہاں، گوتم اڈانی دنیا کے امیر ترین آدمیوں میں سے ایک ہیں، لیکن اگر آپ انتخابات کے دوران بی جے پی کی تڑک بھڑک  کو دیکھیں تو بی جے پی نہ صرف ہندوستان کی ،  بلکہ شاید دنیا کی  بھی سب سے امیر سیاسی جماعت ہے۔ یہ دونوں پرانے دوست کیا  کبھی ہمیں اپناکھاتہ دکھائیں گے؟ کیا ان کے اکاؤنٹ الگ  الگ ہیں بھی؟

موئترا کے سوالوں کو نظر انداز کر دیا گیا۔ گاندھی کے زیادہ تر سوالات کو پارلیامنٹ کے ریکارڈ سے ہی خارج کر دیا گیا۔

وزیر اعظم مودی کا جواب پورے 90 منٹ تک جاری رہا۔ انہوں نے وہی کیا جو وہ خوب کرتے ہیں – انہوں نے خود کو ایک قابل فخر ہندوستانی کے طور پر پیش کیا، جو  ایک بین الاقوامی سازش کا شکار  ہےجو کبھی کامیاب نہیں ہوگی، کیونکہ انہوں نے 1.4 ارب لوگوں کے بھروسے سے بنی  سپر پہن رکھی ہے، اور جسے اپوزیشن کبھی توڑ نہیں پائے  گی۔ اس شبیہ  سے (جو سیاست میں اپنے شیئروں کی قیمت بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے مترادف ہے) ان کی کھوکھلی بیان بازی کا ہر پیراگراف شرابور تھا، دوسروں کو تمسخر کا نشانہ بناتے ہوئے ، تضحیک کرتے ہوئے، جارحانہ تبصروں اور شخصی ہتک سے لبریز۔

تقریباً ہر جملے کے استقبال  میں بھاجپائی  بنچوں کی طرف  سے ٹیبل تھپتھپائے گئے، ساتھ میں ‘مودی! مودی ! مودی! کا جاپ جاری رہا۔ انہوں نے کہا کہ کمل کے اوپر چاہے جتنا بھی کیچڑ پھینکا جائے،یہ  کھل کر رہے گا۔ انہوں نے ایک بار بھی اڈانی کا ذکر نہیں کیا۔ شاید وہ سمجھتے ہوں  کہ یہ کوئی ایسی بحث نہیں ہے جس سے ان کے ووٹروں کا کوئی سروکار ہونا چاہیے، کیونکہ ان میں سے کروڑوں لوگ بے روزگار ہیں، وہ انتہائی غربت میں بس گزارے لائق  راشن  پر  جیتے  ہیں  (جوانہیں مودی کی تصویر والے پیکٹوں میں ملتا ہے) اور وہ یہ سمجھ بھی نہیں پائیں  گے کہ  100 ارب  ڈالر کا مطلب کیا ہوتا ہے۔

زیادہ تر ہندوستانی میڈیا نے مودی کی تقریر کو شاندار انداز میں پیش کیا۔ کیا یہ اتفاق تھا کہ اگلے چند دنوں میں کئی قومی اور علاقائی اخبارات میں ان کی ایک بڑی سی تصویر کے ساتھ فرنٹ پیج  پر اشتہارات شائع ہوئے،  جس میں سرمایہ کاروں کے ایک اورچوٹی کانفرنس کا اعلان کیا گیا تھا؟ اس بار اس کواتر پردیش میں ہونا ہے۔

کئی دنوں کے بعد 14 فروری کو وزیر داخلہ نے ایک انٹرویو میں اڈانی معاملے پرکہا کہ بی جے پی کے لیے’ڈرنے یا چھپانے کے لیے کوئی بات نہیں’ ہے۔ ایک بار پھر انہوں نے جوائنٹ  پارلیامانی کمیٹی کے امکان پر کان  بند کر لیے اور اپوزیشن جماعتوں کو عدالت جانے کا مشورہ دیا۔ وہ ابھی بول ہی رہے تھے کہ پولیس نے ممبئی اور دہلی کے دفاتر کا گھیراؤ شروع کر دیا اور ٹیکس حکام نے چھاپے مارنے شروع کر دیے۔ نہیں، اڈانی کے دفاتر پر نہیں۔ بی بی سی کے ۔

گزشتہ 15 فروری کو خبروں کا سارا ماحول ہی بدل چکا تھا۔ اور نو سامراجی حملے کے بارے میں  رپورٹنگ بھی۔پرتپاک اور نتیجہ خیز’ ملاقاتوں کے بعد وزیر اعظم مودی، صدر جو بائیڈن اور صدر ایمانوئل میکرون نے اعلان کیا کہ ہندوستان   470 بوئنگ اور ایئربس ہوائی جہاز خریدے گا۔ بائیڈن نے کہا کہ اس معاہدے سے دس لاکھ  سے زیادہ امریکی نوکریاں پیدا ہوں گی۔ ایئربس میں انجن رولس روائس کا ہوگا۔’برطانیہ کے ابھرتے ہوئے ہوائی جہاز مینوفیکچرنگ سیکٹرکے لیے آسمان  ہی  حد ہے’، وزیر اعظم رشی سنک نے کہا ۔

اس طرح کھلتا ہے کمل ، خون اور دولت کی دلدل میں۔ اور یقیناً سچ سونے کی طرح چمکتا ہوا باہر آتا ہے۔

(ارندھتی رائے کا یہ مضمون دی گارڈین میں شائع ہوا ہے۔ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کیجیے۔)