خبریں

بی بی سی پر انکم ٹیکس چھاپے سے سمجھا جا سکتا ہے کہ مودی راج میں کس طرح جمہوریت کا جنازہ نکالا جا رہا ہے

مودی حکومت کی جانب سے پریس  کی آزادی اور جمہوریت پر جاری حملوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا جا چکا ہے، لیکن تازہ ترین حملے سے پتہ چلتا ہے کہ پریس کی آزادی ‘مودی سینا’ کی مرضی کی غلام بن  ہو چکی ہے۔

(فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

(فوٹو بہ شکریہ: سوشل میڈیا)

بی بی سی کے دہلی اور ممبئی واقع دفاتر پر انکم ٹیکس کی ٹیم کے چھاپے کی کارروائی شروع ہونے کے ایک گھنٹے کے اندر بھارتیہ جنتا پارٹی نے برطانیہ کے پبلک براڈکاسٹر کے خلاف انتہائی غیر مہذب  حملہ کیا۔

بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی ترجمان کی حیثیت سے بولتے ہوئے گورو بھاٹیہ نے بی بی سی کو ‘کرپٹ، بکواس ، کارپوریشن’ قرار دیا اور اس کے مبینہ غلط کاموں کی ایک مختصر سی (غیرمتعلق ) فہرست پیش کر دی۔ بی بی سی کے خلاف لگائے گئے الزامات میں سے ایک یہ تھا کہ اس نے یہ کہہ کر مہاتما گاندھی کی توہین کی تھی کہ وہ ‘1946 میں ہندوستان کو آزاد کرنے کی اپنی کوشش میں ناکام رہے’ – حالانکہ یہ توہین کے بجائے حقائق پر مبنی بیان ہے، کیونکہ ہندوستان کو حقیقت میں1947 میں آزادی ملی۔

بی جے پی کے دیگر رہنماؤں نے بی بی سی پر ایک دستاویزی فلم کے ذریعے سپریم کورٹ آف انڈیا کی توہین کرنے کا الزام لگایا ہے۔ یہ دستاویزی فلم ناظرین کو 2002 کے گجرات کے مسلم مخالف فسادات کے دوران ریاست کے وزیر اعلیٰ کے طور پر نریندر مودی کی کارناموں کی یاد دلاتی ہے۔

چونکہ غیر سرکاری طور پر کیا گیا’سرکاری’ دعویٰ یہ ہے کہ بی بی سی پر انکم ٹیکس کے چھاپے کا مودی پر بننے والی دستاویزی فلم سے کوئی تعلق نہیں ہے،اس لیے  ہمیں سچائی کو بے نقاب کرنے کے لیے بی جے پی اور اس کے پرجوش ترجمانوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔ کیونکہ صرف ایک احمق یا حکومت کا حمایتی ہی یہ دکھاوا کرنے کی کوشش کرے گا کہ دستاویزی فلم کے نشر ہونے کے ایک ماہ کے اندر محض اتفاق سے محکمہ انکم ٹیکس کو بی بی سی کی ٹیکس چوری کا کوئی ثبوت ہاتھ لگ گیا۔

مودی حکومت کی جانب سے میڈیا کی آزادی اور جمہوریت پر جاری حملوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے، لیکن تازہ ترین حملہ تین قابل ذکر نکات کی طرف ہماری توجہ مبذول کراتا ہے۔

شی  اور پتن کے ساتھ ‘اقدار کا اشتراک’، لیکن تجارت پر اس کا اثر نہیں

پہلا نکتہ یہ ہے کہ آزادی صحافت اور مشترکہ اقدار کی قسمیں کھانے والی مغربی جمہوریت کی دلچسپی کاروباری سودوں اور جیو پولیٹیکل اتحادیوں میں زیادہ ہے اور مودی حکومت زمین پر کیا کر رہی ہے، اس کی انہیں کوئی پرواہ نہیں ہے۔

بی بی سی برطانوی عوام کی ملکیت ہے اور بی بی سی پر سختی برتنے کی کوشش کے مد نظر وہاں کی حکومت کو کوئی عوامی ردعمل ضرور دینا چاہیے تھا۔ لیکن بدقسمتی سے رشی سنک کوایئر انڈیا اور ایئربس کے درمیان ہوائی جہازوں کی خریداری میں زیادہ دلچسپی تھی۔ جس دن انکم ٹیکس ڈپارٹمنٹ کی ٹیم بی بی سی پر چھاپہ مار رہی تھی، اس دن امریکہ اور فرانس کے لیڈروں نے مودی سے بات کی۔

اگرچہ ان دونوں کا بی بی سی سے براہ راست تعلق نہیں ہے، لیکن انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ایک میڈیا پلیٹ فارم کے خلاف استعمال ہونے والا ہتھیار آخرکار دوسروں کے خلاف  بھی استعمال ہوگا۔

صورتحال یہ ہے کہ ہندوستان میں کام کرنے والے فرانسیسی نامہ نگاروں کو اپنے پریس ویزاسے متعلق کاموں کے حوالے سے مشکلات کا سامنا ہے اور کم از کم ایک امریکی صحافی کو قانونی دستاویز ہونے کے باوجود ہندوستان میں آنے کی اجازت نہیں دی گئی ۔ لیکن پھر بھی جو بائیڈن اور ایمانوئل میکرون ہندوستان میں میڈیا کی آزادی کے حوالے سے اپنے برطانوی ہم منصب جتنے ہی لاتعلق ہیں۔

حقیقت یہ ہے کہ بی بی سی پر اس طرح کابے شرم  حملہ ہندوستان میں جی–20کے وزرائے خارجہ کے اجلاس کے محض ہفتہ عشرہ  پہلے کیا گیا،  یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ مودی مغرب کی خاموشی کے بارے میں  کتنے پُراعتمادہیں۔

’مودی ریکھا‘ پار کرنے  پرنتائج بھگتنے کے لیے رہنا ہوگا تیار

دوسرا، یہ چھاپے اس بات کی یاددہانی ہیں کہ بناوٹی تنقیدپر ردعمل مل سکتا ہے، لیکن جہاں مودی کی ذاتی شبیہ پر سوالیہ نشان لگایا جائے گا، وہاں پورا نظام آپ کے خلاف کھڑا کر دیا جائے گا۔ بی بی سی کی دستاویزی فلم کے پہلے حصے پر پابندی اس لیے نہیں لگائی گئی تھی کہ اس میں سپریم کورٹ کی توہین کی گئی (جو کہ اس نے نہیں کی تھی)، بلکہ اس لیے کہ اس نے دنیا کو  2002 میں اس ‘عظیم لیڈر’ کے شرمناک کردار کی یاد دلا ئی تھی۔

اتفاق سے، چونکہ بی جے پی یہ کہنا پسند کرتی ہے کہ سپریم کورٹ کے الفاظ حرف آخر ہیں، اس لیےیہاں 2004  میں سپریم کورٹ کی ایک بنچ کا فیصلہ گجرات کے وزیر اعلیٰ کے طور پر، گجرات تشدد کے دوران مودی کے کردار، جس میں ہزاروں بے گناہ لوگ مارے گئے تھے، پر کیے گئے تبصرے کو یاد کیا جا سکتا ہے۔

جب بیسٹ  بیکری اور معصوم بچے اور بے سہارا عورتیں جل رہی تھیں، اس وقت جدید ‘نیرو’ کہیں اور دیکھ رہے تھے، اور شاید اس منصوبہ بندی میں مشغول تھے کہ اس جرم کو انجام دینے والوں کو کیسے بچایا جاسکتا ہے… ان شر پسند لڑکوں کے ہاتھوں قانون اور انصاف کھلونا بن گیا۔ جب میڑھ ہی فصلوں کو کھانے لگیں گے تو پھر نہ امن و امان کی امید رہے گی اور نہ ہی سچائی اور انصاف کے بچ جانے کی ۔ ایسے میں امن عامہ کے ساتھ عوامی مفادات بھی شہید ہو کر یادگار بن جاتے ہیں۔

سال 2022 میں سپریم کورٹ نے صرف یہ فیصلہ سنایاکہ مودی پر سازش کرنے کا الزام لگانے لائق ثبوت نہیں ہیں– جیسا کہ ذکیہ جعفری نے اپنی عرضی  میں مطالبہ کیا تھا– نہ  کہ یہ کہا تھا  انہوں نے بطور وزیر اعلیٰ مسلم مخالف تشدد سے نمٹنے میں مہذب طریقے سے یا ایمانداری سے کام کیا تھا۔ اس سوال کا جواب عدالت نے 2004 میں ہی دے دیا تھا اور اب یہ ہندوستان کی سیاسی اور عدالتی تاریخ کا ایک انمٹ حصہ ہے – کہ مودی کی ترجیحات  نسل کشی کے مجرموں کو تحفظ فراہم کرنا تھی۔ لیڈی میکبتھ کے قول کو بدلتے ہوئے کہا جا سکتا ہے کہ ‘جی –20 کا سارا عطر مل کر بھی ان ہاتھوں کو خوشبودار نہیں بنا سکتے۔’

بی بی سی کی دستاویزی فلم نے دنیا کو ان اخلاقی اور سیاسی سوالات کی یاد دلا ئی،  جو مودی کے ساتھ اب بھی وابستہ  ہیں، کسی  تجریدی تاریخ کی طرح نہیں بلکہ وزیر اعظم  کے طور پرانہوں نے جس طرح مسلم مخالف سیاست  کی ہے ، اس کے لیے ضروری پس منظر کے طور پر ۔ ان کی حکومت کا پہلا ردعمل انتہائی اشتعال انگیز اور گالی گلوچ والا تھا۔ اس کے بعد پابندی لگائی گئی، حالانکہ یہ غیر آئینی قدم تھا۔ اور اب یہ ٹیکس چھاپہ۔ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ یہ باب یہیں ختم ہوگیا ہے۔

اسی طرح سےپارلیامنٹ میں اپوزیشن کی طرف سے متنازعہ بزنس مین گوتم اڈانی کے ساتھ مودی کے تعلقات کے حوالوں کو ایوان کی کارروائی کے سرکاری ریکارڈ سے خارج کر دیاگیا اور بی جے پی لیڈروں نے مدیران سے بھی بحث کی رپورٹس سے مودی کا نام ہٹانے کے لیےکہا۔ بعض لوگوں نے اس کی پیروی کی۔ جنہوں نے ایسا نہیں کیا وہ ممکنہ طور پر نتائج بھگتنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ اب جبکہ پریس کی آزادی ‘مودی سینا’کے مطالبات کی غلام ہو چکی ہے، ہم  تحت الثریٰ کی طرف جا رہے ہیں۔

میڈیا کے خلاف میڈیا کامحاذ

تیسرا، جس آسانی کے ساتھ ہندوستانی میڈیا کی اکثریت نے بی بی سی پر انکم ٹیکس کے چھاپے کی وجہ کے طور پر ٹرانسفر پرائسنگ کے سرکاری موقف کو آگے بڑھایا ہے وہ ہمیں بتاتا ہے کہ ہندوستان کے مدیران ، میڈیا مالکان اور نامہ نگار ہندوستان میں پریس کی  آزادی کے سب سے بڑے دشمن بن چکے ہیں۔ 48 گھنٹے تک کوئی بھی سرکاری اہلکار یا وزیر ٹرانسفر پرائسنگ دعوے کے پیچھے اپنا نام شامل نہیں کرنا چاہتا تھا،  یہی بات اس کے مشتبہ ہونے کا ثبوت ہے۔

مزید یہ کہ ٹیکس کے معاملات میں مہارت رکھنے والے کسی بھی وکیل سے پانچ منٹ کی بات چیت سے  میڈیا کو یہ صاف ہو جاتاہے کہ یہ چھاپے واضح طور پر بدنیتی سے مارے گئے تھے۔ لیکن پھر بھی اکثر چینلوں اور اخبارات نے اس ‘بیہودہ’ دلیل کو بہت عزت دی۔ لیکن ملک کے بڑے میڈیا ہاؤسز کے طرز عمل کو دیکھ کر شاید ہی کوئی حیرانی ہو۔ گزشتہ نومبر میں، ایک میڈیا مالک نے سرعام نریندر مودی اور امت شاہ کی شان میں قصیدے پڑھے تھے۔ ان کے کئی ٹی وی چینلوں میں سے ایک چینل کے اینکر نے اعلان کر دیا  ہے کہ 2024 میں مودی ‘دنیا کے وزیر اعظم’ بن جائیں گے۔

(اسکرین گریب بہ شکریہ: ٹائمز ناؤ نوبھارت)

(اسکرین گریب بہ شکریہ: ٹائمز ناؤ نوبھارت)

مودی نے 2002 میں ہی  بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم مخالف فسادات کے حوالے سے انہیں صرف اس بات کا افسوس ہے کہ انہوں نے میڈیا کو اچھی طرح سے منظم نہیں کیا۔ 21 سال بعد وہ اس غلطی کو سدھارنے کے لیے پرعزم ہیں۔

میڈیا اداروں کو ہراساں کیا گیا ہے، میڈیا اسٹارٹ اپس کو فنڈز فراہم کرنے والی انڈیپنڈنٹ اینڈ پبلک اسپرٹ میڈیا فاؤنڈیشن کی تحقیقات کی گئی ہے، صحافیوں کو نشانہ بنایا گیا ہے، جن میں معروف فیکٹ چیکر محمد زبیرشامل ہیں، کشمیری صحافی سلاخوں کے پیچھے ہیں  اور انہیں ایک طرح سے بیرون ملک سفر کرنے سے روک دیا گیا ہے۔ایک دم گھونٹ دینے والی  جمہوریت میں آپ کا استقبال ہے۔

(اس مضمون کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)