خبریں

احمد آباد میں کرکٹ میچ یا بی جے پی کی ریلی؟

احمد آباد میں ہندوستان اور آسٹریلیا کے درمیان چوتھے بارڈر-گواسکر ٹرافی میچ سے پہلے وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنے آسٹریلیائی ہم منصب کے ساتھ اپنے ہی نام والے اسٹیڈیم کا چکر کاٹا، جہاں  بی سی سی آئی کے سکریٹری جے شاہ نے مودی کو انہی کی تصویر پیش کی۔ مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق، 130000کی گنجائش والے اسٹیڈیم میں میچ کے پہلے دن کے 80000 ٹکٹ بی جے پی نے خریدے تھے۔

احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانیز۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@narendramodi)

احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانیز۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@narendramodi)

نئی دہلی: ہندوستان اور آسٹریلیا کی مینس کرکٹ ٹیموں کے درمیان بارڈر-گواسکر ٹرافی جاری ہے، جس کا چوتھا ٹیسٹ میچ احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں کھیلا جا رہا ہے۔ ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی اور ان کے آسٹریلوی ہم منصب انتھونی البانیز نے جمعرات کو میچ کےآغاز سے قبل رتھ نما گولف کارٹ میں ‘لیپ آف آنر’ (فاتح ٹیم کا جیت کے بعدمیدان کے چکر لگانا)لیتے ہوئے ‘کرکٹ کے ذریعے دوستی’کا پیغام دیا۔

رپورٹ کے مطابق، وزیر اعظم مودی کو یہاں ان کے ہی  نام سے منسوب اسٹیڈیم میں بی سی سی آئی کے سکریٹری اور ملک کے وزیر داخلہ امت شاہ کے بیٹے جئے شاہ نے انہی  کی تصویر پیش کی۔ اس اسٹیڈیم کا نام تبدیل ہونے کے بعد وزیراعظم پہلی بار یہاں پہنچے تھے۔

بی سی سی آئی کے سکریٹری جئے شاہ احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی تصویر پیش کرتے ہوئے۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: بی سی سی آئی)

بی سی سی آئی کے سکریٹری جئے شاہ احمد آباد کے نریندر مودی اسٹیڈیم میں وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی تصویر پیش کرتے ہوئے۔ (اسکرین گریب بہ شکریہ: بی سی سی آئی)

کچھ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یہ تقریب کرکٹ میچ سے زیادہ سیاسی ریلی کی طرح لگ رہی تھی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ 1 لاکھ 30 ہزار کی گنجائش والے اس اسٹیڈیم میں زیادہ تر ٹکٹیں بی جے پی نے میچ کے پہلے دن (یعنی جمعرات کو) خریدی تھیں۔ گجراتی اخبار دیویہ بھاسکر کے مطابق، پہلے دن کے 80 ہزار ٹکٹ بی جے پی لیڈروں نے خریدے ہیں۔

بی جے پی کے چار ریاستی لیڈروں نے دی وائر سےاس بات کی تصدیق کی ہے کہ انہیں میچ کے ٹکٹ خریدنے کی ہدایات موصول ہوئی تھیں۔ ایک ایم ایل اے نے بتایا کہ خود انہوں نے12000 ٹکٹ خریدے ہیں۔ میچ کے ٹکٹ آن لائن  بک مائی شوسے مل رہے  ہیں، جس نےدی وائر کی جانب سےپوچھے گئے  کے سوالوں کا جواب دینے سے انکار کر دیا۔

کرکٹ میچ کو سیاسی رنگ دینے پر بی سی سی آئی پر تنقید کرتے ہوئے گجرات کانگریس میں اپوزیشن کے سابق لیڈر اور پوربندر کے سینئر ایم ایل اے ارجن موڈھواڈیا نے دی وائر کو بتایا،کرکٹ جیسے کھیل کو سیاسی تماشے میں تبدیل کرنا مضحکہ خیز ہے۔ اس طرح ٹکٹ خرید کر بی جے پی نے اس میچ کو سیاسی جئے جئےکار  اور دکھاوے کے کھیل میں بدل دیا ہے۔

وائبس آف انڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ کھیلوں میں اس قسم کی سیاست ٹھیک نہیں ہے۔ کرکٹ میں سیاست کی بڑھتی ہوئی مداخلت کے باعث سپریم کورٹ نے الگ گورننگ باڈی بنانے کی ہدایت کی تھی۔

انہوں نے مزید کہا، اس بات کی بھی تحقیقات ہونی چاہیے کہ ایک میچ کے لیے اتنی بڑی تعداد میں ٹکٹ ایک تنظیم کو کیسے دیے گئے۔ کرکٹ سے محبت کرنے والے میدان میں نہ ہوں تو یہ کھلاڑیوں کے لیے بھی اچھا نہیں ہے۔ ہمارے لیڈر بھی میچ دیکھنے گئے ہیں لیکن اسٹیڈیم کبھی بک نہیں ہوا۔

ان کا یہ خدشہ بیرون ملک سے آئے کرکٹ شائقین کے معاملے میں درست ثابت ہوا جہاں انہیں اس ٹیسٹ میچ کے ٹکٹ خریدنے میں کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔

اے بی سی نیوز کے مطابق، عام شائقین کو صرف ان سیٹوں کے ٹکٹ مل سکتے تھے جہاں سے میچ بہ مشکل دکھائی دے رہا تھا۔ دباؤ کے بعد ہی آسٹریلوی ناظرین کو ٹکٹ دستیاب کرائے گئے۔ کرکٹ آسٹریلیا نے بھی ایک ٹوئٹ میں بتایا تھا کہ آسٹریلوی ناظرین کے لیے ٹکٹ خریدنے کے لیے اسٹیڈیم میں ایک علیحدہ باکس آفس قائم کیا گیا ہے۔

دوسری جانب آسٹریلیا میں بھی ہندوستان  کی حکمران جماعت کو ان کے ملک کی طرف سے بڑھاوا دینے پر سوالات اٹھائے گئے ہیں۔

کرکٹ رائٹر گیڈین–ہے نے دی آسٹریلین میں’وہائی آر وی ٹالریٹنگ دی ان ٹالرنس؟'(ہم عدم برداشت کو کیوں برداشت کر رہے ہیں؟) کے عنوان سےایک مضمون میں لکھا ہے اور کہا ہےکہ، ہندوستانی ریاست گجرات ڈرائی اسٹیٹ ہے،احمد باد میں ہو رہے چوتھے میچ کے دوران آپ کو بیئر بھی نہیں ملے گی۔ لیکن اگر آپ کو کرکٹ کے ساتھ فاشسٹ شو آف (فسطائی نمائش)پسند ہے، تو احمد آباد میں بارڈر-گواسکر ٹرافی کا میچ آپ کے لیے ہے…’

انہوں نے نریندر مودی کے انسانی حقوق کے قابل اعتراض ریکارڈ کا بھی حوالہ دیا، خاص طور پر 2002 کے گجرات فسادات کے تناظر میں۔ انھوں نے لکھا، ‘عثمان خواجہ (ایک آسٹریلوی کھلاڑی) کو ایک ایسے شخص سے ہاتھ ملانا پڑے گا جو 21 سال قبل اس شہر کا ذمہ دار تھا جب گودھرا ٹرین آگ زنی کے بعد قتل عام میں ان کے مذہب کے سینکڑوں لوگ کا خون کر دیا گیا  تھا، ہزاروں بے گھر ہوئے ، جبکہ سیکورٹی فورسز مشکوک طور پر غیر فعال رہی۔ حیرت کی بات ہے کہ یہاں آسٹریلیا میں اس بات کا خیال رکھا جاتا ہے خواجہ کے اردگرد بیئر کی کین نہ ہو، لیکن اب کسی کو اس بات کی پرواہ نہیں کہ انہیں  ایک ایسے لیڈر کے قریب  رہنا ہوگا جس کا سارا کیریئر ہندوستان کے مسلمانوں کو بدنام کرنے اور ان کو شہریت سے محروم کرنے سے بنا ہے۔

اے بی سی نیوز نے یہ بھی لکھا ہے کہ یہ کرکٹ میچ، میچ کم  پی آر زیادہ لگ رہا ہے۔ ویب سائٹ کی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ‘آسٹریلیا میں ایسا کبھی نہیں دیکھا گیا کہ کسی بھی بین الاقوامی کھیلوں کے ایونٹ میں وزیر اعظم کا چہرہ اس طرح سے  نمایاں طور پر دکھایا گیا ہو۔ درحقیقت،یہ ممکن ہے کہ کھیلوں کے شائقین بھی اسے پسند نہ کریں۔ لیکن ہندوستان میں- جہاں البانیز اس ہفتے دورے پر رہیں  گے – وہاں مودی حکومت یہ  تماشا کر رہی ہے۔