خبریں

راجستھان: بھیوانی میں مارے گئےجنید اور ناصر کے اہل خانہ کے احتجاجی مظاہرہ پر ’امن و امان کی خلاف ورزی‘ کا نوٹس

ہریانہ کے بھیوانی میں مارے گئے جنید اور ناصر کےاہل خانہ اور رشتہ دار راجستھان کے بھرت پور میں انصاف کا مطالبہ کرتے ہوئے احتجاجی مظاہرہ کر رہے ہیں، جس کے لیے ضلع انتظامیہ نے انہیں ‘وجہ بتاؤ نوٹس’ جاری کیا ہے۔ مظاہرین نے مقامی ایم ایل اے اور ریاستی وزیر تعلیم زاہدہ خان پر احتجاج ختم کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام  لگایا ہے۔

گھاٹمیکا گاؤں میں جنید اور ناصر کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے اہل خانہ اور رشتہ دار۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

گھاٹمیکا گاؤں میں جنید اور ناصر کے لیے انصاف کا مطالبہ کر رہے اہل خانہ اور رشتہ دار۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: راجستھان انتظامیہ نے ہریانہ کے بھیوانی میں ‘گائے کی اسمگلنگ’ کے شبہ میں مارے گئے جنید اور ناصر کے 12 رشتہ داروں اور دوستوں کو وجہ بتاؤ نوٹس جاری کیا ہے۔ نوٹس میں کہا گیا ہے کہ انصاف کا مطالبہ کرنے والے ان کے احتجاج نے علاقے میں ‘امن  و امان کی خلاف ورزی ‘ کی ہے۔

بھرت پور ضلع انتظامیہ کی طرف سے بھیجے گئے اور ایس ڈی ایم سنیتا یادو کے دستخط شدہ نوٹس میں لکھا ہے کہ ان کی  سرگرمیوں سے علاقے میں امن وامان کی خلاف ورزی ہورہی ہے اور اسی لیے انہیں 27 فروری کو عدالت میں پیش ہونا ہے۔

دی وائر نے ایس ڈی ایم کو فون کیا اور پوچھا کہ مظاہرین کو نوٹس کیوں بھیجے گئے تو انہوں نے کہا، ہم علاقے میں امن و امان برقرار رکھے ہوئے ہیں۔ پولیس کی مدد سے ہدایات کے مطابق سب کچھ کیا جا رہا ہے۔ علاقے میں امن برقرار رکھنے کے لیے پولیس کی ہدایات کے مطابق مجھے نوٹس جاری کرنا تھا۔

ایس ڈی ایم کی طرف سے بھیجا گیا نوٹس۔

ایس ڈی ایم کی طرف سے بھیجا گیا نوٹس۔

جنید اور ناصر کے اہل خانہ نے مقامی رکن اسمبلی زاہدہ خان، جو ریاست کی وزیر تعلیم بھی ہیں، پر احتجاج نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کا الزام بھی لگایا ہے۔

جابر خان جنید اور ناصر دونوں کے رشتہ دار ہیں۔ دی وائر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ایم ایل  اے  خان نے  متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی اور ان سے کہا کہ اگر وہ معاملہ حل کرنا چاہتے ہیں تو احتجاج بند کر دیں۔ 16 فروری کو خان متاثرین کے گاؤں گھاٹمیکا پہنچی تھیں۔ اس دوران انہوں نے خاندان کو معاوضہ دینے کا وعدہ بھی کیا تھا۔ اب مظاہرین کا کہنا ہے کہ انہوں نے انہیں احتجاج بند کرنے  کی وارننگ دی تھی۔

جابر نے کہا، انہوں نے کہا کہ نہیں تو  وہ اس معاملے میں شواہد کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرے گی۔جابر نے کہا کہ انہیں اپنا فون بند کرنا پڑا کیونکہ انہیں ایم ایل اے خان کی طرف سے احتجاج ختم کرنے کے لیے بار بار فون آ رہے تھے۔

ناصر کے بھتیجے تعلیم نے بھی دی وائر کے ساتھ ایسی ہی آپ بیتی  شیئر کی ہے۔

دی وائر نے ایم ایل اے زاہدہ خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان کا کوئی جواب نہیں ملا۔ اگر کوئی جواب آتا ہے تو اسے رپورٹ میں شامل کیا جائے گا۔

بتا دیں کہ جابر اور کچھ دوسرے لوگ 17 فروری سے بجرنگ دل کے لیڈر اور ہریانہ حکومت کی گئو رکشا  ٹاسک فورس کے رکن مونو مانیسر کی گرفتاری کے لیے احتجاج کر رہے ہیں۔ مونو اس  کیس کے ملزمین میں سے ایک ہیں اور  علاقے میں انہیں  بااثر سمجھا جاتا ہے۔

گزشتہ 22 فروری کو جابر اور دیگر مظاہرین نے بجرنگ دل پر پابندی لگانے اور تمام ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کرتے ہوئے گاؤں میں ایک ریلی نکالی تھی۔

مظاہرین میں سے ایک وسیم اکرم نے دی وائر کو بتایا،ہم پرامن طریقے سے احتجاج کر رہے تھے، لیکن آج بہت سے لوگوں نے امید کھو دی ہے۔ راجستھان حکومت کی طرف سے ہم پر احتجاج نہ کرنے کے لیے دباؤ ڈالا جا رہا ہے۔ ہمارے بھائی مارے گئے  ہیں اور ہم احتجاج بھی نہیں کر سکتے؟

‘امن کی خلاف ورزی’ سے متعلق نوٹس میں جن لوگوں کا نام لیا گیا ہے ان میں حنیف مولانا، محمد جابر، مختار احمد، فخر الدین، کامل، وسیم، نثار، اشعر، صدام، چاند، رئیس اور شیر شامل ہیں۔

وسیم نے کہا، جن 12 لوگوں کو نوٹس موصول ہوئے ہیں، ان میں سے چار نے خوف کے مارے گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ جابر کا کہنا ہے کہ نوٹس اور مبینہ دھمکیاں انہیں نہیں روک پائیں گی۔

جابر نے کہا، ‘یہ جنید اور ناصر کے بارے میں نہیں ہے، یہ پہلو، اخلاق، عمر اور ہندوستان میں مسلمانوں کے مستقبل کے بارے میں ہے۔ یہ نوٹس ہمیں نہیں روک سکتے۔

واضح ہو کہ راجستھان کے بھرت پور ضلع کے گھاٹمیکا گاؤں کے دو رہائشی جنید اور ناصر 14 فروری کی صبح بولیرو کار میں اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے گھر سے نکلے تھے اور کبھی  واپس نہیں لوٹے۔

ان کے اہل خانہ کا الزام ہے کہ بجرنگ دل کے ارکان نے جنید اور ناصر کا قتل کیا اور پولیس سے رجوع کیا۔ ان کی جلی ہوئی لاشیں ایک دن بعد 16 فروری کو ہریانہ کے بھیوانی ضلع کے لوہارو میں ملی تھیں۔

قابل ذکر ہے کہ اس واقعہ کے ملزمین کی حمایت میں ہریانہ میں مسلسل ‘ہندو مہاپنچایت’ کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔

پہلی ‘ہندو مہاپنچایت‘ 21 فروری کو ہریانہ کے مانیسر شہر میں کی گئی تھی۔ اس میں مقررین نے پولیس کو بجرنگ دل لیڈر اور ہریانہ گئو رکشا ٹاسک فورس کے رکن مونو مانیسر کے خلاف کارروائی کرنے پر سنگین نتائج بھگتنے کی وارننگ دی تھی۔

مونو مانیسر کی حمایت میں ہریانہ کے ہتھین میں بجرنگ دل اور وشو ہندو پریشد کے اراکین نے 22 فروری کوبلائی گئی پنچایت میں مسلمانوں اور پولیس کے خلاف کھلے عام تشدد کی اپیل تھی۔

(اس  رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)