خبریں

وزارت داخلہ نے آکسفیم انڈیا کے خلاف سی بی آئی انکوائری کی سفارش کی

مرکزی وزارت داخلہ نے فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ 2010 کی مبینہ خلاف ورزیوں کے لیے آکسفیم انڈیا کے کام کاج کی سی بی آئی جانچ کی سفارش کی ہے۔ دعویٰ کیا گیا ہے کہ آکسفیم انڈیا نے مبینہ طور پر کمیشن کی صورت  میں اپنے ساتھیوں اور ملازمین کے توسط سے سی پی آر کو فنڈز بھیجے۔

(فوٹوبہ شکریہ: PTI/oxfamindia.org)

(فوٹوبہ شکریہ: PTI/oxfamindia.org)

نئی دہلی: مرکزی وزارت داخلہ نے فارن کنٹری بیوشن (ریگولیشن) ایکٹ، 2010 کی مبینہ خلاف ورزیوں کے سلسلے میں آکسفیم انڈیا کے کام کاج کی جانچ مرکزی بیورو آف انویسٹی گیشن (سی بی آئی) سے کرنے کی سفارش کی ہے۔ ذرائع نے یہ اطلاع دی۔

رپورٹ کے مطابق، وزارت کا کہنا ہے کہ گزشتہ سال ستمبر میں محکمہ انکم ٹیکس کی طرف سے کرائے گئے ایک سروے میں کئی ای میل پائے گئے، جن سے پتہ چلتا ہے کہ آکسفیم انڈیا دیگر ایف سی آر اے سے رجسٹرڈ تنظیموں کو فنڈز بھیج کر یافار پرافٹ کنسلٹنسی کے ذریعے ایف سی آر اے کی دفعات کومبینہ طور پر نظرانداز کرنے کی منصوبہ بندی کر رہا تھا۔

پی ٹی آئی کے مطابق، یہ بھی دعویٰ کیا گیا ہے کہ آکسفیم انڈیا نے مبینہ طور پر کمیشن کی شکل میں اپنے ساتھیوں اور ملازمین کے توسط سے سینٹر فار پالیسی ریسرچ (سی پی آر) کو فنڈز بھیجے۔

وزارت نے کہا کہ ان نتائج کے بعد وزارت داخلہ نے آکسفیم انڈیا کے معاملات کی سی بی آئی انکوائری کی سفارش کی۔

رپورٹ کے مطابق، آکسفیم انڈیا سمیت ملک میں کام کرنے والی 5933 این جی اوز کے ایف سی آر اے لائسنس کی میعاد یکم جنوری 2022 کو ختم ہوگئی۔ وزارت داخلہ نے لائسنس رد کرنے کی وجہ کے طور پر’منفی ان پٹ ‘ کا حوالہ دیا تھا۔ انسانی حقوق کے فروغ کے لیے کام کرنے والی ایسی بہت سی این جی اوز گزشتہ برسوں میں اپنے ایف سی آر اے لائسنس کھو چکی ہیں۔

سی پی آر کا لائسنس حال ہی میں اس وقت سسپنڈ کر دیا گیا تھا، جب وزارت داخلہ نے دعویٰ کیا تھا کہ تھنک ٹینک ان تعلیمی پروگراموں ،جن کے لیے لائسنس دیا گیا ہے، کےعلاوہ دیگر مقاصد کے لیے پیسے کا استعمال کر رہا تھا۔

محکمہ انکم ٹیکس نے گزشتہ سال ستمبر میں سی پی آر کے نئی دہلی دفتر کی تلاشی بھی لی تھی۔

دی وائر نے ایک تجزیہ میں کہاتھا ہے کہ سی پی آر کو محکمہ انکم ٹیکس کے نوٹس میں نمایاں طور پراس بات کا حوالہ دیا گیا تھا کہ اس کے روابط چھتیس گڑھ کے ساتھ ہیں ، جو ہسدیو آرنیہ میں کان کنی کے خلاف مظاہروں سے جڑا ہوا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ ہسدیو آرنیہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے اڈانی گروپ کے خلاف ایک بڑے قبائلی احتجاجی مظاہرے کا مقام رہا ہے۔

دریں اثنا، مرکزی وزارت داخلہ تمل ناڈو میں توتوکڑی میں ویدانتا کے اسٹرلائٹ کاپر پلانٹ کے آس پاس  احتجاج اور مظاہروں کو منظم کرنے کے لیے غیر ملکی فنڈز کا غلط استعمال کرنے کے لیے ایک اور این جی او – دی اَدر میڈیا کے خلاف شکایتوں  کی بھی جانچ کر رہی ہے۔

ان مظاہروں کے دوران مئی 2018 میں پولیس کی فائرنگ سے تیرہ افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہو گئے تھے، جس کے بعد تاجر انل اگروال کی ملکیت والے کاپر پلانٹ  کواسی  سال بند کر دیا گیا تھا۔

اس معاملے میں جسٹس ارونا جگدیسن کمیشن آف انکوائری نے پولیس کے اعلیٰ افسران پر مظاہرین کے خلاف ‘ضرورت سے زیادہ مہلک طاقت’ استعمال کرنے کا الزام لگایا تھا۔