خبریں

گجرات: موربی انتظامیہ نے دوسری ریاستوں سے آئے مزدوروں سے پولیس رجسٹریشن کرانے کو کہا، بتایا-وہ جرم کرنے کے بعد بھاگ جاتے ہیں

موربی ضلع انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا ہے،جس میں علاقے میں کام کرنے والے تمام تارکین وطن مزدوروں  کو مقامی پولیس میں رجسٹریشن کرانے کو کہا گیا ہے۔ عدم تعمیل کی صورت میں کارروائی کی بات کہی گئی  ہے۔اس سلسلے میں  اب تک کم از کم 50 معاملے درج بھی کیے جا چکے ہیں۔

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

(فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

پچھلے مہینے، گجرات میں موربی کی ضلع انتظامیہ نے ایک نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، جس میں علاقے میں کام کرنے والے تمام تارکین وطن مزدوروں  سے کہا گیا ہےکہ وہ مقامی پولیس میں اپنا  رجسٹریشن کرائیں۔

تاہم،روٹین پریکٹس کی طرح نظر آنے والےاس آرڈر میں ایک بات قابل غور ہے۔دراصل نوٹیفکیشن میں کہا گیا ہے کہ جو لوگ اس کے جاری ہونے کے 15 دنوں کے اندر حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہتے ہیں ان کو فوجداری  کے الزامات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

جانکاری کے مطابق، ایک ماہ کے اندر کم از کم 50 مقدمات پہلے ہی ان آجروں (مالکوں)کے خلاف درج کیے جا چکے ہیں جو مبینہ طور پر اس حکم کی تعمیل کرنے میں ناکام رہے ہیں۔

یہی نہیں، موربی کے ایڈیشنل کلکٹر کی طرف سے جاری کردہ نوٹیفکیشن– پولیس کمشنر کی طرف سے ضلع کلکٹر کو لکھے گئے ایک خط کے بعد –  اس حکم کو پاس کرنے کی جامع وجوہات کا حوالہ دیتا ہے۔

یہ آرڈر گجراتی زبان میں جاری کیا گیا ہے، جس میں لکھا ہے؛

‘لوٹ،  ڈکیتی، قتل اور اغوا جیسے جرائم کی تاریخ کے بارے میں تفتیش کرتے ہوئےموربی  کے پولیس کمشنر نے پایا ہے کہ اکثر  یہ تارکین وطن مزدور ہوتے ہیں جو زرعی مزدور، فیکٹری ورکرز، ہیروں کی فیکٹریوں میں کام کرنے والے اور تعمیراتی مزدور کے طور پر کام کرتے  ہیں… جو ایسے جرائم کرتے ہیں اور بھاگ جاتے ہیں۔

تاہم، ضلع انتظامیہ کی طرف سےان  مزدوروں کے تئیں اپنے مشتبہ نقطہ نظر کی حمایت میں کوئی ڈیٹانہیں دیا گیا ہے۔

موربی ضلع کے پولیس سپرنٹنڈنٹ راہل ترپاٹھی نے تصدیق کی ہے کہ ان کے محکمے نے نوٹیفکیشن میں کیے گئے دعوےکی تائید کے لیے کوئی ڈیٹا اکٹھا نہیں کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ الفاظ مجوزہ  ہیں اور یہ نوٹیفکیشن پولیس کو ‘امن و امان’ برقرار رکھنے میں مدد کے لیے جاری کیا گیا تھا۔

‘ایک خطرہ’

ترپاٹھی نے تصدیق کی کہ اب تک درج ایف آئی آر تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 188 کے تحت ‘ایک سرکاری ملازم کے ذریعے جاری کردہ حکم کی نافرمانی’ کے تحت درج کی گئی ہیں۔

نوٹیفکیشن میں مزید دعویٰ کیا گیا ہے کہ بہت سے تارکین وطن کارکن اپنے گھرمیں مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے بعد موربی آتے ہیں اور موربی کو اپنی پناہ گاہ سمجھتے ہیں۔

آرڈر میں لکھا ہے، لوگوں کے درمیان امن و سلامتی کو برقرار رکھنے کے لیے (ضلع موربی میں) پولیس کمشنر نے سی آر پی سی کی دفعہ 144 کے تحت 7/02/2023 کو درج ذیل حکم جاری کیا ہے۔

The Morbi admin’s notif… by The Wire

نوٹیفکیشن کارخانوں، مینوفیکچرنگ بزنس، میٹل فاؤنڈری کے کاروبار، ہیروں کے کاروبار، زراعت اور دیگر کاروباروں کے تمام پرائیویٹ مالکان اور منیجروں کواس نوٹیفکیشن کے جاری ہونے کے 15 دنوں کے اندر متعلقہ  پولیس تھانے میں آرڈر کے مطابق اپنے یہاں  کام کرنے والے تارکین وطن کارکنوں کی تفصیلات جمع کرانے کی  ہدایات دیتا ہے۔

مزدوروں سے مانگی گئی تفصیلات میں ان کے جسموں پر بنے  شناختی نشانات بھی شامل ہیں۔ آرڈر میں کارکنوں سے ان کے کم از کم تین رشتہ داروں کی تفصیلات بھی مانگی گئی ہیں، جس میں  ان کے پورے نام، پتے اور ٹیلی فون نمبر (بشمول گاؤں میں  رہنے والے) شامل ہیں۔

آئی آئی ٹی بامبے کے اشانک دیسائی سینٹر فار پالیسی اسٹڈیز میں اسسٹنٹ پروفیسر راہل ایس سپکال نےاس مشق کوتارکین وطن کمیونٹی کوایک  ‘خطرہ’ کے طور پر دیکھنے اور ان کی ‘قریب سے نگرانی’ کرنے کی ضرورت  کو ‘نوآبادیاتی ذہنیت’ بتایا ہے۔

سپکال کے جائزے کو بنیادفراہم کرتے ہوئے ادھیکار منچ کے سکریٹری رمیش سریواستو بتاتے ہیں کہ موربی کے مہاجر مزدور زیادہ تر پڑوسی ریاستوں- راجستھان، مدھیہ پردیش اور مہاراشٹر کی قبائلی برادریوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو کام کی تلاش میں گجرات آتے ہیں۔

درحقیقت، ‘بین ریاستی مائیگرنٹ ورکمین ایکٹ 1979’ یہ لازمی بناتا ہے کہ تارکین وطن کارکنوں کو ان کے آبائی ضلع میں رجسٹر کیا جائے اور آجر محکمہ محنت کو ‘این او سی’ دیں۔ نقل مکانی کرنے والی آبادی کا ڈیٹا اکٹھا کرنا ایک عام عمل ہے لیکن اسے فلاحی نقطہ نظر سے لیبر ڈیپارٹمنٹ کو کرنا پڑتا ہے۔

تاہم، سپکال کا کہنا ہے کہ یہ قانونی طور پر لازمی عمل شاذ و نادر ہی نافذ کیا جاتا ہے۔ موربی پولیس کے کردار کو غیر قانونی اور غیر آئینی قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ بغیر سوچے سمجھے یہ حکم پوری مہاجر برادری کو مجرم بناتا ہے۔

وہ پوچھتے ہیں،پولیس کس قانونی شق کے تحت ایسے ڈیٹا کا مطالبہ کر رہی ہے؟

بتادیں کہ اس وقت نیشنل ہیومن رائٹس کمیشن کے ایک پروجیکٹ سے وابستہ سپکال گزشتہ کئی سالوں سے ہندوستان بھر میں مزدوری کی خلاف ورزیوں کی باریک بینی سے تحقیقات کر رہے ہیں۔

موربی پل حادثے کے بعد انتظامیہ کنٹرول  کومضبوط کرنا چاہتی ہے

بہت زیادہ تارکین وطن کی آبادی والا صنعتی شہر موربی آخری بار گزشتہ سال شہر میں ایک پرانے پل کے گرنے کے بعد سرخیوں میں آیا تھا، جس میں 135 سے زیادہ افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ اس کے بعد کی تحقیقات میں کئی کوتاہیوں کا انکشاف ہوا اور متعدد  خلاف ورزی کی صورت میں بڑے پیمانے پرمہاجر مزدوروں کوروزگار دینے  کا انکشاف ہوا۔

سریواستو کا خیال ہے کہ حالیہ نوٹیفکیشن پل کے گرنے کا واضح نتیجہ ہے۔ وہ کہتے ہیں،ضلع انتظامیہ کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا اور اس کے نتیجے میں اب وہ اس  خطے کے سب سے زیادہ کمزور لوگوں پر اپنا کنٹرول مضبوط کرنا چاہتی ہے۔

سریواستوسورت میں ایک فیکٹری کے مالک سمیت تین لوگوں کے قتل کے ایک حالیہ کیس کا ذکر کرتے ہوئے ( جسے مبینہ طور پر اڑیسہ کے دو مزدوروں نے انجام دیا تھا) کہتے ہیں،اگرچہ اس واقعے کی مذمت کی جانی چاہیے، لیکن اس گھناؤنے فعل کے پیچھے کی وجوہات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔ مزدوروں نے مبینہ طور پر یہ انتہائی قدم اس لیے اٹھایا تھا کہ انہیں ان کی واجب الادا اجرت سے انکار کیا گیا تھا۔

جب دی وائر نے نوٹیفکیشن کے پریشان کن حصوں کی نشاندہی کی تو ایس پی ترپاٹھی نے کہا کہ یہ کلکٹر کے دفتر سے جاری کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ انتظامیہ کا مقصد تارکین وطن کمیونٹی  کو مجرم بنانا نہیں ہے۔

ترپاٹھی نے کہا، میں اس پر غور کروں گا اور اگر ضرورت پڑی تو میں اس نوٹیفکیشن کے الفاظ میں تبدیلی بھی کروں گا۔

لیکن سپکال کا کہنا ہے کہ اس طرح کے احکامات کی منشا کوئی معنی نہیں رکھتی  اور اسے کسی بھی طرح جائز قرار نہیں دیا جا سکتا اور نہ ہی ہونا چاہیے۔

وہ کہتے ہیں،جس لمحے آپ غیر آئینی قوانین کے نفاذ کو صحیح ٹھہرانا شروع کرتے ہیں، آپ اس طرح کی مشق کو معمول بنا رہے ہیں۔ اگر اس پر سوال نہیں اٹھایا جاتا ہے، تو جلد ہی دوسرے اضلاع اور ریاستیں (نوٹیفکیشن) اس کو اختیار کریں گے۔

(اس  رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)