خبریں

بڑے بڑے سرکاری دعووں کے درمیان مودی راج میں بنایا گیا ایک بھی ایمس پوری طرح سے کام نہیں کر رہا ہے

گزشتہ 13 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کرناٹک میں دعویٰ کیا کہ ان کی  حکومت میں ایمس جیسے اداروں کی تعداد پہلے کے مقابلے تین گنا بڑھ گئی ہے۔تاہم، وزارت صحت کے اعداد و شمار کے  مطابق، 2014 میں ان کی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے مختلف ریاستوں میں شروع ہوئے  ایمس میں سے ایک بھی مکمل طور پر کام نہیں کر رہا ہے۔

اکتوبر 2017 میں ہماچل پردیش کے بلاس پور میں ایمس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی، اس وقت کے وزیر صحت جے پی نڈا، گورنر اور وزیر اعلیٰ اور دیگر رہنما۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

اکتوبر 2017 میں ہماچل پردیش کے بلاس پور میں ایمس کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں وزیر اعظم نریندر مودی، اس وقت کے وزیر صحت جے پی نڈا، گورنر اور وزیر اعلیٰ اور دیگر رہنما۔ (فوٹوبہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: 13 مارچ کو وزیر اعظم نریندر مودی نے کرناٹک کے مانڈیا ضلع میں دعویٰ کیا کہ ان کی سرکار میں ایمس جیسے اداروں کی تعداد پہلے کے مقابلے تین گنا بڑھ گئی ہے۔ اگلے دن ملک کے وزیر صحت من سکھ منڈاویہ نے ایک ٹوئٹ میں ‘مودی زمانہ’ دکھاتے ہوئے لکھا کہ ملک میں ایمس کی تعداد سات سے بڑھ کر 22 ہوگئی ہے۔

ایمس جیسےاور اسپتالوں کی تعداد بڑھانے کی بات 2014 میں مودی حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی، حالانکہ ان میں سے کوئی بھی ایمس آج تک پورے طور پر ‘فنکشنل’ نہیں ہے، یعنی یہاں پوری طرح سے کام شروع نہیں ہوا ہے۔یہ جانکاری موجودہ بجٹ سیشن میں خود وزیر صحت نے پارلیامنٹ میں دی ہے۔

پردھان منتری سواستھیہ سرکشا یوجنا (پی ایم ایس ایس وائی ) کے تحت 2014 سے ایمس جیسے کم از کم 16اداروں کا تصور کیا گیا تھا۔ 3 فروری 2023 کو لوک سبھا میں منڈاویہ کے جواب کے مطابق، ایمس جیسے 16 ادارے ‘آپریشنلائزیشن کے مختلف مراحل’ میں ہیں اور صرف محدود آؤٹ پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (او پی ڈی) اور ان-پیشنٹ ڈپارٹمنٹ (آئی پی ڈی) خدمات ہی دستیاب ہیں۔

ان 16 ایمس جیسے اداروں میں سے کچھ کا اعلان 2014 میں ہی کیا گیا تھا، مثال کے طور پر، ایمس گورکھپور (اتر پردیش)، ایمس منگلاگیری (آندھرا پردیش)، ایمس ناگپور (مہاراشٹرا) اور ایمس کلیانی (مغربی بنگال)۔ اس کے باوجود، یہ تمام ادارے صرف محدوداوپی ڈی اور آئی پی ڈی خدمات فراہم کر رہے ہیں اور ‘مکمل طور پر فعال’ فہرست میں شامل نہیں ہیں۔

اٹل بہاری واجپائی کی قیادت والی این ڈی اے حکومت کے دوران قائم کیے گئے صرف چھ ایمس—بھوپال، پٹنہ، رائے پور، رشی کیش، بھونیشور اور جودھپورہی — پوری طرح سے کام کر رہے ہیں۔

حکومت نے اس بات کی وضاحت نہیں کی ہے کہ ‘محدوداوپی ڈی اورآئی پی ڈی خدمات’ کی دستیابی سے کیا مراد ہے، حالانکہ پبلک ہیلتھ  فاؤنڈیشن آف انڈیا کےاعزازی پروفیسرسری ناتھ ریڈی کا کہنا ہے کہ پوری طرح سے کام کر رہے اوپی ڈی کا مطلب تمام محکمے سے ہو گا، جبکہ کچھ منتخب، مریضوں کو مشورہ دینے کے اہل  ہوں گے۔ محدود آئی پی ڈی  خدمات میں بہت کم بنیادی خدمات شامل ہو سکتی ہیں– شاید وہی جو ضلعی سطح کے ہسپتالوں میں ہوتی ہیں یا اس سے بھی کم۔

ریڈی نے کہا، انہیں اصل میں ان کے ذریعے دیکھے گئے مریضوں کی تعداد بتانی چاہیے تاکہ یہ واضح ہو کہ صورتحال کیا ہے۔

ایمس گوہاٹی (آسام) کا سنگ بنیاد نریندر مودی نے 2017 میں رکھا تھا اور اس نے حال ہی میں اپنا تیسرا انسٹی ٹیوٹ ڈے منایا۔ اس کی ویب سائٹ کے مطابق، یہاں کوئی اوپی ڈی یا آئی پی ڈی سروس فراہم نہیں کی جا رہی ہے۔

دراصل، ویب سائٹ کا کہنا ہے کہ انسٹی ٹیوٹ میں ایک بھی طبی شعبہ نہیں چل رہا ہے۔ گزشتہ سال دسمبر میں آسام کے وزیر اعلیٰ ہمنتا بسوا شرما کے حوالے سے میڈیا رپورٹس میں کہا گیا تھا کہ انسٹی ٹیوٹ کا باقاعدہ افتتاح  2023 میں کیا جائے گا۔

اگرچہ ان اداروں کا قیام اور آپریشن مرکزی حکومت کی ذمہ داری ہے، لیکن وزیر صحت نے اپنے جواب میں کہا کہ اس میں ریاستی حکومتوں کا بھی محدود کردار ہے۔ اس کے جواب میں کہا گیا تھا، ‘وزارت ایمس کے نئے پروجیکٹوں کی پیش رفت پر گہری نظر رکھتی ہے۔ کام کی تکمیل مختلف عوامل پر منحصر ہے جس میں ریاستی حکومت کی طرف سے زمین کی منتقلی، ریگولیٹری منظوری اور سائٹ کے مسائل شامل ہیں۔

مرکزی وزارت صحت اور خاندانی بہبود کے نیشنل ہیلتھ سسٹم ریسورس سینٹر کے سابق سربراہ ٹی سندرارمن کہتے ہیں، ایمس جیسے ادارے اینٹوں اور پتھروں سے نہیں بنتے۔ اسے مکمل طور پر فعال بنانے کے لیے انسانی وسائل (فیکلٹی ممبران، ریزیڈنٹ ڈاکٹرز اور نرسیں) بھی ہونے چاہیے۔

انہوں نے مزید کہا کہ فیکلٹی کی کمی کے ساتھ ساتھ انفراسٹرکچر سے متعلق کئی دیگر مسائل ان اداروں کے کام کو متاثر کر سکتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا، ورنہ اسے اپنی پوری صلاحیت کے مطابق کام کرنے میں تقریباً پانچ سال سے زیادہ نہیں لگنا چاہیے۔

انسانی وسائل کہاں ہیں؟

ریڈی اور سندررمن دونوں  ہی ایمس کے شروع نہ ہونے کے لیے فیکلٹی ممبران کی کمی کی بات پر زور دے رہے ہیں۔ ان کا خدشہ اعداد و شمار سے ظاہر ہوتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ 20 دسمبر 2022 کو راجیہ سبھا میں صحت اور خاندانی بہبود کی وزارت کے وزیر مملکت، بھارتی پروین پوار کی طرف سے دیے گئے جواب کے مطابق، ان 16 اداروں میں سے کئی جگہ منظور شدہ تعداد کے آدھے یا اس سے زیادہ فیکلٹی ممبروں کی کمی ہے۔ ایمس، راج کوٹ میں 183 کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے میں صرف 40 فیکلٹی ممبران ہیں۔

یہاں تک کہ واجپائی حکومت کے چھ ایمس، جنہیں  منڈاویہ کے جواب میں مکمل طور پر کام کر نے والا بتایا گیا، بھی فیکلٹی کے لحاظ سے خراب حالت میں ہیں۔ مثال کے طور پر، پوار کے جواب کے مطابق، پٹنہ میں ایمس میں305 ریگولر ممبروں کی منظور شدہ تعداد کے مقابلے یہاں  162 فیکلٹی کے عہدے بھرے ہوئے ہیں۔

غیر فیکلٹی ممبران (جن میں ریزیڈنٹ ڈاکٹرز، نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف شامل ہیں) کی  بات کریں توصورت حال بد سے بدتر ہوجاتی ہے۔ گوہاٹی ایمس میں اس طرح کے آسامیوں کی منظور شدہ تعداد 1026 ہے، لیکن صر95 آسامیاں ہی بھری گئی ہیں۔ ایمس منگلاگیری میں 1054 کے مقابلے میں 474 آسامیاں بھری گئی ہیں۔

ان اہم اداروں میں انسانی وسائل کی شدید کمی کیوں ہے اس کا جواب دیتے ہوئے، پوار نے 22 مارچ 2022 کو راجیہ سبھا میں کہا، ‘چونکہ قومی اہمیت کے حامل ان اداروں کے قد کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخاب میں اعلیٰ معیار کو برقرار رکھناہوگا، اس لیے تمام مشتہر پوسٹیں پُر نہیں ہو سکی ہیں۔

اسی طرح 29 مارچ 2022 کو راجیہ سبھا میں ایک اور جواب میں پوار نے اعتراف کیا کہ زیادہ فیکلٹی رکھنے کے لیے، ایڈیشنل اور ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی کچھ پوسٹوں کو اسسٹنٹ پروفیسرز کے عہدے پر ‘ڈاؤن گریڈ’ کر دیا گیا ہے (تاکہ کم تجربہ رکھنے والے لوگ  بھی ساتھ آسکیں۔)

انہوں نے کہا کہ حکومت کئی اقدامات کر رہی ہے، جن میں فیکلٹی ممبران کو عارضی طور پر ایک ڈپارٹمنٹ سے دوسرے ڈپارٹمنٹ میں ‘عاریتاً’ منتقل کرنا اور دیگر سرکاری میڈیکل کالجوں کے فیکلٹی ممبران کو ڈیپوٹیشن پر لے کر ایمس کی پوسٹوں کو بھرنا شامل ہے۔

تاہم، یہ واحد مسئلہ نہیں ہے۔حکومت کا ایمس میں کانٹریکٹ کی بنیاد پر ڈاکٹروں کی تقرری کا رجحان بھی اس مسئلہ کے لیے ذمہ دار ہے۔ اس وقت بھی، ان اداروں میں بھرتی کے اس فارمیٹ کے بہت سے اشتہارات موجودہیں، حالانکہ 2015 میں ایک پارلیامانی کمیٹی کی رپورٹ نےایمس، دہلی کی مثال دیتے ہوئے اس کے خلاف سخت سفارش کی تھی۔

آدھےادھوے کام کے آدھے ادھورے نیتجے!

ان تمام مسائل کے درمیان، ان 22 ایمس میں سے زیادہ تر میں ایم بی بی ایس کورسز چل رہے ہیں۔ (اوپر تصویر میں دیکھیں)

اس طرح سمجھیں کہ ایک ایم بی بی ایس کورس  تبھی چلایا جا سکتا ہے،اگر کسی کالج میں سرجری، گائناکالوجی اور مٹیرنٹی(زچگی) کی بنیادی تربیت دیتے ہوئے اناٹومی، بایو کیمسٹری اور فزیالوجی کے شعبہ جات  چل رہے ہیں- حالانکہ یہ ہدایات کے مطابق نہیں ہوگا۔

مکمل طور پر تیار نہ ہونے والے میڈیکل کالج میں ایم بی بی ایس کورس چلانا نہ صرف مریضوں کے لیے بری خبر ہے بلکہ اس سے طلبہ کے لیے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ ریڈی کہتے ہیں،اور یہی وجہ ہے کہ ان اہم اداروں میں ان کورسز کے لیے بہت سی سیٹیں خالی رہتی ہیں۔

بات پھر اسی نکتے پر آکر ٹھہرتی ہے – ان اداروں کا تصور کیوں کیا گیا تھا– وہ بھی ہر ریاست میں ایک؟ اس لیے کہ صحت کی بہتر سہولیات کے لیے یہ سہولیات میٹروز کے علاوہ دیگر شہروں میں بھی فراہم کی جا سکیں۔

ریڈی کہتے ہیں،بنیادی سطح پر اس ہدف کو حاصل کرنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے [لازمی رہنما خطوط کے مطابق] اور ضلعی اسپتالوں اور کمیونٹی ہیلتھ سینٹرز (سی ایچ سی) میں بنیادی ماہرین فراہم کرنا ضروری ، جس کے لیے ابھی بہت طویل سفر طے کرنا ہے۔

غور طلب  ہے کہ حال ہی میں جاری کردہ دیہی صحت کے اعدادوشمار، 2022 میں بتایا گیا ہے کہ ملک بھر کےسی ایچ سی میں درکار چار بنیادی ماہرین کی 80فیصدی کمی ہے۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)