خبریں

ہندو مہاسبھا کے ممبروں  نے مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے گئو کشی کروائی: یوپی پولیس

اتر پردیش کے آگرہ ضلع کا معاملہ۔ رام نومی پر گئو کشی کی واردات ہوئی تھی  اور گائے کا گوشت برآمد کیا گیا  تھا۔ اس سلسلے میں اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے عہدیداروں نے کچھ مسلم نوجوانوں کے خلاف ایف آئی آر درج کروائی تھی۔ تاہم کال ریکارڈ سے پتہ چلا کہ ملزم ایک ماہ سے زائد عرصے سے جائے وقوعہ پر نہیں گئے تھے۔

معاملے میں دو ملزمین کے ساتھ یوپی پولیس۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@AITCSanghamitra)

معاملے میں دو ملزمین کے ساتھ یوپی پولیس۔ (تصویر بہ شکریہ: ٹوئٹر/@AITCSanghamitra)

نئی دہلی: اترپردیش کے آگرہ ضلع میں گائے کو ذبح کرکے رام نومی پر ماحول خراب کرنے کی کوشش کا پردہ فاش ہوا ہے۔ پولیس نے کہا ہے کہ یہ سازش اکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے عہدیداروں نے کی تھی۔

امر اجالا میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق، پولیس نے ہندو مہاسبھا کے قومی ترجمان سنجے جاٹ کو کلیدی سازش کار بتایا ہے۔ ان کے مطابق ،یہ سازش کچھ مسلم نوجوانوں کو پھنسانے کے لیے کی گئی تھی، جن سے ان کی پرانی دشمنی تھی۔

اس سلسلے میں ہندو مہاسبھا کے چار عہدیداروں کو گرفتار کیا گیا ہے۔

بتادیں کہ اتر پردیش میں گائے کے ذبیحہ کے خلاف سخت قانون ہے، جس میں اس جرم کے لیے زیادہ سے زیادہ  10 سال کی سخت قید اور 5 لاکھ روپے تک جرمانہ ہے۔

رپورٹ کے مطابق، گائے ذبح کرنے کا واقعہ رام نومی پر پیش آیا اور گائے کا گوشت برآمد کیا گیا۔ اس کے بعداکھل بھارت ہندو مہاسبھا کے عہدیدار وہاں پہنچے تھے ۔ مہاسبھا کے عہدیدار جتیندر کشواہا نے اس سلسلے میں مقدمہ درج کرایا تھا۔

دی ٹیلی گراف کی ایک رپورٹ کے مطابق، آگرہ کے چھاتا علاقے کے ایڈیشنل کمشنر آف پولیس آر کے سنگھ نے کہا، (ہندو مہاسبھا لیڈر) سنجے جاٹ کلیدی  سازش کار ہیں۔ ان کے ساتھیوں اور دوستوں نے 29 مارچ کی رات مہتاب باغ علاقے میں ایک گائے کوذبح کیا اور پارٹی کے رکن جتیندر کشواہا سے کہا کہ وہ محمد رضوان، محمد نقیم اور محمد شانو کے خلاف مقدمہ درج کرائیں۔

انہوں نے کہا کہ، پولیس نے چوتھے مشتبہ ملزم عمران قریشی اور اگلے دن شانو کو گرفتار کیا۔ تاہم تفتیش سے معلوم ہوا کہ نامزد ملزمان کا جرم سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ پوچھ گچھ سے پتہ چلا کہ سنجے جاٹ کی ان میں سے کچھ لوگوں سے دشمنی تھی اور وہ انہیں اس کیس میں پھنسانا چاہتے تھے۔

عہدیدار نے کہا کہ ہندو مہاسبھا کے ترجمان سنجے نے اس سازش کو انجام دینے کے لیے اقلیتی برادری کے کچھ افراد کی مدد لی تھی۔

افسر نے کہا، جیتندر نے پوچھ گچھ کے دوران ہم سے جھوٹ بولا تھا۔ کال ریکارڈ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ، سنجے جاٹ اور کچھ دوسرے لوگ  اس جگہ کے قریب تھے جہاں گائے کا ذبیحہ ہوا تھا، نہ کہ وہ  لوگ کا جن کا نام انہوں نے پولیس شکایت میں دیا تھا۔ کال ریکارڈ سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ ملزمان ایک ماہ سے زیادہ عرصے سے اس جگہ  پرنہیں گئے تھے۔

پولیس کا کہنا تھا کہ مبینہ طور پر جھوٹے الزامات میں سات روز قبل گرفتار کیے  گئے دونوں افراد (عمران اور شانو) کو جلد  ہی رہا کر دیا جائے گا۔

پولیس نے بتایا کہ شانو، عمران اور دیگر کا نقیم، بیجو اور رضوان سے جھگڑا چل رہا تھا۔ آخری تین بھائی ہیں۔ نعیم میونسپل کارپوریشن کا ملازم ہے اور اس نے پہلے مبینہ طور پر ان میں سے کچھ کو جیل بھیجنے کی سازش کی تھی۔

نقیم کے خلاف رنجش پیدا کرتے ہوئے شانو اور عمران نے مبینہ طور پر گائے ذبیحہ کیس میں نقیم کو پھنسانے کی سازش رچی تھی۔ انہوں نے مبینہ طور پر شکایت کنندہ جتیندر کشواہا کے ساتھ کئی دوسرے اور مہاسبھا کے ترجمان سنجے جاٹ کے ساتھ مل کر کام کیا جس نے نقیم اور دیگر کے خلاف الزامات لگائے تھے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔