گراؤنڈ رپورٹ

اجمیر: خانہ بدوشوں کی دستکاری کے لیے نہ تو گاؤں کا میلہ ہے اور نہ ہی کوئی نمائش

چرخہ فیچرس:  تقریباً 15سے20 سال پہلے تک خانہ بدوش کمیونٹی کے ذریعے بنائی جانے والی  ٹوکریاں بڑے پیمانے پر مویشیوں کو چارہ دینے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ اب پلاسٹک کے وسیع پیمانے پر دستیاب سستے اور اچھے برتنوں کی وجہ سے دیہات کے لوگ اور کسان بھی اب ان ٹوکریوں کا استعمال نہیں کرتے،اس وجہ سے ان کے پہلے سےہی  کم منافع والے کاروبار کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔

اندرا جوگی ٹوکری بناتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

اندرا جوگی ٹوکری بناتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

ایک ایسے دور میں جہاں دستکاری کے نام پر میلے، نمائش اور طرح طرح  کے بازار پورے ملک میں چل رہے ہیں،  پلاسٹک سے پاک کاروبارکو عملی طورپر اپنانے والی  خانہ بدوش کمیونٹی کی دستکاری ہماری بے توجہی کا شکار ہے۔اس کمیونٹی کی کچھ خواتین اجمیر کے مضافات میں واقع سردھنا گاؤں میں خانہ بدوش بستی میں روایتی ٹوکری بنانے  کا کام کرتی  ہیں۔

گاؤں کے باہر، سڑک سے بالکل دور، ریلوے لائن کے پیچھے، چند گھروں کی قطار ہے، جن میں سے زیادہ تر پرانے کینوس کے کپڑے اور سرکنڈے کی گھاس سے بنے ہیں۔ ان عارضی عمارتوں کے باہر مٹی کا چولہا، چند کچی چارپائیاں اور ٹوٹی ہوئی کرسیاں پڑی ہیں۔ چہار دیواری کے لیے لکڑیوں اور خشک جھاڑیوں کا استعمال کیا گیا ہے۔

یہاں جوگی خواتین زمین پر بیٹھی ٹوکریاں بُن رہی ہیں، کچھ دھوپ میں، تو کچھ درخت کے سایے میں۔ باہر سڑک کے کنارے کھردری میز پر ٹوکریاں فروخت کے لیے ڈھیرلگی ہیں۔ یہ عورتیں ٹوکریاں بُنتی اور بیچتی ہیں جبکہ مرد عموماً بانسوں کو بانٹ کر باریک پٹیاں بناتے ہیں جو بُنائی میں استعمال ہوتی ہیں۔

سردھنا کی یہ بستی پسماندہ برادریوں میں سب سے زیادہ پسماندہ ہے۔ سات خاندانوں کی اس بستی میں ٹوکریاں بنانے والی 20 سالہ اندرا جوگی ہے جو گزشتہ چار سالوں سے یہ ٹوکریاں بنا کر بیچ رہی ہے۔انہوں  نے بتایا کہ؛

ہمارے آباواجداد یہ کام تقریباً 400–500 برسوں سے کر رہے ہیں۔ ہم سب ٹوکریاں بناتے ہیں اور انہیں سڑک کے کنارے بیچتے ہیں، لیکن زیادہ تر پورے دن میں بھی ہم ایک ٹوکری تک فروخت نہیں کر پاتے۔

غور طلب ہے کہ سردھنا گاؤں کی سڑک پر واقع کرانہ کی دکانوں پر ٹوکریاں فروخت ہوتی ہوئی آپ ضرور دیکھ سکتے ہیں، لیکن وہاں کے دکاندار ان لوگوں سے ٹوکریاں نہیں خرید تے۔ وہ ٹوکریاں آسام سے حاصل کرتے ہیں جہاں بانس کی آسانی سے دستیابی کی وجہ سے، ہر ٹوکری کی تھوک قیمت تقریباً دس روپے ہے۔ جبکہ سردھنا کے جوگی ایک ٹوکری کو تیس روپے سے کم میں فروخت کرنے کے متحمل نہیں ہو پاتے۔اس تعلق سے اندرا کی ساس منگو جوگی نے بتایا کہ؛

تھوک سے ہمیں کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ اگر ہم ایک چھوٹی ٹوکری بھی دس روپے میں بیچتے ہیں تو ہم خام مال کی قیمت بھی پوری نہیں کر پاتے،ہم ان ٹوکریوں کو مکمل طور پر ہاتھ سے تیار کرتے ہیں، ہر ٹوکری بنانے میں بہت زیادہ وقت اور محنت لگتی ہے۔

 پورا خاندان مل کر ایک دن میں تقریباً 4سے5 ٹوکریاں ہی بناپاتا ہے۔ علاوہ ازیں اس میں لگنے والے میٹریل اور ایک بانس کی قیمت تقریباً دوسو روپے الگ آتی ہے۔اندرا کے شوہر مکیش نے بتایا کہ، انہیں بعض اوقات ہوٹلوں کے اندر جھونپڑی نما ڈھانچہ بنانے کے آرڈر بھی ملتے ہیں۔

 اس کے علاوہ جوگیوں کے مرد،بانس کی فنکاری کے علاوہ مزدوری اور دوسرے کام بھی کرتے ہیں،مگر عورتیں روزی روٹی کے لیے ٹوکریاں ہی بناتی ہیں۔

اندرا جوگی اپنے شوہر شنکر کے ساتھ ٹوکری بناتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

اندرا جوگی اپنے شوہر شنکر کے ساتھ ٹوکری بناتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

تقریباً 15سے20 سال پہلے تک اس کمیونٹی کے ذریعے بنائی جانے والی بڑی ٹوکریاں بڑے پیمانے پر مویشیوں کو چارہ دینے کے لیے استعمال کی جاتی تھیں۔ اب پلاسٹک کے وسیع پیمانے پر دستیاب سستے اور اچھے برتنوں کی وجہ سے دیہات کے لوگ اور کسان بھی اب ان ٹوکریوں کا استعمال نہیں کرتے  اور اس وجہ سے ان کے پہلے سےہی  کم منافع والے کاروبار کو زبردست نقصان پہنچا ہے۔منگو جوگی نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایاکہ؛

لیکن ہم اور کیا کام کر سکتے ہیں؟ ہمیں کوئی دوسرا کام بھی نہیں دیتا۔ ہمارے آباؤ اجداد نے ہمیں یہی سکھایا ہے۔ ہمیں اس کی پیروی کرنا اور اس کے ساتھ رہنا ہے۔ ہم کبھی اسکول نہیں جا سکے، اور نہ ہی ہمارے پاس کچھ اور کرنے کے لیے کوئی کام یا کھیتی ہے۔

 منگو کے گھر کے بالکل ساتھ میں منگو کے بھتیجے شنکر کی بیوی 30 سالہ جمنا رہتی ہے۔ اس کی 12 سالہ بیٹی ایکم قریب ہی کے ایک سرکاری اسکول میں پانچویں جماعت کی طالبہ ہے۔ اگرچہ ایکم نے ابھی تک ٹوکری بنانا شروع نہیں کیا ہے، مگر جمنا کا خیال ہے کہ وہ بھی یہ کام سیکھ لے گی۔ایکم نے سوالیہ انداز میں کہا کہ ؛

اگر ہم یہ کام نہیں کریں گے تو ہم دو وقت کی روٹی کہاں سے اورکیسے کھائیں گے؟

 جمنا، اندرا اور منگو اکثر اپنی بستی کے باہر ٹوکریاں فروخت کرنے کے لیے بیٹھتی ہیں۔ شہر اورگاؤں کے لوگ روٹیاں رکھنے کے لیے چھوٹی ٹوکریاں خریدنے آتے ہیں اور سبزی فروش بھی اپنی دکانوں پر استعمال کرنے کے لیے چھوٹے سائز کی ٹوکریاں خریدتے ہیں۔ ایکم اور اس کے چھوٹے بہن بھائی اور کزن کوڑا چننےکا کام کرتے ہیں اور پڑوسی علاقوں سے بوتلیں اکٹھی کرتے ہیں تاکہ کباڑی کو معمولی رقم میں فروخت کر سکیں۔جمنا جوگی نے بتایاکہ؛

تھوڑی سی رقم بھی خاندان کی آمدنی میں اضافہ کرتی ہے۔ اب ہم زیادہ تر چھوٹی ٹوکریاں بناتے ہیں۔ ورنہ ہم بڑے سائز والی ٹوکریوں سے فی ٹوکری 400 روپے کما سکتے تھے۔ پہلے جب ان کی مانگ ہوتی تھی تو ہم مہینے میں کم از کم بیس سے پچیس ٹوکریاں بناکر آسانی سے فروخت کرلیتے تھے۔ آج ہمیں 10سے15ٹوکریوں کے بھی خریدار نہیں ملتے ہیں، اور نہ ہی ہمیں اپنی کفالت کے لیے کسی قسم کے سرکاری قرضے ملتے ہیں۔

 منگونے بتایا کہ،الیکشن کے دوران لوگ آتے ہیں اور ہم سے ہمارے مسائل پوچھتے ہیں۔ لیکن اس کے بعد وہ ہمیں یاد نہیں کرتے۔ وہ ووٹ لینے آتے ہیں اور واپس چلے جاتے ہیں۔سال کا ایک وقت جو ان کے لیے قدرے بہتر ہوتا ہے وہ نوراتری کے دوران ہوتا ہے جب وہ راون کے مجسمے بنا کر اجمیر شہر میں فروخت کرتے ہیں۔ جمنا جوگی نے بتایاکہ؛

ہم گھر پر مجسمے بناتے ہیں اور ہمارے مرد انہیں بیچنے جاتے ہیں۔ ہم دن بھر زیادہ سے زیادہ کام کرتے ہیں تاکہ اگلے دن فروخت کے لیے زیادہ مجسمے تیار ر ہیں۔

جمنا نےمزید  کہا کہ؛

جب وہ بانس کے اسٹینڈ کو پانی میں ڈبو رہی ہوتی ہے، اس سے پہلے کہ اسے ٹوکری کے فریم کے گرد بُننا شروع کیا جائے۔ وہ فریم کے چوڑے اطراف کو جوڑنے اور انہیں پتلی پٹیوں میں کاٹنے کے لیے چھری کا استعمال کرتی ہے۔ ان پٹیوں کو لپیٹنے اور بُننے کے اپنے خطرات ہیں۔ بانس کی پھانس جو سوئی کی طرح باریک ہوتی ہے۔ وہ ہماری انگلیوں میں داخل ہوجاتی ہے۔ یہ آپ کو بہت تکلیف دے سکتی ہے، لیکن ہم اس کے عادی ہوچکے ہیں، آخر یہ ہمارا کام ہے۔ ہم اسے ویسے ہی لیتے ہیں۔

 وہ یہ بھی بتاتی ہیں کہ وہ جہاں آج رہتی ہیں،وہیں پلی بڑھی ہیں اور ان کے شوہر’گھر جمائی‘ ہیں۔ ان کا آبائی خاندان دوسری جگہ منتقل ہو گیا اور وہ یہاں سردھنا میں آباد ہو گئی۔جمنا اور اس کے خاندان کے افراد کبھی کبھی ٹوکریاں بیچنے گاؤں جاتے ہیں۔

اس سے پہلے مویشیوں کے میلوں کے دوران، وہ باقاعدگی سے جایا کرتے تھے اور مویشیوں کے لیے استعمال ہونے والی ٹوکریاں، خاص طور پر بیلوں کے استعمال والی ٹوکریاں میلے میں ہی بُن کر فروخت کرتے تھے۔ اب مویشیوں کو چارہ دینے کے لیے پلاسٹک کی ٹوکریاں زیادہ مضبوط اور سستی ہونے کی وجہ سے مویشی میلوں میں بھی ان کی مانگ نہیں رہی۔ نہ تو گاؤں کا میلہ ہے اور نہ ہی ان کی نمائش کے لیے کوئی جگہ ہے۔

اندرا جوگی اپنے گراہک کا انتظار کرتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

اندرا جوگی اپنے گراہک کا انتظار کرتے ہوئے، فوٹو: شیفالی مارٹنس

اس لیے یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پلاسٹک کی آلودگی سے پاک دستکاری کو نظر انداز کر دیا گیا ہے۔

ان خواتین کے خاندان اکثر مقامی گروسری اسٹور سے کریڈٹ پرسامانِ خوردونوش خریدتے ہیں۔ کبھی کبھی وہ مہینے میں پانچ سے چھ ہزار روپے کما لیتے ہیں۔ جمنا جوگی نے اپنی آمدنی کے حوالے سےبتایا کہ ،شادی کی تقریبات کے لیے ان ٹوکریوں کی مانگ ہوتی ہے۔ لیکن لوگ اس کو بھی تھوک فروخت کرنے والے دکانداروں سے حاصل کرلیتے ہیں۔ ہمارے ذریعے بنائی گئی ان ٹوکریوں کا استعمال شادی کے موقع پر دلہن کے گھر سامان،کپڑے وغیرہ سجاکر بھیجنے کے لیے کیا جاتا ہے۔ عام طور پر گاؤں کے کسان اور سبزی فروش ہم سے ٹوکریاں خریدتے ہیں۔

 زیادہ ترعام دنوں میں یہ خاندان دوسو روپے یومیہ بھی نہیں کما پاتے ہیں۔جو ان کے مطابق پانچ افراد کے خاندان کو چلانے کے لیے درکار بنیادی رقم ہے۔ لیکن وہ انتھک اپنی ٹوکریاں بناتی چلی جاتی ہیں، گاہکوں کی ایک بڑی مانگ کا انتظار کرتے ہوئے، امید کا دامن پکڑے ہوئے، روایات کو زندہ رکھنے کی جدوجہد کرتے ہوئے،خاندانی ہُنراور فن کی حفاظت کرتے ہوئے،آلودگی سے ملک کو تحفظ بخشتے ہوئے، بانس کی رگوں کو اپنی مہارت سے بُنتے ہوئے  وہ  اپنی زندگی کی نئی صبح کا خواب دیکھتی رہتی ہیں۔

یہ رپورٹ سنجے گھوش میڈیا ایوارڈز 2022 کے تحت لکھی گئی ہے۔