خبریں

مرکز کے پاس ہندوستانیوں کی آف شور شیل کمپنیوں کا کوئی ڈیٹا نہیں، جبکہ 2017 سے ٹاسک فورس فعال ہے

مرکز نے راجیہ سبھا کو بتایا ہے کہ اس کے پاس ‘شیل کمپنیوں’ کے بارے میں کوئی معلومات نہیں ہے، جبکہ حکومت نے 2018 اور 2021 کے درمیان 238223 شیل کمپنیوں کی نشاندہی کی تھی اور  2017 میں ایک ٹاسک فورس بھی تشکیل دی تھی۔ عام طور پر ٹیکس چوری سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث کمپنیوں کو’شیل کمپنی’ کہا جاتا ہے۔

(تصویر بہ شکریہ: rajyasabha.nic.in)

(تصویر بہ شکریہ: rajyasabha.nic.in)

نئی دہلی: مودی حکومت راجیہ سبھا میں ‘شیل کمپنیوں’ کے بارے میں کوئی بھی معلومات شیئر نہ کرنے پر تنقید کی زد میں ہے، کیونکہ یہ کہنے کے باوجود کہ ان کے پاس کوئی معلومات نہیں ہے، حکومت نے  2018-2021 کے درمیان 238223 کمپنیوں کو شیل کمپنیوں کے طور پر نشاندہی کی تھی۔

کارپوریٹ امور کے مرکزی وزیر مملکت راؤ اندرجیت سنگھ نے 27 جولائی 2021 کو راجیہ سبھا میں ایک سوال کے تحریری جواب میں یہ بات کہی تھی۔

ایم پی مہوا مترا نے اس کی نشاندہی کی اور کہا کہ یہ عجیب بات ہے کہ ، حکومت نے 2018 سے 2021 کے درمیان 238223 شیل کمپنیوں کی نشاندہی کی، وہ بھی قانون میں کسی  مخصوص تعریف کے بغیر۔

اپنی پریس ریلیز میں کارپوریٹ امور کی وزارت نے کہا تھا، کمپنی ایکٹ میں ‘شیل کمپنی’ کی اپنی کوئی تعریف نہیں کی گئی ہے اور عام طور پر اس سے مراد ایسی کمپنی ہے جو فعال کاروبار میں نہیں ہے یا اس کے پاس خاطر خواہ اثاثے نہیں ہیں، جن کا استعمال  کچھ معاملات میں ٹیکس چوری، منی لانڈرنگ، غیر واضح ملکیت، بے نامی اثاثے وغیرہ جیسے غیر قانونی مقاصد کے لیے کیا جاتا ہے۔

مرکزی حکومت نے اب پارلیامنٹ کو بتایا ہے کہ اس کے پاس ہندوستانیوں کے آف شور اکاؤنٹس کا کوئی ڈیٹا نہیں ہے۔ سی پی آئی (ایم) کے رکن پارلیامنٹ جان برٹاس کے ایک سوال کے جواب میں یہ انکشاف اس وقت ہوا جب راہل گاندھی نے دعویٰ کیا کہ اڈانی کی ‘شیل کمپنیوں’ میں 20000 کروڑ روپے’اچانک آ گئے تھے۔’

دی ٹیلی گراف کے مطابق، 21 مارچ کو ایک تحریری جواب میں حکومت نے کہا کہ ،’ ہندوستانی شہریوں کی ‘حتمی منافع بخش  ملکیت’ والی آف شور شیل کمپنیوں کے بارے میں  ڈیٹا/تفصیلات دستیاب نہیں ہیں۔’

اخبار نے لکھا، ‘جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا حکومت نے ہندوستانی شہریوں کی ملکیت والی آف شور شیل کمپنیوں کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے کام کیا ہے، تو حکومت نے کہا کہ ایسی کارروائی کا ‘کوئی سوال ہی ‘ پیدا  نہیں ہوتا ہے، کیونکہ ‘آف شور شیل کمپنی کی وزارت خزانہ کے ایکٹ میں وضاحت نہیں کی گئی ہے۔

برٹاس نے اپنے سوال میں پوچھا تھا؛

 آف شور شیل کمپنیوں کی تفصیلات جن کی الٹیمیٹ بینیفیشل اونرشپ (یو بی او) ہندوستانی شہریوں کے پاس ہے۔

ٹیکس–ہیون ممالک میں شامل آف شور کمپنیوں میں ہندوستانی شہریوں کے یو بی او کی تفصیلات جمع کرنے کے لیے حکومت کی طرف سے اب تک کی گئی کارروائی کی تفصیلات۔

ان ہندوستانی شہریوں کے خلاف  کی گئی کارروائی کی صورتحال جن کے نام پنامہ پیپر، پنڈورا پیپر، پیراڈائز پیپر اور اس طرح کے دیگر لیکس کے ذریعے سامنے آئے تھے۔

ان غیر ملکی حکومتوں کی تفصیلات جنہوں نے مرکزی حکومت کے ساتھ ہندوستانی شہریوں کے آف شور لین دین کا اشتراک کرنے کی پیشکش کی ہے۔

اس کی تفصیلات اور اس پر کی گئی کارروائی۔

حکومت نے کہا کہ اس کے پاس اس سوال پر کوئی ڈیٹا نہیں ہے اور یہ بھی نہیں بتایا کہ پانامہ پیپرز، پیراڈائز پیپرز، پنڈورا پیپرز اور دیگر لیک شدہ دستاویزات میں کتنے ہندوستانیوں کے نام تھے۔

اس کے بجائے غیر واضح الفاظ میں بات بولتے ہوئے وزیر مملکت برائے خزانہ پنکج چودھری نے کہا کہ 31 دسمبر 2022 تک پانامہ اور پیراڈائز پیپرز لیک معاملوں میں 13800 کروڑ روپے سے زیادہ کی غیراعلانیہ  آمدنی کو ٹیکس کے دائرے میں لایا گیا ہے، اور ‘پنڈورا پیپرز لیک’ میں 250 سے زیادہ ہندوستان سے متعلق تنظیموں کی نشاندہی کی گئی ہے۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ ،ایچ ایس بی سی کے معاملات میں غیر ملکی بینک کھاتوں میں جمع کیے گئے غیر رپورٹ شدہ ڈپازٹس کی وجہ سے 8468 کروڑ روپے سے زیادہ کی غیر اعلانیہ آمدنی کو ٹیکس کے دائرے میں لایا گیا ہے اور 1294 کروڑ روپے سے زیادہ کا جرمانہ عائد کیا گیا ہے، لیکن یہ نہیں بتایا کہ سزا کس کو  دی گئی۔

جواب میں مزید لکھا گیا کہ 31 دسمبر 2022 تک بلیک منی (غیر اعلانیہ غیر ملکی آمدنی اور اثاثہ جات) اور امپوزیشن آف ٹیکس ایکٹ 2015 کے تحت ٹیکس اسیسمنٹ مکمل ہو چکی ہے جس کی وجہ سے 15664 کروڑ روپے سے زیادہ کا ٹیکس اضافہ ہوا ہے۔

تاہم، حکومت نے اب کہا ہے کہ اس کے پاس ہندوستانی شہریوں کی ملکیت والی آف شور شیل کمپنیوں کی تفصیلات نہیں ہیں، لیکن اس نے فروری 2017 میں ایسی کمپنیوں کی نشاندہی کرنے کے لیے ایک ٹاسک فورس قائم کی تھی جو ٹیکس چوری سمیت غیر قانونی سرگرمیوں میں ملوث  کمپنیوں جنہیں  عام طور پر ‘شیل کمپنیوں’ کے طور پر جانا جاتا ہے ، کی تحقیقات کرنی تھی۔

جون 2018 میں وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ ٹاسک فورس کی آٹھ بار میٹنگ ہوئی ہے اور اس نے’شیل کمپنیوں کے خطرے کو روکنے کے لیے فعال اور مربوط اقدامات کیے ہیں۔’

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔