خبریں

این سی پی یو ایل: کیا مودی حکومت اُردو کے خلاف کوئی سازش کر رہی ہے؟

جنرل باڈی نہ ہونے کے باعث  این سی پی یو ایل کو اُردو کے فروغ کے لیے مختص بجٹ کا استعمال نہیں کیا جاسکا ہے۔ اس  سلسلے میں اُردو آبادی مرکزی حکومت کے ارادوں اور  نیت پر سوال اٹھا رہی ہے۔

تصویر بہ شکریہ: این سی پی یو ایل/ فیس بک

تصویر بہ شکریہ: این سی پی یو ایل/ فیس بک

نئی دہلی: قومی کونسل برائے فروغ اُردو زبان (این سی پی یو ایل )  وزارت تعلیم، حکومتِ ہندکےتحت اُردو کی ترقی اور ترویج و اشاعت کے لیے کام کرنے والاایک خودمختارادارہ ہے، جو  رواں مالی سال کے اختتام (مارچ) سے ٹھیک پہلے اپنے بنیادی مقاصد کی تکمیل اور زبان سے متعلق سرگرمیوں کے لیے گرانٹ جاری کرنے میں ناکارہ ثابت ہو رہا ہے۔

دراصل، مرکزی حکومت کی جانب سے ادارے کی جنرل باڈی کی تشکیل نو کے سلسلے میں اب تک کوئی بھی اقدام کرنے میں  مبینہ کوتاہی  اور تاخیر کے باعث اس سال کتابوں کی خریداری ، سیمینارکے انعقاد میں سرکاری اورغیرسرکاری تنظیموں کی امداد، ، کتابوں کو مالی تعاون، ٹیچنگ سینٹر کے انتظامات  اور ریسرچ پروجیکٹ کے لیے سہولیات فراہم کرنے  جیسے بہت سے اہم اور بنیادی کاموں کے ٹھپ پڑ  جانے کا اندیشہ  اب محض قیاس آرائی نہیں ہے۔

اس معاملے کی جڑ یعنی جنرل باڈی کی تشکیل نو میں حکومت کی نااہلی اور لاپرواہی کے سوال پر آنے سے پہلے بتادیں کہ یہ معاملہ اس وقت سامنے آیا جب 28 جنوری کو معروف نقاد اور جامعہ ملیہ اسلامیہ میں اُردو کے پروفیسرکوثر مظہری نے ایک اپیل جاری کرتے ہوئے  اُردو آبادی کی توجہ اس جانب مبذول کرائی۔

اس اپیل میں انہوں نے مختلف مدوں کی گرانٹ کے لیے 6  ماہ قبل ہونے والی میٹنگ  کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ابھی تک اس بارے میں  کوئی اعلان نہیں کیا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’یوں اُردو کے خلاف کہیں خفیہ تو کہیں اعلانیہ سازشیں چل  رہی ہیں…ظاہر ہے کہ پیسے ریلیز نہیں ہوں گے تو اُردو کا بڑا نقصان ہوگا… لیکن اس سے نہ تو وزیر محترم کا کچھ بگڑے گا اور نہ ہی ہمارے ہر دلعزیز ڈائریکٹر صاحب کا خسارہ ہوگا ‘۔

اس اپیل کے بعد اُردو آبادی میں تھوڑی ہلچل ضرور دیکھی گئی ، لیکن کوئی خاص پیش رفت نظر نہیں آئی۔

موصولہ اطلاعات کے مطابق، 37 ممبران کے ساتھ کام کرنے والااین سی پی یو ایل صرف چار مستقل ممبروں کے ساتھ کام کر رہا ہے، جس میں چیئرمین کےطور پر وزیر تعلیم کے علاوہ  ڈائریکٹر اور وزارت کےہی  دو اورعہدیدار شامل ہیں۔ مجموعی طور پر یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ جنرل باڈی کی عدم موجودگی میں این سی پی یو ایل اپنی پوری صلاحیت کے بغیر کتنا مؤثر ہو سکتا ہے؟

یہ ایک سوال ہے، حالانکہ اس کی وجہ سے گرانٹ کا جاری نہ ہونا این سی پی یو ایل کے ایک سابق اور سینئر عہدیدار کے دعوے کے مطابق بنیادی طور پر کوئی معاملہ ہے ہی  نہیں، بلکہ یہ اُردو کے نام پرایک سوچی سمجھی سیاست ہے۔

ایسے میں این سی پی یو ایل کےتعطل کا  شکار ہوجانے کا اندیشہ لیے جہاں اُردو آبادی سرکار کی نیت پر کچھ کچھ سوال اٹھا رہی ہے، وہیں اُردو کے ادیب اور دانشور بھی اپنے خدشات کا اظہار کر رہے ہیں۔

اس بارے میں بات کرتے ہوئے ادارے کے ڈائریکٹر عقیل احمد نے دی وائر کو بتایا،’پروسس میں تھوڑی  تاخیر ضرور ہوئی ہے، لیکن اس کے پس پردہ  حکومت کا کوئی غلط ارادہ نہیں ہے… یہ صرف اُردو کے ساتھ نہیں ہوا، سندھی زبان کی جنرل باڈی ابھی  دو سال گزرنے کے بعد بنی ہے۔ اس لیے یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ حکومت اُردو کوختم  کرنا چاہتی ہے۔

حکومت کا دفاع کرتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ ، ‘ منموہن سنگھ کی حکومت کے آخری  پنج سالہ بجٹ  (146 کروڑ روپے) کے مقابلے مودی حکومت کا  (دوسری مدت) پنج  سالہ بجٹ 416 کروڑ روپے ہے۔ اسی  سے اندازہ لگالیجیے کہ مودی حکومت کس طر ح سے  اور کس پیمانے پر اُردو کی ترقی اور اس کی بھلائی  چاہتی ہے۔’

انہوں نے مزید کہا کہ کونسل رواں مالی سال کے لیے 102 کروڑ روپے کی گرانٹ طلب کرنے والی تھی۔ وہیں گرانٹ کی منظوری کے لیے کمیٹی نہ بنائے جانے کے سوال پر بہت  واضح لفظوں میں کچھ  بھی کہنے سے گریز کرتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ ، ‘وزارت کی سطح پر پروسس  کو فالو کیا گیا ہے، تھوڑی  تاخیرضرور ہوئی ہے، لیکن میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ سرکار  کی کوئی غلط منشا نہیں ہے۔ ہم اپنی انٹرنل میٹنگ کر چکے ہیں کہ گرانٹ کس کو اور کس مد  میں دینا ہے،  لیکن جنرل باڈی  ابھی نہیں بنی، اس لیے ایگزیکٹو بورڈ بھی نہیں بن سکا تو فی الحال  اس کی منظوری  ہمارے پاس نہیں ہے۔

معلوم ہو کہ ایگزیکٹو بورڈ کا قیام  کونسل کے ممبروں کے درمیان  سے ہی کیا جاتا ہے۔ ڈائریکٹر کی مانیں  تو،  وزارت جنرل ممبران کی فہرست این سی پی یو ایل کو ایک ہفتے کے اندر فراہم کرے گی۔ تاہم، وہ مزید کہتے ہیں، ‘ اس کے بعد کے پروسس کو مکمل کرنے میں  مارچ ختم ہو جائے گا تو تکنیکی طور پر اس سال گرانٹ دینا ممکن نہیں ہو گا۔ ہماری کوشش ہوگی کہ  اگلے مالی سال میں اس کے لیے کوئی راستہ نکلے۔

واضح ہو کہ پچھلی دفعہ  وزارت تعلیم کی جانب سے تین سال کے لیے کونسل تشکیل دی گئی تھی، اس کے تحت اراکین کی مدت کار 4 دسمبر 2021 کو ہی ختم ہو چکی ہے۔ اس حوالے سے ڈائریکٹر کا کہناہے کہ ‘ہم نے نومبر 2021 میں اس کے لیے پروسس شروع کیا تھا اور ناموں کی فہرست وزارت کے حوالے کی گئی تھی، اس کے بعد یاددہانی  بھی کروائی گئی ، لیکن اب سارا پروسس پورا کرلیا گیا ہے۔’

دوسری جانب این سی پی یو ایل کے ایک ذرائع نے بتایا کہ ادارے  کی جانب سے کوئی کوتاہی  نہیں ہوئی، جوبھی  ہوا وہ وزارت میں ہی ہوا۔ ان کا کہنا ہے کہ شاید کسی وجہ سے یہ (اُردو) وزارت کی ترجیحات میں نہیں ہے۔

دریں اثنا،  این سی پی یو ایل کے بیان اور وضاحت کو لیپاپوتی  کی کوشش قرار دیتے ہوئے ادارے کے ایک سابق اور سینئر عہدیدار نے نام نہ ظاہر  کرنے کی شرط پر کہا کہ ، ‘دیکھیے کمیٹی نہیں بنی  تو یہ کوئی ایسی  بڑی بات نہیں تھی، کیونکہ جو  چیئرمین (وزیر تعلیم)  ہے وہ اپنے اختیارات کا استعمال کرتے ہوئے گرانٹ کو منظوری دے سکتا ہے، اور بعد میں جب بھی کمیٹی بنتی اس کو  اس کی رپورٹ دے دی جاتی۔ یہ بہت آسانی سے ہو سکتا تھا اور پہلےایسا ہو چکا ہے کہ کچھ مہینوں  تک ایک بھی ممبر نہیں تھا، لیکن کبھی کوئی مسئلہ پیدا  نہیں ہوا۔

ان کا کہنا ہے،’اصل میں یہ قوت ارادی کی بات ہے اور اس معاملے میں  موجودہ ڈائریکٹرذراکمزور ہیں، اگر وہ ایکٹو ہوتے تو یہ نوبت  ہی  نہیں آتی ۔’

این سی پی یو ایل کے ہی  سابق پرنسپل پبلی کیشن آفیسر اور اس وقت دہلی یونیورسٹی میں اُردو کے پروفیسر ابوبکر عباد اس پورے معاملے کو انتہائی افسوسناک قرار دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ‘اُردو کا جو حق ہے وہ اسے وقت پر ملنا چاہیے تھا، اتنے بڑے بجٹ کا نقصان اُردو کے حق میں ٹھیک نہیں ہے’۔

ان کا بھی یہی کہنا ہے کہ ‘کمیٹی نہیں  بنی،تو اصل میں یہ ایک بہانے بازی ہے، یہاں  بڑی آسانی سے اسپشل پاور کا استعمال کیا جا سکتاتھا، بعد میں کمیٹی اسے منظور کر لیتی۔ یہ کون سی  بات ہے کہ کمیٹی نہیں  بنی تو سارا کام ٹھپ؟’

عباد کہتے ہیں،’میں اس  کواُردو کے خلاف کوئی سازش یا قدم نہیں کہوں گا، ہاں میں اس کو ڈائریکٹر کی کوتاہی ضرور سمجھتا ہوں۔ اگر وزارت کی طرف سے تاخیر ہورہی تھی تو انہیں اُردو آبادی کو اس کے بارے میں بتانا چاہیے تھا۔ پھر لوگ وزارت کو خط لکھ سکتے تھے۔ ڈائریکٹر ہی تو درمیانی کڑی ہیں، ان کو بھی جوابدہ  ہونا ہی  چاہیے۔’

این سی پی یو ایل کے سابق وائس چیئرمین اور فی الحال ساہتیہ اکادمی میں اُردو ایڈوائزری بورڈ کے کنوینر معروف شاعر چندر بھان خیال بھی کہتے ہیں کہ یہ سرکار کی کمی  ہے، ڈائریکٹر کی کمی ہے، ان کو دوڑ دھوپ کرنی  چاہیےتھی۔

وہ کہتے ہیں،’دیکھیے صاحب جو  وزیر تعلیم  ہیں وہی چیئرمین ہیں، سب کچھ ان کے اختیار میں ہے، کام تو ہو سکتا تھا، لیکن کمیٹی بہت ضروری ہے۔ ملک میں جمہوریت ہے توسارے ادارے بھی جمہوری طریقے سے ہی چلیں گےنا، کوئی نہیں  ہوگا تو من مانے طریقے سے جو کرنا ہے کرتے رہیں ،کوئی کیا کر سکتا ہے، سرکار جو چاہے کرے۔

خیال یہ بھی کہتے ہیں،’اُردو کے خلاف یہ کوئی  قدم ہے یا نہیں وہ میں نہیں جانتا، لیکن نقصان تو اُردو کا ہی ہو رہا ہے۔’

این سی پی یو ایل کے حوالے سے کئی معاملوں میں بے باکی سے اپنی رائے رکھنے والے ہندوستان ایکسپریس کے نیوز ایڈیٹر شاہد الاسلام کی مانیں تو  اب این سی پی یو ایل موہن بھاگوت جیسے لوگوں کی کتابیں شائع کرنے میں ہی  فراخدلی کا مظاہرہ کرتا ہے اور ڈائریکٹر ان کے نظریے کی تبلیغ میں کہیں سے  پیچھے نہیں رہنا چاہتے، بھلے سے اُردو کے لیے جو کام ہونا چاہیے وہ نہ ہو۔

بتادیں کہ یہاں شاہد این سی پی یو ایل  کی جانب سے شائع اور ڈائریکٹر  شیخ عقیل احمد کی ترجمہ کی ہوئی  کتاب مستقبل کا بھارت کی طرف  اشارہ کر رہے تھے۔

غور طلب  ہے کہ بھاگوت کی اس کتاب کی تشہیر و اشاعت بلکہ  آر ایس ایس جیسی تفرقہ انگیز تنظیم کے نظریے کو فروغ دینے کے لیے این سی پی یو ایل کی مذمت کرتے ہوئے اُس وقت اُردو ادیبوں اور دانشوروں کے ایک طبقے نے کہا تھا کہ،یہ ایک قومی اہمیت کے  حامل ادارے کو  بربادکرنے کی کوشش  ہے۔

بہرحال شاہد کا کہنا ہے کہ،’ڈائریکٹر صرف اپنی تصویریں چھپوانے میں مصروف ہیں، اور یہ بات سمجھیے کہ گرانٹ کو کیسے کم کیا جائے، یہ ساری سرگرمیاں اسی  کے لیے ہیں۔ اب وزارت کسی دن کہہ دے گی کہ پیسہ خرچ نہیں ہو رہا  تو بجٹ کم کر دو۔اُردو برادری کی طرف سے آواز اس لیے نہیں اٹھائی جا رہی کہ سب کی حالت وہی پانی میں رہ کر  مگر مچھ سے دشمنی والی ہے ، کون بولے گا؟’

وہیں، اس معاملے پر سب سے پہلے آواز اٹھانے والے کوثر مظہری بتاتے ہیں کہ،’سب سے بڑا سوال یہی  ہے کہ وزارت سے کمیٹی بنوانے میں ڈائریکٹر کو کامیابی  کیوں نہیں ملی؟ اب تو اُردو کا نقصان ہو گیا اور اگر ابھی گرانٹ دیں  بھی  تو کیسے مارچ سے پہلے سیمینار ہوگا یا کتابیں شائع ہوں گی، یہ تو اب ممکن نہیں ہے۔

وہ سوال کرتے ہیں،’ڈائریکٹر کو بتانا چاہیے کہ اب کیا ہوگا؟ کیا پیسے واپس جائیں گے؟ کیا اگلے بجٹ میں کٹوتی ہو گی؟ وہ کونسل  کے کتاب میلے اور دیگر پروگراموں میں تو خوب  نظر آتے ہیں، لیکن جو بنیادی  کام ہونا چاہیے تھا، وہ آخرکیوں نہیں ہوا؟’

شاہد کی طرح ان کا بھی ماننا ہے کہ لوگ اس بارے میں بات کرنے سے ڈرتے ہیں، انہیں لگتا ہے کہ اس پر آواز اٹھانا ڈائریکٹر کے خلاف بولنا ہے، ان کی ناراضگی مول لینا ہے۔ ‘اب کوئی کیسےسمجھائے کہ یہ اُردو کے حق میں آواز اٹھانا ہے، یہ کسی خاص فرد کی تو بات ہی نہیں ہے!’

این سی پی یو ایل میں ریسرچ ایسوسی ایٹ کے طور پراپنی  خدمات انجام دے چکے  اور اس وقت علی گڑھ مسلم یونیورسٹی میں اُردو پڑھا رہے معید رشیدی کا دعویٰ ہے کہ  ادارے کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ ‘اب معاملہ کچھ اور  ہو گیا ہے، اقلیتوں کے وظیفے بند کیے جا رہے ہیں اور اُردوکو بھی کسی حد تک اقلیتوں کی ہی زبان سمجھا جاتا ہے تو کیا کہیں، اب ہر طرح سے کمیونٹی  اورلنگویج  پر حملے ہو رہے ہیں۔ یہ صرف لاپرواہی  کا معاملہ نہیں ہے، اس کے پیچھے ایک سوچا سمجھا ایجنڈہ ہے۔ حکومت کھل کر پیغام نہیں دینا چاہتی تو  اسے بتدریج کمزور کرنے کا یہی ایک طریقہ ہے، کوئی کام نہ ہو، بس اُردو کے نام پر ایک عمارت کھڑی رہے۔

وہ مزید کہتے ہیں،’بجٹ دیکھ لیجیے، کتنا اچھا ہے، لیکن حال آپ  دیکھ  ہی رہے ہیں کہ کمیٹی نہیں ہے، اسی لیے گرانٹ بھی نہیں ہے۔ شاید یہ بھی حکومت کی کوئی جملے بازی ہی نہ ہو۔ پتہ نہیں ڈائریکٹر نے کتنی بھاگ دوڑ کی، لیکن یہ تو  صاف ہے کہ حکومت کو اُردو سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔

اس طرح کے  تمام خدشات کے درمیان ہندی فلموں کے معروف  نغمہ نگار اور شاعر شکیل اعظمی کہتے ہیں،’یہ ادارہ اُردو اور اُردو والوں کے لیے بہت اہم ہے، ذرا سی غفلت اور کوتاہی  سے بڑانقصان ہو سکتا ہے۔ اُردو کے لیے سب سے بڑا بجٹ اسی کے پاس ہے، لیکن اگر کسی وجہ سے اس کو گھٹا دیا جاتا ہے ، گرانٹ جاری نہیں  ہوتا، کتابیں نہیں خریدی جاتیں تو یہ اُردو ادب، زبان اور ہماری ثقافت کے لیے کسی بھی طرح سے اچھا نہیں ہے’۔

ان کے مطابق ‘اس کو سنبھال کر رکھنا حکومت  کے ساتھ ہی اُردو والوں کی بھی ذمہ داری ہے ۔’

بہرحال، اس طرح  کےتمام سوالوں اور خدشات کے درمیان یہ دیکھنا دلچسپ ہوگا کہ آنے والے دنوں میں موجودہ بجٹ کو کس طرح ایڈجسٹ کیا جاتا ہے اور حکومت رواں  مالی سال کے  گرانٹ کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟

 (اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں  اور ہندی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک  کیجیے۔)