فکر و نظر

بے آسرا ہیں مصیبت زدہ شامی

زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں معرکہ آرائی ہوئی، دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔

تصویر بہ شکریہ: Twitter/@SyriaCivilDef

تصویر بہ شکریہ: Twitter/@SyriaCivilDef

ترکیہ کے 11صوبوں میں حال ہی میں جس طرح زلزلے نے قہر برپا کردیا، تقریباً کم و بیش اسی پیمانے پر شمالی شام کے چھ صوبوں کا  60ہزار مربع کلومیٹر کا علاقہ بھی اس کی زد میں آگیا۔ مگر بین الاقوامی برادری جس سرعت کے ساتھ ترکیہ میں مدد لےکر وارد ہوگئی، شاید ہی کسی کو ان شامی علاقوں کے متاثرہ افراد کی مدد کرنے یا ان کی اشک شوئی کرنے کی توفیق ہوئی۔

ترکیہ کے حتائی صوبہ کے سرحدی قصبہ ریحانلی سے بس 12 کلومیٹر دور  بال الحوا کراسنگ پوائنٹ پر ایک 42سالہ شامی شہری محمد شیخ مجھے بتا رہے تھے کہ وہ اپنی اور اپنے ہم وطنوں کی قسمت پررو رہا ہے۔ وہ 12سال قبل حلب یا الیپو سے جنگ کی وجہ سے نقل مکانی کرکے ترکیہ میں پناہ گزین ہو گیا تھا اور اب اپنے رشتہ داروں کی خبر و خیریت جاننے اور زلزلہ سے متاثرہ علاقوں میں مدد کرنے کے لیے واپس جا رہا تھا۔ آسمان کی طرف دیکھ کر وہ شکوہ کر رہا تھا کہ؛

 آخر اس کے ہم وطنوں نے کون سے ایسے گناہ کیے ہیں، جو وہ ایک کے بعد ایک شدید عذاب سے گزر رہے ہیں۔  ہماری زندگیاں تو پہلے ہی پچھلے 12سالوں سے جنگ و شورش کی نذر ہوگئی تھیں۔ پھر کورونا وبا نے ہمیں نشانہ بنادیا۔ اس میں جونہی کمی آگئی تھی کہ ہیضہ اور خشک سالی نے خطے کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ اور اب زلزلے نے توہماری  زندگیاں ہلا کر رکھ دی ہیں۔

 رومن دور کی اس کئی ہزار سالہ پرانی سڑک، جس نے تاریخ کے کئی دور اور اتار و چڑھاو دیکھے ہیں،سے اس وقت اقوام متحدہ کے ٹرکوں کا ایک کاروان امدادی سامان لےکر رواں تھا۔

سرحد کے پار مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ ریسکو ٹیموں نیزبھاری اوزاروں اور سامان کی عدم موجودگی کی وجہ سے ان کو اپنے ہاتھوں سے ملبہ کو ہٹا کر زندہ بچنے والوں کو نکالنا پڑا۔ اقوام متحدہ کے مطابق ملبے سے اب تک 6000 لاشیں نکالی جا چکی تھیں جن میں اپویشن کے زیر قبضہ شمال مغرب میں4400 لاشیں ملی تھیں۔ ابتدائی اندازوں کے مطابق 2276 سے زائد عمارتیں منہدم ہو چکی ہیں۔

شام کی ایک غیر سرکاری تنظیم  رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ، جس کے ترکیہ میں دفاتر ہیں، نے کہا کہ خطے میں 45 فیصد انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ اقوام متحدہ سے لوگ نالاں تھے، کیونکہ ان کی پہلی ریلیف ٹرک چار دن بعد وارد ہوگئی۔جب یہ تباہ شدہ شہر دیر الزور پہنچی، تو مکینوں نے اقوام متحدہ کے جھنڈوں کو الٹا لٹکا کر احتجاج درج کروایا۔

بین الاقوامی دباؤ کی وجہ سے  شام کے صدر بشار حافظ الاسد نے 10 فروری کو حزب اختلاف کے زیر قبضہ علاقوں میں انسانی امداد بھیجنے پر رضامندی ظاہر کی تھی، مگر یہ امداد نو دن بعد بھی نہیں پہنچی تھی۔ ان کے وزیروں کا کہنا تھا کہ انہوں نے امداد اور ٹیمیں تو روانہ کی تھیں، مگر عسکریت پسند گروپ حیات تحریر الشام کے سربراہ ابو محمد الجولانی نے ان گروپوں میں شامل افراد کی جانچ پڑتال کرنے میں کافی وقت صرف کردیا۔ ان کو خدشہ تھا کہ شامی حکومت شاید امدادی ٹیموں کی آڑ میں انٹلی جنس اور کمانڈو اہلکار بھیج رہے ہیں۔

وائٹ ہیلمٹس کے نام سے جانے جانے والے شامی شہری دفاع گروپ کے لیے کام کرنے والی رضاکار سورمر تمر مجھے بتا رہی تھی کہ؛

 زلزلہ آنے کے کئی روز تک ملبوں سے انسانی ہاتھ نمودار ہوکر ہاتھ ہلاہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے۔ منجمد کرنے والی سردی کے دوران بھی ملبو ں سے انسانی چیخ و پکار کی آوازیں آرہی تھیں۔ وہ کہہ رہی تھیں،یہ یادیں اس کو ساری زندگی پریشان کرتی رہیں گی۔جب ہم کسی کا ہاتھ پکڑتے تھے، وہ ہاتھ ہی نہیں چھوڑتے تھے۔ ان کو معلوم تھا کہ اگر انہوں نے ہاتھ چھوڑا تو آپ ان کو چھوڑ کر آگے بڑھ جائیں گے۔

 رومال سے آنسو پونچھتے ہوئے تمر کہہ رہی تھی کہ؛

 سچ تو یہ ہے کہ اس کو کئی ایسے ہاتھ چھوڑنے پڑے،کیونکہ ملبہ ہٹانے اور ان کو نکالنے کے لیے کوئی سامان نہیں تھا۔ ہم آگے بڑھ کر دیکھتے تھے کہ ننگے ہاتھوں سے کون سا ملبہ ہٹایا جاسکتا ہے او ر کون سی جان بچائی جاسکتی ہے۔ دو دن بعد ان ملبوں سے انسانی آوازیں آنا بند ہوگئیں۔

 تب تک علاقے میں کوئی ریسکو ٹیم نہیں پہنچ پائی تھی۔ میں ان تمام لوگوں سے معافی مانگتی ہوں جو مر گئے کہ ہم انہیں بچانے میں ناکام رہے۔تمر نے ایک دم گھٹی ہوئی آواز میں بتایا۔

 امدادی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بس پانچ فیصد علاقے میں ریسکو کا کام پہلے اہم 72گھنٹوں میں ہوسکا۔ زلزلہ کے بعد پہلے 72گھنٹوں میں ہی کسی زندہ وجود کو ملبہ سے نکالنے کا امکان موجود رہتا ہے۔

وائٹ ہیلمٹس کے سربراہ رائد صالح بتا رہے تھے ،ہم نے بے بسی اور وقت کے ساتھ جدوجہد کی تاکہ زندہ لوگوں تک پہنچ سکیں۔ مناسب آلات کی کمی اس بے بسی کی ایک بڑی وجہ تھی، لیکن قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہم نے کام کیا اور اپنی پوری کوشش کی۔

 انہوں نے بھی  اقوام متحدہ پرغفلت اور تساہل برتنے کا الزام لگایا۔

 ان علاقوں میں اب ہزاروں شامی خاندان منفی درجہ حرارت میں سڑکوں پر یا ایسے خیموں میں زندگی گزار رہے ہیں، جن میں کمبل، بستر یا گرمی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔ مغربی ادلب صوبہ کے گاؤں امرین کے ندال مصطفی بتا رہے تھے کہ اپنی پوری فیملی کے ساتھ پہلے تین دن انہوں نے کھلی سڑک پر گزارے۔ باب الحوا کی سرحد کے اس پار، ادلب صوبے میں تقریباً 40 لاکھ افراد آباد ہیں، جس میں 28  لاکھ ایسے افراد ہیں، جو جنگ زدہ علاقوں سے ہجرت کر کے آئے ہیں۔

انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ 2011 سے اب تک ملک میں تقریباً ساڑھے تین لاکھ افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق ملک کے شمال مغرب میں بے گھر ہونے والوں کی تعداد تقریباً 53لاکھ ہے۔ تقریباً ڈ یڑھ کروڑ  شامی شہری جنگ اور سخت مغربی پابندیوں کی وجہ سے شدید معاشی بحران کا شکار ہیں۔ترکیہ کا جنوبی علاقہ ان کے لیے ایک ڈھال تھا۔پناہ و تجارت کے لیے وہ اسی علاقے پر تکیہ کرتے تھے۔

اس علاقے سے وہ دنیا سے جڑے تھے اور سامان ضرورت اسی علاقے سے حاصل کرتے تھے۔ مگر زلزلہ کی وجہ سے ترکیہ کے اس خطے کا انفرااسٹرکچر تباہ برباد ہو چکا ہے۔ اس کا براہ راست خمیازہ شامی شہریوں کو بھی بھگتنا پڑرہا ہے۔

نہ صرف اپنے ملک میں، بلکہ زلزے کا قہر شامیوں کو ترکیہ میں بھی بھگتنا پڑا۔  ترکیہ میں 35 لاکھ رجسٹرڈ شامی پناہ گزینوں میں سے 17 لا کھ  زلزلے سے متاثرہ صوبوں میں رہتے تھے۔ اقوام متحدہ کی ہائی کمشنر  سیوانکا دھانپالاکے مطابق بحران زدہ شام کے لیے یہ زلزلہ ایک اور بحران ہے۔ امدادی اداروں کے مطابق اگرچہ کئی عرب ممالک کی ٹیمیں اور بین الاقوامی انسانی امداد کے کئی اداروں نے  دمشق کے بین الاقوامی ہوائی اڈے پر امداد پہنچائی تھی، مگر یہ اپوزیشن کے زیر قبضہ شمال مغربی شام تک نہیں پہنچ سکی، جہاں 85 فیصد متاثرہ افراد رہ رہے ہیں۔

رسپانس کوآرڈینیٹرز گروپ نے الزام لگایا کہ 90 فیصد امداد حکومت کے زیر قبضہ علاقوں میں تقسیم کی گئی۔2014میں، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے انسانی امداد کی ترسیل کے لیے شام میں چار بارڈر کراسنگ کی منظوری دی تھی۔ ال یاروبیہ شمال مشرقی شام میں عراقی سرحد پر واقع ہے، یہ علاقہ کرد فورسز کے زیر کنٹرول ہے۔ اردن کی سرحد پر جنوبی شام میں الرمتھا، جو پہلے باغیوں کے پاس تھا۔ پھر بشر الاسد کی  فورسز نے اس کو دوبارہ قبضہ لے لیا۔ باب السلام اور باب الحوا، دونوں ترکی کی سرحد پر شمالی شام میں اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقے میں ہیں۔

لیکن 2019 میں، روس اور چین نے ال یاروبیہ اور الرمتھا کی تجدید کوبند کرنے کے لیے اپنے ویٹو پاور کا استعمال کیا۔ 2020 میں، انہوں نے باب السلام کے اجازت نامے کی تجدید نہیں کرنے دی اور اس کے لیے  ویٹو کا استعمال کیا۔ اب لے دے کے صرف باب الحوا  ہی قانونی طور پر اقوام متحدہ کی نگرانی میں واحد سرحدی گزرگاہ رہ گئی ہے۔

زلزلہ کی وجہ سے مقامی آبادی پریشان حال تو تھی ہی کہ اسی دوران شامی حکومتی افواج اور باغی افواج کے درمیان حلب کے نواح میں معرکہ آرائی ہوئی، دونوں نے ایک دوسرے کے اوپر خوب گولہ باری کی۔ جس کی وجہ سے امدادی کارکنوں کو اپنی جانیں بچانے کے لیے بھاگنا پڑا۔

سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس میں اس جنگ کی نگرانی کرنے والے کارکن  ابو مصطفے الخطابی کا کہنا تھا کہ اسد فورسزکی بیس 46 سے گولہ باری شروع  ہوئی اور انہوں نے مغربی حلب کو نشانہ بنایا۔ اس کے علاوہ عطریب قصبہ،کفر اما، کفر تال اور کفر نو دیہاتوں  میں بھی شدید جھڑپیں ہوئیں۔ یاد رہے کہ عطریب اور اس کے نواح میں زلزلے کے نتیجے میں235 افراد ہلاک ہوگئے تھے اور متعدد افراد ملبے کے نیچے دبے ہوئے تھے۔

ایسے وقت میں اس طرح کی مسلح جھڑپوں کی وجہ سے ابتدائی امدادی کام بھی نہیں ہوسکے۔  یہ خطہ پہلے ہی گزشتہ 70 سالوں کی بدترین خشک سالی کا مشاہدہ کر رہا ہے۔ شام کے خوراک پیدا کرنے کے مرکز، حسقہ، رقہ اور دیر الزور میں 2020 سے بمشکل 5 سے 25 فیصد بارش ہوئی ہے۔ مرسی کور، ایک انسانی امدادی تنظیم کے تخمینہ کے مطابق کہ 2022 میں زرعی پیداوار میں 80 فیصد سے زیادہ کی کمی واقع ہوئی ہے۔

اس بات کے آثار اب نظر آرہے ہیں کہ عرب دنیا برسوں کی تنہائی کے بعد اسد کے لیے کھل رہی ہے، جیسا کہ ان کے عمان کے حالیہ دورے سے ظاہر ہے۔ امارات اور اردن کے وزرائے خارجہ نے بھی دمشق کا دورہ کرکے ان سے ملاقات کی۔ انہوں نے پہلی بار بحرین کے شاہ حمد اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی سے بھی فون پر بات کی۔ امریکہ نے اعلان کیا ہے کہ وہ زلزلے سے متعلق امداد سے متعلق لین دین کے لیے شام پر عائد پابندیوں میں 180 دنوں کے لیے نرمی کرے گا۔ یہ فیصلہ ایک ایسے وقت میں آیا جب زلزلہ ریلیف پر پابندیوں کے اثرات کو لے کر بحث چھڑ ی ہوئی تھی۔

ابتدا میں ترکیہ کے راستے اپوزیشن کے زیر قبضہ علاقوں میں امدادی قافلہ بھیجنے کے بعد، سعودی عرب نے حکومت کے زیر قبضہ حلب کے راستے امدادی سامان کی پروازیں شروع کر دیں۔ سعودی وزیر خارجہ فیصل بن فرحان آل سعود نے میونخ سکیورٹی کانفرنس میں کہا کہ جمود غیر پائیدار ہے اور دنیا کو پناہ گزینوں اور انسانی امداد جیسے مسائل پر د مشق کے ساتھ اب مذاکرات کرنا ہوں گے۔ گزشتہ دسمبر میں، ماسکو میں ترکی اور شام کے وزرائے دفاع کے درمیان روس کی ثالثی میں ہونے والی میٹنگ نے اسد کے لیے دروازے کھول دئے تھے۔

اگر ڈیزاسٹریعنی آفات ڈپلومیسی اسد کو مشرق وسطیٰ کی دو بڑی طاقتوں ترکیہ اور سعودی عرب کے ساتھ تعلقات بہتر کرنے پر مجبور کردیتی ہے تو خطے کی تژرویاتی سیاست ہمیشہ کے لیے تبدیل ہو جائے گی۔ تاہم، بہت سے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسد کے لیے اتنی جلدی عرب ممالک کے ساتھ دوستانہ پینگیں بڑھانا ممکن نہیں ہوگا۔ کیونکہ عرب شام کے بہترین دوست ایران کے ساتھ دشمنی جاری رکھے ہوئے ہیں اور اس کو زچ کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے ہیں۔ پچھلے بارہ سالوں میں اسد حکومت تو بس ایران کی فوجی مدد اور بعد میں روس کی پشت پناہی کی وجہ سے ہی عوامی غیض و غضب، جو بہار عرب کی صورت میں برپا ہوا تھا، بچ سکی۔

ادھر زلزلے کے بعد سے یہ خبریں آرہی ہیں کہ کئی علاقوں کو ایرانی افواج اور ان کی معاون عسکری تنظیموں سے خالی کراکر شامی فوج خود کنٹرول سنبھال رہی ہے۔ سیریئن آبزرویٹری فار ہیومن رائٹس کے مطابق، ایرانی پاسداران انقلاب کے کمانڈوز (آئی آر جی سی)، جن پر امریکہ نے  پابندیاں عائد کی ہیں، نے حال ہی میں دیر الزور شہر کے مضافات میں واقع دریائے حوائے جات ساکر کے کنارے سے انخلا کیا ہے اور یہ فوجی پوزیشنیں شامی ری پبلکن گارڈز کے حوالے کر دیں ہیں۔

ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں نے المیادین کے مضافات میں مشرقی دیر الزور اور عین علی میں بھی اپنے فوجی ہیڈ کوارٹر خالی کر دیے ہیں۔ اسی طرح ایران کی حمایت یافتہ افغان شیعوں کی  فاطمیون ملیشیا نے بھی المیادین قصبے میں واقع اپنا ایک فوجی ہیڈکوارٹر خالی کر دیا ہے۔ اس شہر میں ایران کے حمایت یافتہ عسکری گروپوں نے ایک جیل بھی بنائی تھی، جہاں مخالفین کو حراست میں لےکران کا انٹروگیشن کیا جاتا تھا۔ اس جیل کو بھی خالی کردیا گیا ہے۔

دیکھتے ہیں کہ خطے میں اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ مگر اس دوران جو شامی زلزلے دوران ملبے میں دب کر مارے گئے اور کئی روز تک ہاتھ ہلا ہلا کر مدد کی دہائی دے رہے تھے، ان کا خون بین الاقوامی برادری اور شامی متحارب گروپوں پر عائد ہوتا ہے، جو ان حالات میں بھی مظلوم و بےکس شامی شہریوں کی مدد تو دور کی بات، بلکہ زلزے کے دوران بھی ایک دوسرے سے برسرپیکار رہے، تاکہ موقع کو فائدہ اٹھا کر علاقے ہتھیا لیے جائیں۔ شامی شہریوں کو سبھی نے بے آسر اور کسمپرسی کی حالت میں چھوڑ دیا ہے۔