فکر و نظر

ہندوستان بھر میں 25 ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں دو میں سے تقریباً ایک عہدہ خالی: رپورٹ

انڈیا جسٹس رپورٹ 2022 میں کہا گیا ہے کہ ہندوستان کے 25 ریاستی انسانی حقوق کمیشن میں سےاکثر میں معاملوں کی تحقیقات کے لیے عملہ تک  نہیں ہے، جس سے انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور ان کاازالہ کرنے کی صلاحیت بری طرح  سے متاثر ہوتی ہے۔

Women-Illustration-Pariplab-Chakraborty

نئی دہلی: قومی انسانی حقوق کمیشن کے خطوط پرہندوستان بھر میں 25 ریاستی انسانی حقوق کمیشن قائم کیے گئے ہیں۔ تاہم، انڈیا جسٹس رپورٹ (آئی جے آر) 2022 میں ان ریاستی کمیشنوں میں انسانی وسائل کے شدیدبحران کی  تفصیلات فراہم  کرتی ہے- اس میں بتایا گیا ہے کہ یہ کمیشن ان کو تفویض کردہ کام کو انجام دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔

قومی انسانی حقوق کمیشن 1993 میں انسانی حقوق کے تحفظ کے ایکٹ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔اس عرصے  میں 25 ریاستی انسانی حقوق کمیشن (ایس ایچ آر سی) بھی قائم کیے گئے ہیں۔ ان نیم عدالتی اداروں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے متعلق شکایات کا جواب دینے اور جب انہیں یقین ہو کہ حقوق کی خلاف ورزی ہو رہی ہے تو اپنی تحقیقات کرنے کا کام دیا گیا ہے۔ وہ انسانی حقوق کے مسائل پر تحقیقی اور بیداری کی سرگرمیاں بھی کر سکتے ہیں۔

ریاستی انسانی حقوق کمیشن کی سربراہی عام طور پر ہائی کورٹ کے سابق جج یا چیف جسٹس کرتے ہیں۔ اس کے دو اضافی ارکان بھی ہوتے  ہیں – ایک ہائی کورٹ یا ڈسٹرکٹ کورٹ کا جج، اور انسانی حقوق میں مہارت رکھنے والا کوئی شخص۔ ایس ایچ آر سی کے پاس انتظامی اور مالیاتی کام کو سنبھالنے کے لیے ایک سکریٹری بھی ہونا چاہیے۔

ان اداروں پر تنقید میں سے ایک یہ بھی رہی ہے کہ ان کی سفارشات لازمی نہیں ہیں – جس کا مطلب ہے کہ انھیں اکثر اتنی سنجیدگی سے نہیں لیا جاتا جتنا  کہ انھیں شاید لیا جانا چاہیے۔

جبکہ ایس ایچ آر سی کی ضرورت کاغذ پر اچھی لگتی ہے،لیکن آئی جے آر نے پایا ہے کہ زیادہ ترایس ایچ آر سی مطلوبہ افرادی قوت (ملازمین) سے کافی کم کی صلاحیت کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ 2020-21 میں، 13 ریاستوں میں ایس ایچ آر سی  عملے میں 25 فیصد سے زیادہ آسامیاں تھیں۔

رپورٹ میں کہا گیا،2022 تک، پنجاب کے علاوہ تمام ایس ایچ آر سی کے پاس چیئرپرسن تھے۔ چھتیس گڑھ، جھارکھنڈ اور منی پور نگراں صدر کے تحت چل رہے تھے اور 6 ریاستوں میں دو میں سے ایک ممبر نہیں تھا۔ اتر پردیش، منی پور اور جھارکھنڈ بغیر کسی ممبر کے کام کر رہے ہیں۔ 2010 میں قائم جھارکھنڈ کمیشن 2018 سے صرف ایک قائم مقام چیئرمین اور سکریٹری کے ساتھ کام کر رہا ہے اور 2001 میں قائم کیا گیا چھتیس گڑھ کمیشن 2020 سے قائم مقام چیئرمین اور ایک رکن کے ساتھ کام کر رہا ہے۔ چھتیس گڑھ، مہاراشٹر، تلنگانہ اور مغربی بنگال کمیشن نے سکریٹریز/سی ای او کے بغیر کام کیا۔

ماخذ: آئی جے آر  2022

ماخذ: آئی جے آر  2022

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ تفتیشی عملے کی کمی بھی ایس ایچ آر سی  کی مبینہ حقوق کی خلاف ورزیوں کی تحقیقات اور حل تلاش کرنے کی صلاحیت میں شدید رکاوٹ ہے۔ ریاستی انسانی حقوق کمیشن کا اپنا تفتیشی عملہ نہیں ہے، اور اس لیے حکومت کے دوسرے محکموں سے حاصل کیے گئے عملے پر انحصار کرتے ہیں۔

آئی جے آر کے مطابق، ‘منظور شدہ تفتیشی عملے کی تعدادہرریاست میں مختلف ہے۔ ہماچل پردیش، راجستھان اور اتراکھنڈ کے علاوہ تمام ریاستوں میں اس کی کمی درج کی گئی ہے۔ 2022 میں 11 کمیشنوں میں تفتیشی عملے کی تعداد ایک سے پانچ کے درمیان رہی۔ آسام، جھارکھنڈ، منی پور اور سکم کمیشن نے کوئی تفتیشی عملہ نہیں ہونے کی اطلاع دی۔

رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طویل عرصے سے خالی آسامیاں اور تفتیشی عملے کی کمی  کی وجہ سےکمیشنوں میں شکایات کوشاید ہی کبھی وقت پر نمٹایا جاتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے، صرف 2020-21 میں، تمام ایس ایچ آر سی میں 102608 شکایات تھیں۔ آٹھ ایس ایچ آر سی نے موصول ہونے والی 60 فیصد سے کم شکایات کا ازالہ کیا،  جن میں میگھالیہ (28 فیصد) نے سب سے کم شکایات کا ازالہ کیا۔ اس کے بعد مہاراشٹر (29 فیصد)، راجستھان (30 فیصد) اور اڑیسہ (48 فیصد) کا نمبر آتا ہے۔ بہار (99 فیصد) اور چھتیس گڑھ (94 فیصد) نے اس کے پاس آنے والے تقریباً تمام معاملات کو نمٹا دیا۔ 21-2020 کے آخر تک کل 33312 کیسز غیر حل شدہ رہے۔

ماخذ: آئی جے آر

ماخذ: آئی جے آر

تاہم، یہ جاننا بھی آسان نہیں ہے کہ ایس ایچ آر سی کیا کر رہے ہیں کیونکہ ان کی ویب سائٹ کو قومی انسانی حقوق کمیشن کی طرح باقاعدگی سے اپ ڈیٹ نہیں کیا جاتا ہے۔ چار ریاستی کمیشنوں کے پاس  توویب سائٹ ہی نہیں ہیں۔

آئی جے آر کے مطابق، ‘اتراکھنڈ کے علاوہ کسی بھی ریاست نے اپنے شہریوں کو مکمل خدمات فراہم نہیں کیں۔ صرف 11 کمیشنوں نے شہریوں کو شکایات درج کرنے کے لیے رہنما خطوط فراہم کیے، جبکہ صرف 6 کمیشنوں نے اپنی ویب سائٹ پر شکایات کے فیصلے باقاعدگی سے اپ لوڈ کیے ہیں۔’ مزید برآں، ان میں سے زیادہ تر ویب سائٹ صرف انگریزی میں دستیاب تھیں ہندی اور  مقامی زبانوں میں نہیں۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)