خبریں

کرناٹک: ہاویری ضلع کی مسجد پر پتھراؤ کے بعد 15 لوگو ں کو حراست میں لیا گیا

منگل کوکچھ ہندو تنظیموں نے کرناٹک کے ہاویری ضلع میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑنے والے 19ویں صدی کے فوجی رہنما سنگولی رائینا کے مجسمے کے ساتھ ایک بائیک ریلی نکالی تھی۔ جب یہ ریلی ایک مسلم علاقے سے گزری تو کچھ شرپسندوں نے مسلمانوں کے گھروں اور ایک مسجد پر پتھراؤ کیا۔

کرناٹک کے ہاویری ضلع میں ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے نکالی گئی بائیک ریلی کا ویڈیو گریب۔

کرناٹک کے ہاویری ضلع میں ہندوتوا تنظیموں کی طرف سے نکالی گئی بائیک ریلی کا ویڈیو گریب۔

نئی دہلی: کرناٹک کے ہاویری ضلع میں منگل (14 مارچ) کو ہندو تنظیموں کی طرف سے نکالی گئی ریلی میں حصہ لینے والوں  کے ذریعے ایک مسجد اور مسلم کمیونٹی کے گھروں پر پتھراؤ کرنے کا معاملہ سامنے آیا ہے۔ اس کے بعد پولیس نے 15 افراد کو حراست میں لیا ہے۔

اس واقعہ کے بعد علاقے میں فرقہ وارانہ کشیدگی پھیل گئی۔

انڈیا ٹوڈے میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق، منگل کو کچھ ہندو تنظیموں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے خلاف لڑنے والے 19ویں صدی کے فوجی رہنما سنگولی رائنا کے مجسمے کے ساتھ ایک بائیک ریلی نکالی تھی۔ جب یہ ریلی مسلمانوں کے علاقے سے گزری تو کچھ شرپسندوں نے گھروں اور ایک مسجد پر پتھراؤ کیا۔

ہاویری کے پولیس سپرنٹنڈنٹ (ایس پی) شیوکمار نے ایک ویڈیو بیان میں کہا کہ تقریباً 100 لوگ ریلی میں شامل ہوئے۔ اس دوران مسجد اور مسلمانوں کے گھروں پر پتھراؤ کیا گیا۔

انڈیا ٹوڈے کے مطابق شیوکمار نے کہا، ‘جلوس کے دوران پولیس کی تعیناتی تھی اور صورتحال کو فوری طور پر قابو میں لایا گیا۔ انہوں نے کہا کہ 9 مارچ کو اسی طرح کی ایک ریلی میں’مسلم کمیونٹی کے کچھ لوگوں نے خلل ڈالا تھا’، جس نے ممکنہ طور پر’لوگوں کو اکسایا’ ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ چونکہ جلوس کے دوران پولیس اہلکار تعینات تھے، اس لیے پتھراؤ کرنے والوں کی شناخت کی جائے گی۔

معلوم ہو کہ اس سے قبل جون 2022 میں کرناٹک کے مانڈیا ضلع کے سری رنگا پٹنم شہر میں واقع ایک مسجد میں ہندوتوا گروپوں کے داخل ہونے اور پوجا کرنے کی دھمکی کی وجہ سے فرقہ وارانہ کشیدگی پیدا ہوئی تھی۔

ہندوتوا گروپوں نے دعویٰ کیا تھا کہ سری رنگا پٹنم قلعے میں واقع جامع مسجد ہنومان مندر کو منہدم کرنے کے بعد بنائی گئی تھی۔ آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کے مطابق، مسجد پر فارسی نوشتہ جات بتاتے ہیں کہ ٹیپو سلطان نے 1782ء میں مسجد اعلیٰ  نام کی  یہ مسجد تعمیر کروائی تھی۔

بتادیں کہ اس واقعے سے پہلے کچھ ہندو کارکنوں نے ایک میمورنڈم سونپ کر ضلع انتظامیہ سے اسی طرح کا سروے کرنے کے لیے کہا تھا، جیسا کہ وارانسی کی گیانواپی مسجد میں کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیے یہاں کلک کریں۔