ادبستان

یوں مری قبر بنا

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے۔

تصویر بہ شکریہ: بک کارنر جہلم/فیس بک

تصویر بہ شکریہ: بک کارنر جہلم/فیس بک

دادا جان کو میں نے ہمیشہ ایک وضع کے دودھ جیسے سفید لباس میں دیکھا تھا۔ سفید دوہراتہمند، مغزی پٹی والاسفید کرتہ اور سفید پگ۔یہ ان کا پہناوا تھا۔ ساری عمروہ اسی وضع قطع میں رہے۔ جب میں نے ہوش سنبھالا اُن کی داڑھی سفید ہو چکی تھی؛ ان کے لباس کی طرح سفید۔ ایک کپڑا اور بھی ان کے لباس کا حصہ تھا؛ سرپر بندھی پگ کے اوپر اور کندھوں پر پھیلی سفید چادر ۔ اس چادر کو سر پر پھیلا کر اوڑھتے وقت اس کا دائیاں پلو قدرے لمبا رکھا جاتا جسے وہ بائیں کندھے کے اوپر سے گزار کر پشت پر ڈال لیتے تھے ۔ گویا لٹھے کا پورا تھان تھا جس میں وہ لپٹے رہتے تھے۔ میں نے اپنے بچپن میں کسی فرشتے کا جو تصور باندھ رکھا تھا دادا جان ہو بہو ویسے ہی تھے ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی انہیں ننگے سر کہیں دیکھا ہو۔ وہ جب بھی اپنے کمرے سے باہر نکلتے، پورے لباس میں ہوتے تھے ۔ حافظ قران تھے اورہر وقت بہت دھیمی آواز میں تلاوت کرتے رہتے ؛ یوں کہ قریب بیٹھنے اور دھیان دینے پر ایک بھنبھناہٹ سی سماعت میں گدگدی کرنے لگتی تھی۔

دادی جان اور طرح کی تھیں ۔ دادا کی طبیعت میں اگر ایک طرح کا استغنا اور بے نیازی تھی تو دادی جان زیادہ توجہ کی طالب تھیں۔ اگر اباجان یا چچاؤں میں سے کوئی ایک دادا جان اور دادی جان کے لیے کپڑے یا جوتے خرید لاتا تووہ یہ تسلی ضرور کرتی تھیں کہ ان کے زیادہ قیمتی ہوں۔ دادا جان اونچے لمبے تھے جب کہ دادی کا قد نکلتا ہوا نہیں تھا ۔ دونوں کی رنگت صاف اور چہرے پر نکھار تھا تاہم دادا کی جلد قدرے زیادہ اُجلی لگتی تھی ۔ دادی کو شوخ  رنگوں والا لباس پسند تھا میں نے انہیں کبھی سفید لباس میں نہیں دیکھا تھا۔اُن کے کان لووں سے لے کر اوپر تک چھدے ہوئے تھے۔ وہ ہر وقت سونے کی بالیاں پہنے رکھتی تھیں۔ آخری عمر میں جب اُن کی نظر کمزور ہوتی جا رہی تھی اور وہ چلنے پھرنے سے احتراز کرنے لگی تھیں تو انہیں پیٹ میں گیس بھر جانے کی شکایت رہتی۔ اس تکلیف سے نجات کے لیے مجھے وہ یوسفی دواخانے چوعرقہ لینے بھیجتی تھیں مگر ساتھ ہی مجھ سے وعدہ لیتیں کہ میں اُسے جوٹھا نہ کروں گا ۔


یہ بھی پڑھیں:محمد حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘ کا ابتدائیہ


یوسفی دواخانہ پنڈی گھیب کے قدیم بازار کے لگ بھگ وسط میں تھا ۔ میں جب جب وہاں گیا میں نے گورے چٹے حکیم صاحب کوہاون دستہ لے کر کچھ کوٹتے ہوئے پایا ۔ مطب کی دیواروں پر نصب تختوں پر ٹین کے ڈبوں اور شیشے کی بوتلوں کی قطار یں تھیں جن پر عجیب و غریب نام لکھے ہوئے تھے۔ حکیم صاحب کا مطب دودروازوں والا تھا تاہم اندر ایک ہی دروازے سے داخل ہوا جاسکتا تھا۔ دوسرے دروازے کے وسط میں چولہے پرپیتل کا ایک برتن دھرا رہتا تھا جو اوپر جاکر ایک تنگ نالی ہو جاتا تھا۔ یہ نالی ترچھی ہو کر ایک شیشے کی بڑی گول بوتل میں کھلتی تھی ۔میں متجسس ہو کر یہ منظر دیکھتا اور ہر بار برتن میں کھولتے اس پانی کی آواز سنا کرتا تھا جو بھاپ بن کر نالی میں پہنچتا اور قطرقطرہ ہو کر شیشے کی بوتل میں منتقل ہو رہا تھا۔  جب حکیم صاحب گھر سے لائی ہوئی بوتل میں چوعرقہ ڈال کر میرے حوالے کرتے تو مجھے یقین ہوتا تھا کہ یہ وہی بھاپ سے بنایا ہوا محلول تھا جو حکیم صاحب کے ہر وقت بنتا رہتا تھا۔  دادی اماں کے منع کرنے کے سبب چوعرقہ چکھنے کی خواہش مجھے مجبور کرتی تھی کہ میں ان سے کیا ہوا وعدہ توڑ دوں ۔میں بوتل کا ڈھکن کھول کر ایک آدھ گھونٹ لینے سے خود کو باز نہیں رکھ سکتا تھا۔چوعرقہ کڑواکسیلا تھا مگر میں ہر بار چکھا کرتا۔

جن چیزوں سے منع کیا جاتا ہے وہی کرنے کو جی کیوں چاہتا ہے ؟ شایداس لیے کہ یہی اِنسانی فطرت ہے ۔ یہ مناعی اور روک ٹوک ہی انسانی تجسس اور ترغیب کی بنیاد ہے۔ یہی سبب رہا ہو گا کہ ہمارے ایمان کی بنیاد ی اینٹ’لا’ ہے۔ اقرار اور تصدیق کی منزل بعد میں کہیں آتی ہے؛نفی پہلے اثبات بعد میں۔ یہیں سے تجسس اور تشویق کو تحریک ملتی ہے ۔

وہ کیا ہے جس کا انکار کرنا ہے ؟

آخر یہ انکار کیوں کرنا ہے؟

یہ جو سب ہمارے تجربے کا حصہ ہے ہمارے حواس جس کی تصدیق کرتے ہیں اُس کا انکار کیسے ہو؟

یہ بہت کٹھن منزل ہے اور یہیں سے امتحان شروع ہو جاتا ہے۔ نویں صدی کے اواخر کے ایک عراقی صوفی ‘سمنون’ جب تک رہے لوگوں کے لیے معمہ بنے رہے ۔ وہ اپنے آپ کوجھوٹاکہتے اور کہا کرتے؛’ہم کسی کی ملکیت ہیں نہ کوئی ہماری ملکیت ۔’ اس سطح کا انکار ہی وہ تجسس پیدا کرتا جو اگلی منازل کی جانب جانے کا راستہ سجھاتا اور اپنے وجود کے گرد پہچان کا روشن ہالہ بناتاتھا۔مگر ہوتا یوں ہے کہ ہمیں ‘لا’نے گرفتار کر لیتا ہے ۔ یہ ہمارے تجسس کو مہمیز نہیں لگاتا۔ جس کا انکار کرنا تھا اسی کا اقرار کرنے لگے ہیں۔ یہ تو ویسا ہی عمل ہوا جیسے میں نےچوعرقے کا کسیلا پن پی لیا تھا اور ہر بار پیا تھا۔


یہ بھی پڑھیں:سبت کا دِن


اُن دنوں میں نےدادی جان کو چلتے پھرتے کم اور چارپائی پر پڑے زیادہ دیکھا تھا۔ جب وہ لیٹے ہوتیں تو میری دلچسپی کا مرکز اُن کے پاؤں کے انگوٹھے ہوتے جنہیں وہ اکڑا کر پہلے تو اُنگلیوں سے ذرا فاصلے پر کر لیتی تھیں اور پھر گول گول گھماتی رہتیں ۔ میں نے جب جب اپنی ٹانگیں زمین پر پھیلا کر اُن کی طرح پاؤں کے انگوٹھے دائرے میں گھمانے کی کوشش کی تو ناکام رہا تھا۔

جب دادا جان گھر پہنچتے تو چوکس ہو جاتیں کہ اُن کے کام خود کرنا انہیں اچھا لگتا تھا۔ حتیٰ کہ اُن آخری دنوں میں بھی کہ جب انہیں بالکل نظر نہیں آتا تھا وہ اس کوشش میں رہتیں کہ دادا جان، جنہیں وہ حاجی صاحب کہتی تھیں، کے استعمال کی چیزیں اور کپڑے اسی ترتیب میں رہیں جیسا کہ انہیں پسند تھے ۔ ایسا کرتے ہوئے اکثر وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑتی تھیں ۔ انہیں ایسا کرنے سے منع کیا جاتا تھامگر وہ رکتی ہی نہ تھیں شایدکچھ ایسا تھا کہ جس کا کفارہ وہ اب ادا کر رہی تھیں۔

دادا جان فوت ہوئے تب تک دادی جان بہت نحیف ہو چکی تھیں۔ انہیں باتیں کرنا اچھا لگتا تھا مگر دادا جان کے بعد جیسے وہ باتیں کرنا بھول گئی تھیں۔انہوں نے ایک روز ہمارے منجھلے چچا کو بلا کر کہا کہ حاجی صاحب انہیں خواب میں آئے تھے اور کہہ رہے تھے کہ میں کھلے آسمان کے نیچے پڑا ہوں مجھے چادر اوڑھا دو۔ اس کے کوئی پندرہ بیس دن بعد چچا جان گھر میں داخل ہوتے ہی دادی جان کو بتا رہے تھے کہ انہوں نے کچی قبر کو پختہ کروا دیا ہے۔  دادی جان اُس وقت تک آنکھوں سے مکمل طور پر معذور ہو چکی تھیں مگر خواہش کی کہ وہ قبرستان جاکر حاجی صاحب کی قبر خود دیکھنا چاہتی ہیں۔ چچا جان جب انہیں قبرستان لے کر گئے میں بھی پیچھے پیچھے چل دیا تھا۔ پنڈی گھیب کا  قدیمی قبرستان بہت پھیلاؤ رکھتا ہے ۔ بنہوڑا چوک سے لے کر سول ہسپتال اور کچہریوں سے پرے نالہ سیل کی طرف گھوڑا چوک تک اور وہاں سے اٹک تلہ گنگ روڈ کے ساتھ ساتھ محلہ مولا تک ، یہ کئی میل کا علاقہ بنتا ہے جس پر نئی پرانی قبریں ہیں۔ ہم قبرستان میں بنہوڑا چوک کی طرف سے داخل ہوئے ۔ چچا جان نے قبرستان میں داخل ہوتے ہی جنازہ گاہ کی جانب اشارہ کیا اور کہا ؛

‘دیکھو اماں! وہ رہی حاجی صاحب کی قبر۔ سب سے نمایاں، سب سے اونچی ۔’

دادی اماں چپ، چہرہ ایک طرف اٹھائے رہیں، جیسے کہیں دور دیکھ رہی ہوں ۔ان کے چہرے کا رُخ اس طرف نہیں تھا جس طرف چچا جان نے اشارہ کیا تھا ۔

جس طرف اشارہ کیا گیا تھااس طرف قبروں کے درمیان ایک قبر کا سفید تعویز سب سے نمایاں اور نکلتا ہوا تھا۔ یقینا وہی دادا جان کی قبرہوگی۔  یہ میں نے سوچا تھا مگر دادی جان پوچھ رہی تھیں؛

‘کیسی نظر آرہی ہے حاجی صاحب کی قبر؟’

چچا جان نے اپنی ماں کی طرف دیکھا اور کچھ سوچ کر کہا ؛’اماں قبر پر چلیں ، وہیں جاکر بتاتا ہوں۔‘


یہ بھی پڑھیں: نام محض وجود کا خول نہیں ہے


قبر پر پہنچ کر چچا جان نے اپنی ماں کا ہاتھ پکڑ کر سامنے کیا اور قبر کے تعویز پر رکھ دیا ۔ اب دادی جان قبر کے چاروں گھومتے ہوئے اپنی دونوں ہتھیلیاں اس پر رگڑتی جاتی تھیں ۔ حتیٰ کہ گھوم کر پھر قبر کے تعویز تک پہنچ گئیں ۔ یہاں پہنچتے ہی انہوں نے اپنی کمر سیدھی کی اوردایاں ہاتھ آگے کو اتنا پھیلایا کہ وہ کندھے کی سیدھ میں ہو گیا۔ ان کی ہتھیلی کا رُخ زمین کی طرف تھا جسے قبر کےتعویز کا اوپر والا کونا چھو رہا تھا۔

چچا جان جو یہ سب توجہ سے دیکھ رہے تھے کہا ؛’ٹھیک ہو گیا نا اماں ؟ ‘

’ ہاں یہ تو ٹھیک ہو گیا مگر… ‘

اماں نے ہاتھ آگے کو پھیلائے پھیلائے تیزی سے کہا اور پھر کچھ لمحوں کے لیے خاموش ہو گئیں ۔ اب جو بولیں تو ان کی آواز قدرے مدہم تھی؛ یوں جیسے وہ التجا کر رہی ہوں؛

’بیٹا!میری قبر حاجی صاحب کی قبر جیسی بنانا ، تھوڑی اونچی اور زیادہ دور سے نظر آنے والی ۔ ‘