خبریں

راہل گاندھی کی رکنیت کا معاملہ: کیا مودی حکومت کے غصے کی وجہ اڈانی کا ذکر ہے؟

سات  فروری کو پارلیامنٹ میں اڈانی-مودی تعلقات پر راہل گاندھی کی تقریر کے بعد سے کانگریس لیڈروں کے خلاف کارروائیوں کا ایک سلسلہ نظر آ تا ہے۔ اب کانگریس کا کہنا ہے کہ سورت کی عدالت کے  فیصلے کا رشتہ  بھی راہل گاندھی کی مذکورہ تقریر سے ہے۔

بجٹ اجلاس کے دوران لوک سبھا میں گوتم اڈانی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر دکھا تے ہوئے راہل گاندھی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

بجٹ اجلاس کے دوران لوک سبھا میں گوتم اڈانی کے ساتھ وزیر اعظم نریندر مودی کی تصویر دکھا تے ہوئے راہل گاندھی۔ (تصویر: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: جمعہ کی دوپہر کو کانگریس کے جنرل سکریٹری جئے رام رمیش نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ‘7 فروری کو لوک سبھا میں اڈانی کے بارے میں راہل گاندھی کی تقریر کے 9 دن بعد 16 فروری کو ان کے خلاف ہتک عزت کا مقدمہ شکایت کرنے والے کی طرف سے اپنا اسٹے واپس لینے کی وجہ سے تیز ہوجاتا ہے۔27 فروری کو ایک سال بعد دوبارہ بحث شروع ہوئی۔ 17 مارچ کو فیصلہ محفوظ۔ کیایہ محض اتفاق ہے؟

رپورٹ کے مطابق کانگریس نے الزام لگایا ہے کہ راہل گاندھی کے خلاف سورت  میں درج معاملے میں شکایت کنندہ کی طرف سے سماعت پر روک لگوانے کے بعد دوبارہ سماعت  شروع کروانے کے درمیان اتفاق نہیں ہے، لیکن کوئی اور وجہ بھی ہے۔ عام طور پر مدعا علیہ کسی مقدمے میں ایسا کرتا ہے۔

قابل ذکر ہے کہ مذکورہ معاملہ 16 اپریل 2019 کو درج کیا گیا تھا اور 24 جون 2021 کو راہل گاندھی اپنا بیان ریکارڈ کرانے کے لیے سورت کے اس وقت کے سی جے ایم اے این دوےکے سامنےشخصی طور پر پیش ہوئے تھے۔ یہ مقدمہ گجرات کے ایک کابینہ وزیر اور سورت ویسٹ سے تین بار کے ایم ایل اے  کی جانب سے دائر کیا گیا تھا۔ مارچ 2022 میں جب راہل گاندھی کو پھر سے بلانے کی شکایت کنندہ کی درخواست کو سی جے ایم، جنہوں  نے فوری طور پر بحث شروع کرنے پر زور دیا تھا، کے ذریعےخارج  کر دیا گیا تھا۔ اس کے بعد شکایت کنندہ فوری طور پر ہائی کورٹ پہنچے اور سماعت پر روک لگانے کا مطالبہ کیا، جس کی اجازت 7 مارچ 2022 کو دے دی گئی۔

غورطلب ہے کہ 11 ماہ کے وقفے کے بعد، شکایت کنندہ نے 16 فروری 2023 کو دوبارہ ہائی کورٹ سے رجوع کیا، اور دلیل دی کہ ‘ٹرائل کورٹ کے ریکارڈ پر کافی شواہد آچکے ہیں اور موجودہ کیس کے التوا ہونے کی وجہ سے ٹرائل میں تاخیر ہو رہی ہے’۔ تاہم، روک کے بعد سےکوئی نیا ثبوت ریکارڈ میں نہیں آیا تھا اور یہ معاملہ ‘زیر التوا’ بھی پوری طرح سے ان کے کہنے پر تھا۔ لیکن ایک بار پھر شکایت کنندہ کی بات مان لی گئی ۔

شکایت کنندہ پرنیش مودی کی طرف سے اس کیس کو، جسے انہوں نے خود ایک سال کے لیے روک رکھا تھا، پھر سے شروع کرنے کا فیصلہ  راہل گاندھی کے پارلیامنٹ میں نریندر مودی کے کاروباری اور گزشتہ کچھ وقتوں سے دھوکہ دہی اور ہیرا پھیری کے الزامات کا سامنا کر رہے گوتم اڈانی تعلقات کے بارے میں بولنے کے بہ مشکل ایک ہفتہ بعد سامنے لیا گیا۔

ایسا لگتا ہے کہ 7 فروری کو لوک سبھا میں راہل گاندھی کی تقریر کی وجہ سے سورت سے بہت دور پارلیامنٹ میں بھی کئی  کام بہت تیزی سے ہوئے ۔ 8 فروری کو اسپیکر اوم بڑلا کےکہنے پر اڈانی گروپ سے وزیر اعظم کےرشتے کے بارے میں راہل گاندھی کی تقریر کے کچھ حصے کو پارلیامانی ریکارڈ سے حذف کر دیاگیا۔ ریکارڈ سے کل 18 ٹکڑے ہٹا ئے گئے تھے۔

تقریر کے اختتام پر بڑلا اور گاندھی کے درمیان کی بات چیت، جب اسپیکر بڑلا نے گاندھی سے کہا کہ وہ اس تبصرہ کرنے سے گریز کریں کہ اگر کوئی اپوزیشن ممبر مرکزی حکومت کی  تنقید کرتا ہے  تو مائیکروفون کو میوٹ کر دیا جاتا ہے۔ گاندھی نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ حقیقت یہ ہے کہ اس سے قبل بھی جب اپوزیشن نے مرکزی حکومت کی ناکامیوں کی نشاندہی کرنے کی کوشش کی تھی تو مائیک کو میوٹ کردیا گیا تھا۔

دس فروری کو کانگریس ایم پی رجنی پاٹل کو ایوان کی کارروائی کو مبینہ طور پر ریکارڈ کرنے کے الزام میں موجودہ سیشن کے لیے راجیہ سبھا سے معطل کر دیا گیا تھا۔ یہ اس وقت ہوا جب اپوزیشن نے ایوان کے ویل میں ‘مودی-اڈانی بھائی بھائی’ کے نعرے لگائے۔ پاٹل نے جو کلپ اپلوڈ کیا تھا ، اس میں  اپوزیشن کے ممبران پارلیامنٹ کے چلانے  کی تصویریں شیئر کی گئی تھیں، جنہیں سنسد ٹی وی نے نہیں دکھایا تھا۔

ایک متنازعہ قدم اٹھاتے ہوئےراجیہ سبھا کے چیئرمین نے استحقاق کی کمیٹی سے کہا کہ وہ 12 اپوزیشن اراکین پارلیامنٹ کے ‘بد سلوکی’ کی تحقیقات کرے۔ راجیہ سبھا کے بلیٹن کے مطابق،اس میں نو ممبر کانگریس سے اور تین عام آدمی پارٹی سے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی کے خلاف مبینہ طور پر قابل اعتراض الفاظ استعمال کرنے کے الزام میں درج  ایک ایف آئی آر کے سلسلے میں آسام پولیس نے کانگریس کے سینئر لیڈر پون کھیڑا کو گرفتار کیا۔ گوتم اڈانی کے معاملے کی جے پی سی انکوائری کے کانگریس کے مطالبے پر صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کھیڑا نے وزیر اعظم نریندر مودی کے والد کا  نام غلط طریقے سے لیا تھا۔ انہوں نے ‘نریندر دامودر داس’ کے بجائے ‘نریندر گوتم داس’ کہا تھا۔ اس کے بعد انہوں نے فوراً معافی مانگی اور اپنی غلطی سدھار لی۔ لیکن فروری کے آخری ہفتے میں کانگریس کے قومی کنونشن کے لیے رائے پور جانے والے رہنماؤں کے سفر کے آغاز میں ہی نئی دہلی کے ہوائی اڈے کو چھاؤنی میں تبدیل کر دیا گیا اور سیکورٹی اہلکارکھیڑا کو پرواز سے اتار کر لے گئے۔ بعد ازاں اسی شام انہیں سپریم کورٹ سے عبوری ضمانت ملی اور رہا کر دیا گیا۔

کانگریس نے مارچ میں الزام لگایا تھا کہ اڈانی تنازعہ پر بحث کی اجازت نہ دینے اور اڈانی گروپ کے خلاف الزامات کی تحقیقات کے لیے جے پی سی قائم نہ کرنے پر حکومت کے خلاف احتجاج کی آوازوں کو خاموش کرنے کے لیے پارلیامنٹ میں آڈیو کو میوٹ کر دیا گیا تھا۔ حکمراں بی جے پی کا کہنا تھا کہ آڈیو ‘تکنیکی خرابی’ کی وجہ سے غائب ہو گیا تھا۔

دریں اثنا، 22 مارچ کو، کانگریس نے وزیر اعظم نریندر مودی سے پوچھے گئے اپنے 100 ویں سوال کے ساتھ ‘ہم اڈانی کے ہیں کون’ سیریز مکمل کر لی ہے۔ انہوں نے پوچھا تھا- کیا سیبی ، ای ڈی ، کارپوریٹ امور کی وزارت اور سی بی آئی  اڈانی گروپ کے خلاف کارروائی کریں گے؟ لیکن پارلیامنٹ کو ٹریژری بنچ نے کبھی چلنے نہیں  دیا، اس لیے پارلیامنٹ میں اس بارے میں کچھ نہیں کہا جا سکا۔

راہل گاندھی کو ایوان میں بولنے کی اجازت نہیں دی گئی، انہوں نے لوک سبھا کے اسپیکر کو دو بار  خط لکھا جس میں کہا گیا تھا کہ رکن پارلیامنٹ کی حیثیت سےانہیں جواب دینےاور سننے  کے ان ے حق سے محروم کیا جا رہا ہے۔

یہ ثابت کرنا مشکل ہے کہ راہل گاندھی کو لوک سبھا سے نااہل قرار دیے جانے  کا براہ راست تعلق  اڈانی معاملے سے ہے، لیکن واقعات کی ترتیب اس طرح کے  امکان اور خدشات  کے بارے میں سوال  ضرورقائم  کرتی ہے۔