خبریں

گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی نے غیر ملکی سودوں میں کلیدی کردار ادا کیا: رپورٹ

امریکی بزنس میگزین فوربس کی ایک نئی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ونود اڈانی، جن کے پاس اڈانی گروپ میں کوئی باضابطہ انتظامی عہدہ نہیں ہے، ‘پہلے جو جانکاری ان کے بارے میں تھی ، اس سے تقریباً پانچ گنا زیادہ امیر ہیں’۔

ونود اڈانی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

ونود اڈانی۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: امریکی بزنس میگزین فوربس کی ایک نئی رپورٹ میں اڈانی گروپ کے لیے بڑے سودے کرانے میں گوتم اڈانی کے بھائی ونود اڈانی کےرول  پرایک بار پھر روشنی ڈالی  گئی ہے۔

فوربس کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ بھی پتہ چلا ہے کہ ونود اڈانی ‘پہلے سے جو جانکاری ان کے بارے میں تھی ،اس سے پانچ گنا زیادہ امیر ہیں’۔

بلومبرگ اور فوربس کی پہلے کی دو رپورٹ میں الزام لگایا گیا ہے کہ ونود اڈانی کے پاس  کوئی باضابطہ انتظامی عہدہ  نہ ہونے کے باوجود گروپ میں ان کی ایک طاقتور پوزیشن ہے اور  وہ آف شور شیل کمپنیوں کی ایک وسیع سیریز کی نگرانی کرتے ہیں۔

گزشتہ 28 فروری کو شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فرانسیسی تیل کمپنی ٹوٹل انرجی نے 2021 میں اڈانی گرین انرجی میں 20 فیصد حصہ داری 2 بلین ڈالر میں خریدی، جس سے اڈانی کو اعتبار ملا۔

ٹوٹل انرجی کے ذریعے خریدے گئے ان شیئروں کی قیمت ہندوستانی اسٹاک ایکسچینج میں4.1 بلین ڈالر تھی۔ اس طرح یہ خریداری  ٹوٹل انرجی کے لیے بھی ایک منافع بخش سودا تھا۔

فوربس نے بتایا کہ 21 جنوری2021 کو انہوں نے شیئروں کے لیے جو قیمت ادا کی، وہ گزشتہ سال کےشیئروں کی اوسط قیمت سے 8 فیصد  کم تھی اور گزشتہ چھ ماہ کی اوسط قیمت سے 62 فیصد کم۔

اور فوربس جسے ‘غیر روایتی ڈھانچہ’ کہتا ہے، میں ٹوٹل انرجی نے براہ راست شیئرز نہیں خریدے، بلکہ دو ماریشس انکارپوریٹڈفنڈز حاصل کیے جن کے پاس  ماریشس میں واقع ایک تیسرے ادارے ڈوم ٹریڈ اینڈ انویسٹمنٹ لمیٹڈکا اسٹاک تھا۔

ڈوم ٹریڈ کی ملکیت ونود اڈانی کے پاس ہے، تاہم، یہ ملکیت براہ راست نہیں ہے، لیکن ‘ماریشس، یو اے ای اور برٹش ورجن آئی لینڈز میں اداروں کی ایک سیریز کے توسط سے آتی ہے’۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان سودوں کو کروانے میں ونود اڈانی نے کلیدی کردار ادا کیا ہے۔

یہ رپورٹ ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب امریکی سرمایہ کاری ریسرچ فرم ہنڈن برگ ریسرچ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں اڈانی گروپ پر اسٹاک میں ہیرا پھیری اور دھوکہ دہی کا الزام لگایا گیا ہے۔

اس رپورٹ نے ونود اڈانی کو بھی سرخیوں میں لا دیا ہے، جن کا کمپنی میں کوئی باضابطہ انتظامی عہدہ نہیں ہے۔ اڈانی گروپ، جس نے رپورٹ کے بعد اربوں کا نقصان اٹھایا ہے ، نے دعویٰ کیا ہے کہ گروپ کے کاروبار کے روزمرہ کے معاملات میں ونود کا کوئی کردار نہیں ہے۔

فوربس نے نوٹ کیا ہے کہ ٹوٹل انرجی کے شیئروں کی گراوٹ سے ٹوٹل انرجی کے شیئر بھی متاثر ہوئے ہیں۔

نیویارک یونیورسٹی کے اسٹرن اسکول آف بزنس میں فائنانس کے پروفیسر اشوتھ دامودرن فوربس کو بتاتے ہیں کہ اڈانی گرین انرجی کے براہ راست شیئروں  کے بجائے ماریشس کے فنڈز فروخت کرنے کے پیچھےایک وجہ ٹیکس سے بچنا ہو سکتی ہے۔

یونیورسٹی آف نیو ساؤتھ ویلز بزنس اسکول میں فنانس کے ایک ایسوسی ایٹ پروفیسر مارک ہمفری-زینر کا کہنا ہے کہ اڈانی گرین انرجی کے شیئروں کی کم قیمت کے پیش نظر دونوں فریقوں کو محتاط رہنا چاہیے تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ ڈیل فروری 2020 میں ہوئی تھی۔ ٹوٹل انرجی نے 714 ملین ڈالر کی ادائیگی کی جو اس وقت اوپن مارکیٹ کے مقابلےمیں50 ملین کم تھی۔ اڈانی کے زیر کنٹرول چھ اداروں میں سے چار، جن سے ٹوٹل انرجی نے شیئر خریدے وہ ونود اڈانی کی ملکیت والے  ماریشس میں واقع  فنڈ تھے۔

رپورٹ میں دیگر سودے بھی لسٹ کیے گئے ہیں جن میں ونود اڈانی نے مبینہ طور پر حصہ لیا تھا۔ ایسا یہ نتیجہ اخذ کرنے کے لیے کیا گیا تھا کہ وہ پہلے سے ‘زیادہ امیر’ ہیں۔ فنڈ کے علاوہ ونود کے پاس صرف دبئی میں 37 رہائشی اور کامرشیل پراپرٹی ہیں۔

تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا ہے، فوربس نے ونود اڈانی کی کل مالیت کا تخمینہ کم از کم6 بلین ڈالر لگایا ہے، جو دو ہفتے قبل شائع ہونے والے ان کے 1.3 بلین ڈالر کے پچھلے تخمینہ سے کہیں زیادہ ہے۔

فوربس کی رپورٹ کے مطابق، اڈانی گروپ کی پبلک فائلنگ میں کہا گیا ہے کہ ونود اڈانی قبرص کے شہری ہیں۔ ان کے پاس  ایک ہندوستانی پاسپورٹ ہے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔