خبریں

مہاتما گاندھی کی پہچان اور وراثت نے بی جے پی-آر ایس ایس کو ہمیشہ پریشان کیا ہے: تشار گاندھی

این سی ای آر ٹی نے مہاتما گاندھی، ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے اور آر ایس ایس پر 1948 میں لگی  پابندی سے متعلق مواد کوبارہویں جماعت کی سیاسیات اور تاریخ کی کتابوں سے ہٹا دیا ہے۔ اس پر مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے کہا کہ کتابوں سے اس طرح کے مواد کو ہٹانے سے ‘سنگھ پریوار کی غلط معلومات کی مہم’ کو مزید قبولیت ملے گی۔

تشار گاندھی۔ (تصویر: یوٹیوب ویڈیو گریب)

تشار گاندھی۔ (تصویر: یوٹیوب ویڈیو گریب)

نئی دہلی: مہاتما گاندھی کے پڑپوتے تشار گاندھی نے کہا ہے کہ گاندھی جی کی ‘اصلی پہچان  اور وراثت ‘ نے بی جے پی-آر ایس ایس کو ہمیشہ پریشان کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہ این سی ای آر ٹی کی نصابی کتاب سے مواد کو ہٹائے جانے پر حیران نہیں ہیں، لیکن اندیشہ ہے کہ ایسی مزید کوششیں کی جائیں گی۔

گزشتہ بدھ کو انڈین ایکسپریس سے بات کرتے ہوئے تشار گاندھی نے کہا کہ نصابی کتابوں سے مواد کو ہٹانے سے ‘سنگھ پریوار کی غلط معلومات کی مہم’ کو مزید قبولیت ملے گی۔

غور طلب  ہے کہ این سی ای آر ٹی نے گاندھی، ان کے قاتل ناتھورام گوڈسے اور آر ایس ایس پر 1948 میں لگی  پابندی سے متعلق مواد کو 12ویں جماعت کی سیاسیات اور تاریخ کی نصابی کتابوں سے ہٹا دیا ہے۔

یہ نصابی کتابیں پورے ہندوستان میں سی بی ایس ای سے منسلک اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہیں۔ بہت سے ریاستی بورڈ بھی این سی ای آر ٹی  کے نصاب کی پیروی کرتے ہیں۔

اس قواعدنے اپوزیشن پارٹیوں کے درمیان ناراضگی پیدا کر دی  ہے، جنہوں نے مرکز پر الزام لگایا ہے کہ وہ اس تاریخ کو مٹانے کی کوشش کر رہا ہے، جس سے بی جے پی کو تکلیف ہوتی ہے۔

تشار گاندھی نے اس سلسلے میں کہا، ‘میں سنگھ پریوار کی جانب سے تاریخ کو مٹانے کی اس کوشش سے حیران نہیں ہوں۔ انہوں نے تاریخ کو دوبارہ لکھنے اور قائم شدہ تاریخ کو بدنام کرنے کے اپنے ارادے کو کبھی خفیہ نہیں رکھا۔

انہوں نے مزید کہا، یہ دو مقاصد کو پورا کرتا ہے –  وہ ان کو راس آنے والی تاریخ کا ایک سہل ایڈیشن  لکھ پاتے ہیں اور وہ گاندھی کو اس رنگ میں رنگ  سکتے ہیں جس میں وہ انہیں دیکھنا چاہتے ہیں۔ موہن داس کرم چند گاندھی کی اصل پہچان اور وراثت نے انہیں ہمیشہ پریشان کیا ہے۔

تشار کا کہنا ہے کہ بی جے پی-آر ایس ایس گاندھی کی وراثت سے اس حد تک پریشان تھی کہ اس نے ‘ اسی لمحے تاریخ کے ریکارڈ سے چھیڑ چھاڑ کرنے کا فیصلہ کیا، جس لمحے اس کو یہ صلاحیت حاصل ہوئی’۔

انہوں نے کہا، تب ان کے پاس ایک آنے والی نسل ہوگی، جس کے پاس حقیقی تعلیم اور معلومات تک رسائی حاصل نہیں ہوگی اور ان کے لیے اپنی (آر ایس ایس– بی جے پی)  غلط معلومات کی مہم کو قبول کروانا آسان ہوگا۔یہ شروع سے ہی ان کی برین واشنگ کا ورژن ہے۔ پہلے کے تسلیم شدہ خیالات پر قابو پانے کے بجائے، وہ تخلیقی ذہنوں میں جھوٹ کو قائم  کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تشار نے کہا کہ مہاتما کا جو ورژن آر ایس ایس کے موافق ہے،  وہ ہے جہاں مہاتما سناتنی ہندو کی تعریف کے بغیر صرف ایک سناانی ہندو ہیں جن کو وہ (آر ایس ایس) رام راجیہ کی تعریف پیش کیے بغیر آسانی سے رام راجیہ کے عقیدت مندکے طور پر دکھا سکتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘وہ ہمیشہ سے اس طرح کے گاندھی کو اپنانا چاہتے تھے۔ ان کے لیے اس گاندھی کے ساتھ رہنا بہت آسان ہو جائے گا… آر ایس ایس ہمیشہ سے منافق رہا ہے۔ کم از کم ہندو مہاسبھا کے ساتھ ہم جانتے ہیں کہ وہ کہاں کھڑے ہیں، آر ایس ایس ہمیشہ چھلاوہ کرتا ہے۔ وہ چیزیں کرواتے ہیں اور ان کے پاس اپنے لیے فرار کا راستہ ہوتا ہے۔ اس لیے ان کا دوغلا پن حیران کن نہیں۔

غورطلب  ہے کہ حذف کیے گئے اقتباس میں وہ پیراگراف شامل تھے جن میں یہ بتایا گیا تھا کہ گاندھی کو ‘خاص طور پر وہ لوگ ناپسند کرتے تھے جو ہندوؤں سے بدلہ لینا چاہتے تھے یا جو چاہتے تھے کہ ہندوستان ہندوؤں کا ملک بن جائے، جیسا کہ پاکستان مسلمانوں کے لیے بنا تھا،’ ‘کیسے گاندھی کے ہندو مسلم اتحاد کی اپیل ہندو انتہا پسندوں کو ان  کے قتل کی کوشش پر اکسایا’، اور کس طرح ‘ان کے قتل سے فرقہ وارانہ نفرت انگیز تنظیموں کے خلاف کارروائی ہوئی  اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ  پر پابندی لگا دی گئی۔

بارہویں  جماعت کی تاریخ کی نصابی کتاب سے وہ حصہ بھی ہٹایا گیا ہے، جس میں  گاندھی کے قاتل ناتھورام گوڈسے کو پونے کا  برہمن  بتایا گیا تھا،  جو ایک ہندو شدت پسند  اخبار کی ادارت کرتا تھا، جس میں  گاندھی کو ‘مسلمانوں کا اپیزمنٹ’ کرنے والا قرار دیا تھا۔