فکر و نظر

ملیانہ فسادات اور جئے پور بلاسٹ کیس میں رہائی: دو فیصلے اور دو الگ سیاسی رد عمل

ملیانہ فسادات اور جئے  پور بلاسٹ معاملے میں عدالتوں نے ناقص جانچ اور مجرمانہ تفتیشی نظام میں جوابدہی کی کمی کی بات کہی  ہے۔ جہاں راجستھان میں اپوزیشن بی جے پی کے ساتھ کانگریس حکومت فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی بات کر رہی ہے، وہیں ملیانہ میں یوپی کی  بی جے پی حکومت کے ساتھ اپوزیشن نے بھی کوئی خاص ردعمل نہیں دیا ہے۔

1987 کے میرٹھ دنگے اور 2008 میں جئے  پور بلاسٹ۔ (فائل فوٹو: پروین جین/پی ٹی آئی)

1987 کے میرٹھ دنگے اور 2008 میں جئے  پور بلاسٹ۔ (فائل فوٹو: پروین جین/پی ٹی آئی)

بدنام زمانہ ملیانہ قتل عام کے بارے میں ‘پیٹریاٹ’ اخبار کے لیے تحریر کی گئی میری  رپورٹ مجھے بخوبی یاد ہے۔ مئی 1987 میں میرٹھ کے باہر ملیانہ نامی ایک گاؤں کو ایک ہجوم ، جس کے ساتھ اتر پردیش پی اے سی کے اہلکار بھی تھے،نے گھیر لیا تھا۔ ہجوم اور مبینہ طور پر پی اے سی کے اہلکاروں نے 68 گاؤں والوں کو گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا، ہلاک ہونے والے تقریباً تمام افرادمسلمان تھے۔

ان دنوں نجی ٹی وی چینل نہیں تھے۔ اس خوفناک شام  کو، جسوندر سنگھ، جو اس وقت بی بی سی کے ایک نڈر نامہ نگار تھے اور میں میرٹھ میں ہی تھے۔ ہم دہلی واپس جا رہے تھے جب ہمیں ملیانہ فائرنگ کے بارے میں پتہ چلا۔ ہم اسکوٹر پر سوار ہوئے اور گاؤں پہنچے۔ آدھی رات کے قریب  بی بی سی نے یہ خبر بریک کی تھی۔

ملیانہ کی ہولناک یادیں اس ہفتے اس وقت تازہ ہوگئیں جب  گزشتہ دنوں میرٹھ کی ایک ضلع عدالت نے قتل عام کے تمام 41 ملزمان کو بری کردیا۔

اس دردناک واقعے کے تقریباً 36 سال بعد عدالت نے شواہد کے فقدان کا حوالہ دیتے ہوئے تمام 41 ملزمان کو بری کر دیا!

کیا قانون اسی  طرح کام کرتا ہے؟

ملیانہ کے مسلمان خراب جانچ  اور استغاثہ، جس کی وجہ سے سزا نہیں سنائی گئی، کو لے کر ناراض ہیں۔ متاثرین کے اہل خانہ اپیل کی تیاری کر رہے ہیں۔ انڈین ایکسپریس کی ایک رپورٹ کے مطابق، استغاثہ مقدمے کی سماعت کے دوران پوسٹ مارٹم کی اصل رپورٹ بھی پیش نہیں کر سکا تھا۔

اخبارکی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے کہ چیف تفتیشی افسر سے بھی جرح نہیں کی گئی تھی جو کہ سب سے بنیادی طریقہ کار ہے۔ قتل عام کے ایک اہم گواہ نے کہا کہ اسے  ووٹر لسٹ سے بے ترتیب طریقے سے کچھ لوگوں کے  نام دینے کو کہا گیا تھا۔ تعجب کی بات نہیں کہ ضلع عدالت نے معاملے کوخارج کر دیا۔

اتفاق سے ملیانہ کا یہ  فیصلہ راجستھان ہائی کورٹ کے ذریعے  2008 کے جئے  پور بم دھماکوں ‘ناقص’ تفتیش کے لیے پولیس کے خلاف سخت تنقید کرتے ہوئے  ملزمین کی سزا کو منسوخ کرنے کے چند دنوں بعد آیا تھا۔ ان دھماکوں میں 71 افراد ہلاک ہوئے تھے۔

ہائی کورٹ نے ان چاروں افراد کو بری کر دیا، جنہیں 2019 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی۔ عدالت نے مزید کہا کہ ‘وہ جرم کی سنگینی  سے آگاہ ہے، لیکن کسی بھی سنگین تحقیقات اور قانون کے مطابق شواہد  کی عدم موجودگی میں محض شک یا اخلاقی بنیادوں پر سزا نہیں سنائی جا سکتی’۔عدالت کا کہناتھا کہ حقیقت میں جرم جتنا سنگین ہے،  اس کی تفتیش اتنی  ہی  سخت ہونی چاہیے۔

قابل ذکر ہے کہ ملیانہ اور جئے پور معاملے میں آئے دونوں فیصلے ناقص اور سخت تفتیش اور مجرمانہ تفتیشی نظام میں جوابدہی کی کمی کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ تاہم ان دونوں فیصلوں پر سرکاری ردعمل میں فرق قابل توجہ ہے۔

جئے پور دھماکہ کیس میں جو کچھ نظر آرہا ہے، اس کی وجہ  بڑی حد تک سیاسی ہے کیونکہ ہر پارٹی دہشت گردی کے خلاف سخت نظر آنا  چاہتی ہے۔ بی جے پی کے ساتھ ساتھ راجستھان کی کانگریس حکومت نے بھی ناقص تفتیش اور ملزمین کو بری کرنے پر ناراضگی ظاہر کی ہے۔ریاستی حکومت نے اپنے ایڈیشنل ایڈوکیٹ جنرل کو برطرف کر دیا ہے۔ اس نے بریت کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔ اس عمل میں اس بات پر بہت کم توجہ دی گئی کہ کیس کے کچھ ملزمان کو غلط طریقے سے سزا سنائی گئی۔

آخر کار، ہائی کورٹ نے واضح طور پر کہا کہ ’گمبھیر جانچ کی کمی ‘ تھی اور محض شک کی بنیاد پر ملزم کو سزا نہیں دی جا سکتی۔ اس لیے واقعی  میں دوبارہ ایک گمبھیر جانچ کی ضرورت ہے۔ اس طرح حکومت اور اس کے پراسیکیوٹرز اپنی ساکھ دوبارہ قائم کر سکتے ہیں۔

جئے  پور دھماکہ کیس پر راجستھان حکومت کے ردعمل کے مقابلے میں ملیانہ کے فیصلے کو لے کراتر پردیش کی بی جے پی حکومت کی طرف سے بے حد پھیکا سا ردعمل دیکھنے میں آیا ہے، جو اس کے  بارے میں اب تک خاموش ہے۔

دوسری بڑی سیاسی جماعتوں نے بھی اس پر زیادہ بات نہیں کی ہے۔ ہماری سیاسی جماعتوں کو  ملیانہ کیس کے ملزمان کو بری کیے جانے کے چونکا دینے والے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کا شاید ہی کوئی بڑا فائدہ نظر آیا ہو۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارا معاشرہ اور سیاست اخلاقی طور پر کس قدر دیوالیہ ہو چکے ہیں!

(اس مضمون  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)