خبریں

’عتیق احمد کا قریبی بتا کر میرا گھر توڑ دیا گیا، زندگی بھر کی کمائی تباہ ہو گئی‘

گزشتہ 24 فروری کو بی ایس پی ایم ایل اے راجو پال قتل کیس کے اہم گواہ امیش پال کا یوپی کے الہ آباد شہر میں دن دہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ معاملے میں جیل میں بند سابق ایم پی عتیق احمد کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا ہے۔ اب انتظامیہ نے الہ آباد میں باندہ کے صحافی کے گھر کو یہ کہہ کر توڑ  دیا ہے کہ وہ عتیق کے قریبی ہیں۔

صحافی ظفر احمد۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

صحافی ظفر احمد۔ (فوٹوبہ شکریہ: فیس بک)

نئی دہلی: اتر پردیش کے الہ آباد (پریاگ راج) شہر میں بدھ (1 مارچ) کو سابق ایم پی عتیق احمد اور اس کے قریبی لوگوں کے خلاف کارروائی کرتے ہوئے بلڈوزر سے مکان گرا  دیا گیا۔

تاہم جس مکان کو منہدم کیا گیا، اس میں عتیق احمد کی بیوی اپنے بچوں کے ساتھ کرایہ  پر رہتی تھیں اور یہ مکان باندہ ضلع  کے رپورٹر ظفر احمد کا تھا۔

دراصل، بی ایس پی ایم ایل اے راجو پال کو25 جنوری2005 کو الہ آباد کے دھومن گنج علاقے میں گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ اس  معاملے  کے اہم گواہ رہےامیش پال کو بھی24 فروری کی شام دن ہاڑے قتل کر دیا گیا تھا۔ گولی اور بم سے کیے گئے اس حملے میں ان کےسکیورٹی اہلکاروں میں سےبھی  ایک کی موت ہوگئی ہے۔

پولیس نے اس سلسلے میں جیل میں بند سابق ایم پی  عتیق احمد، ان کی اہلیہ شائستہ پروین، ان کے دو بیٹوں، ان کے چھوٹے بھائی خالد عظیم عرف اشرف اور دیگر کے خلاف ایف آئی آر درج کی ہے۔

اس واقعہ کے بعد ہی الہ آباد ضلع انتظامیہ کی جانب سےیہ کارروائی کی  گئی ہے۔

الہ آباد کے چکیہ علاقے میں واقع جس مکان کے خلاف کارروائی کی گئی،  اس کے بارے میں انتظامیہ نے دعویٰ کیا تھا کہ یہ مکان عتیق احمد کے قریبی کا ہے، جو  نقشہ  پاس نہ ہونے کی وجہ سے توڑا گیا ہے۔

بعد میں  انتظامیہ کی جانب سے ایک پریس ریلیز جاری کی گئی، جس میں کہا گیا کہ،مافیا عتیق احمد کے ساتھیوں اور قریبی لوگوں کے خلاف مروجہ کارروائی کی گئی اور توڑا گیا مکان خبررساں  ایجنسی اے این آئی کے رپورٹر ظفر احمد کا ہے، جس کو پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے منہدم کر دیا ہے۔

اس ریلیز میں معاملے کی تحقیقات کی بھی بات کی گئی ہے۔

اس معاملے میں ظفر احمد نے کہا، ‘میں گزشتہ 11 سالوں سے ضلع باندہ سے اے این آئی کا رپورٹر ہوں، میں نے زندگی بھر کی جمع پونجی سے 2021 میں الہ آباد کے  چکیہ علاقے میں40 لاکھ روپے کا مکان خریدا تھا، جس کے لیے میں نے اپنے خاندان کے زیورات تک گروی رکھے اور 13 لاکھ روپے اپنے بہنوئی ایڈوکیٹ صولت حنیف خان سے لیے تھے۔ میں نے  بیع نامہ کیا لیکن میں بہنوئی کا قرض دار تھا، اس لیے مکان کےکاغذات اور چابی انہیں کے پاس  تھے۔

بتادیں کہ صولت حنیف خان، مافیا عتیق احمد کے خلاف چل رہے کچھ معاملوں میں ان کی پیروی  بھی کر رہے ہیں۔

ظفرنے مزید کہا،’میرے بہنوئی نے عتیق احمد کی اہلیہ شائستہ پروین کو مکان کرایہ پر دیا تھا۔ شائستہ کی والدہ کا گھر میرے گھر کے سامنے ہی ہے۔ میں نے آج تک نہ تو عتیق احمد کو دیکھا ہے نہ ان کی بیوی کو، میرا گھر عتیق کا قریبی بتاکر کر توڑ دیا گیا۔ میری زندگی کی ساری کمائی برباد ہو گئی اور میں مقروض  بھی ہوں ۔

ظفر احمدنے  رو تے ہوئے  انصاف کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے کہا، ‘انتظامیہ میری جانچ  کرا لے۔ میں کہیں نہیں  بھاگ رہا ہوں ، لیکن کیا اب انتظامیہ میرا گھر بنا کر مجھے دے سکتی ہے؟ جس وقت شائستہ نے میرا گھر کرایہ پر لیا تھا، ان پرکوئی  بھی مقدمہ درج نہیں تھا۔

ظفر نے میڈیا پر بھی ان کے خلاف جھوٹی خبریں چلانے کا الزام  لگایا اور کہا کہ وہ کسی بھی جانچ کے لیے تیار ہیں۔

ظفر احمد کے خلاف کوئی مقدمہ درج ہے یا نہیں،یہ جاننے کے لیےباندہ کے سٹی کوتوال تھانے سے رابطہ کیا گیا۔ یہاں سی او آفس نے بتایا کہ ہم یہ نہیں جانتے کہ ظفر احمد کا عتیق احمد سے کوئی تعلق ہے یا نہیں،  لیکن ہاں ظفر کے خلاف کوئی مقدمہ درج نہیں ہے۔

ظفر احمد کے بہنوئی ایڈووکیٹ صولت حنیف خان نے بتایا،مکان ظفر کا تھا جس کا بیع نامہ میں نے ہی  اس کے نام سے کرایا  تھا اور  عتیق کی اہلیہ شائستہ پروین کو کرایہ پر بھی میں نے ہی دیا تھا۔ ظفر عتیق اور اس کی اہلیہ سے کبھی نہیں ملا ہے،  لیکن اس کے مکان کو  عتیق کا قریبی بتاکر توڑ دیا گیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا،’اب کہیں اپیل بھی  نہیں کی جا سکتی، کیونکہ پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی نے کہا ہے کہ نقشہ پاس  نہیں ہے، جبکہ یہاں آس پاس کے  جتنے بھی مکان ہیں،کسی کا نقشہ پاس نہیں ہے۔ کرایہ  پر مکان دینا گناہ نہیں  ہے اور نہ ہی  جس نے کرایہ پر لیا اس کے خلاف کوئی مقدمہ تھا۔

جب ظفر احمد کے گھر کو مسمار کرنے کا عمل جاری تھا تو کچھ میڈیا ادارے اس کی رپورٹنگ کرتے ہوئے انہیں ظفر خالد کے نام سے مخاطب کر رہے تھے، جبکہ ظفر احمد باندہ سے خبر رساں ایجنسی اے این آئی کے رپورٹر ہیں۔

دوسری جانب ظفر خالد ایک اور شخص ہیں، جس پر فوجداری مقدمات بھی درج ہیں اور وہ عتیق احمد گینگ کا رکن بتایا جاتا ہے، تاہم میڈیا نے ظفر احمد کو ظفر خالد بتایا۔

الہ آباد کے دھومن گنج پولیس اسٹیشن کے ایس او راجیش موریہ نے کہا،’ظفر احمد اور ظفر خالد دو الگ لوگ ہیں اور دونوں  ہی عتیق احمد کے قریبی ہیں۔ظفر احمد کے گھر پر پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی کی جانب سے کارروائی کی گئی ہے، اب یہ معلوم نہیں ہے کہ ظفر رپورٹر ہیں بھی یا نہیں۔ ان کے خلاف کوئی مقدمہ  درج ہے یا نہیں، یہ تو دیکھنا پڑے گا۔

اس معاملے میں جب پریاگ راج ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے عہدیداروں سے رابطہ کرنے کی کوشش کی تو دفتر سے چیئرمین کے سکریٹری کا نمبر دیا گیا، لیکن فون کرنے پر سکریٹری نے فون نہیں اٹھایا۔

خبر رساں ایجنسی اے این آئی کی جانب سے جاری ایک  خط کے مطابق ظفر احمد فروری 2012 سے باندہ اور مہوبہ ضلع  کے رپورٹر ہیں۔

ظفر نے بھی پریس ریلیز جاری کر کے میڈیا کی جانب سے خود کو عتیق احمد کا قریبی بتائے جانے کی مخالفت کی ہے اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔

انہوں نے ساتھی میڈیا اہلکاروں  پر امیج  کو خراب کرنے کا الزام لگایا اور اپنے ساتھ میڈیااہلکاروں  سے انصاف کے لیے کھڑے ہونے کی اپیل کی ہے۔

معلوم ہو کہ جرائم کے تئیں اتر پردیش کی یوگی آدتیہ ناتھ حکومت کی بلڈوزر پالیسی کو مسلسل تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ اس پالیسی پر مسلمانوں کو غیر متناسب طور پر نشانہ بنانے کے  الزام لگتے رہے ہیں۔

اس سے پہلے بھی کئی معاملات میں یوگی حکومت کی طرف سے مسلمانوں کے مکانات اس طرح گرائے جا چکے ہیں، جس میں  مناسب عمل کے حوالے سے سوال اٹھتے رہے ہیں۔

یوگی حکومت نے گزشتہ سال الہ آباد میں ہی سماجی کارکن آفرین فاطمہ کے گھر کو منہدم کر دیا تھا۔

الہ آباد میں  ہوئےایک احتجاج کے دوران تشدد کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس نے ویلفیئر پارٹی آف انڈیا کے رہنما اور سی اے اے مخالف مظاہروں کا ایک اہم چہرہ رہے جاوید محمد کو 10 دیگر کے ساتھ ‘کلیدی سازش کار‘ بتایا تھا۔

یہ احتجاجی مظاہرے بی جے پی کی معطل لیڈر نوپور شرما اور نوین جندل کے پیغمبر اسلام کے خلاف ریمارکس کے بعد ہوئے تنازعہ کے تناظر میں ہوئے تھے۔الہ آباد انتظامیہ نے فاطمہ کے گھر کو غیر قانونی قرار دیا تھا۔ نوٹس جاوید محمد کے نام  سے آیا  تھا، جبکہ مکان ان کی اہلیہ کے نام پر تھا۔

(ذاکر علی تیاگی فری لانس صحافی ہیں۔)