خبریں

مہاراشٹر: اپنے گانوں میں سیاست کو نشانہ بنانے والے دو ریپرز کے خلاف کیس درج

مہاراشٹر کے اورنگ آباد شہر سے تعلق رکھنے والے ریپر راج منگاسے کے گانے میں  نام لیے بغیرمہاراشٹر کی ایکناتھ شندے سرکار کو نشانہ بنایا گیا ہے، جبکہ ممبئی سے تعلق رکھنے والے ریپر امیش کھاڑے نے اپنے گانے میں ذاتی فائدے کے لیےغربت کے مارے  لوگوں کو نظر انداز کرنے کے باعث سیاستدانوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

امیش کھاڑے (بائیں) اور راج منگاسے۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)

امیش کھاڑے (بائیں) اور راج منگاسے۔ (تصویر: ویڈیو اسکرین گریب)

دو نوجوان ریپرز (گلوکاروں) نے اپنے گانے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جو منٹوں میں وائرل ہوگئے۔ مہاراشٹر کے دو مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے اور شاید ایک دوسرے سے ناواقف دو نوں جوانوں نے ان گانوں میں ایک جیسے سیاسی اور سماجی سوالات اٹھائے تھے۔

جہاں راج منگاسے کے ریپ نے مہاراشٹر کی ایکناتھ شندے کی قیادت  والی حکومت  (نام کا تذکرہ کیے بغیر) پر حملہ کیا، وہیں  امیش کھاڑے نے اپنے ذاتی فائدے کے لیے غربت کے مارے  لوگوں کو نظر انداز کرنے کے باعث سیاست دانوں کوتنقید کا نشانہ بنایا تھا۔

مہاراشٹرا پولیس نے دونوں گانوں کو ‘فحش’ پایا اور دونوں کے خلاف دو الگ الگ مقدمات درج کر لیے۔

قابل ذکر ہے کہ 25 مارچ کو اورنگ آباد کے ریپر راج منگاسے نے اپنا نیا گانا ‘چور’ بھیم راج پروڈکشن کے یوٹیوب چینل پر جاری کیا تھا۔ مراٹھی زبان میں ریلیز ہونے والا ان کا گانا براہ راست ان بولوں سے شروع ہوتا ہے، ‘چور آلے  50 کھوکھے گھیوں کتی باگھا، چور آلے… ایکدم اوکے ہوں’، جس کا ترجمہ ہے- ‘دیکھو، چور 50 کروڑ روپے کے ساتھ آئے ہیں۔ دیکھو، چور بالکل ٹھیک نظر آتے ہیں۔’

اب تک 22 ہزار سے زائد مرتبہ دیکھے جانے والے اس گانے میں کسی سیاسی جماعت یا سیاستدان کا ذکر نہیں ہے۔

لیکن یہ وزیر اعلیٰ ایکناتھ شندے اور ان کے شیو سینا ممبران اسمبلی کے دھڑے کے خلاف لگائے گئے الزامات کی طرف اشارہ کرتا ہے، جنہوں نے گزشتہ سال جون میں اس وقت کی مہا وکاس اگھاڑی حکومت سے علیحدگی اختیار کی اور بی جے پی کے ساتھ اتحاد بنانے کے لیے گجرات، آسام اور گوا میں ڈیرہ جمایا تھا۔

ایم ایل اے پر پارٹی بدلنے اور ادھو ٹھاکرے حکومت کو گرانے کے بدلے بھاری رشوت لینے کے الزام لگے تھے۔ اس سیاسی تختہ پلٹ کے بعد شندے وزیر اعلیٰ بنے تھے۔

شنڈے گٹ کے ایک کارکن کی شکایت پر درج کی گئی ایف آئی آر کے بعد منگاسے کو اورنگ آباد سے اٹھایا گیا تھا اور تھانے ضلع کے امبرناتھ لایا گیا تھا۔ تاہم، امبرناتھ پولیس نے اس بات سے انکار کیا کہ وہ حراست میں ہیں۔

منگاسے کے خلاف امبرناتھ کے شیواجی نگر پولیس اسٹیشن نے دفعہ 501 (ہتک عزت)، 504 (امن کی خلاف ورزی کرنے کے لیے جان بوجھ کر توہین کرنا) اور 505 (2) (طبقوں کے درمیان دشمنی پیدا کرنے والے بیانات) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

اورنگ آباد میں میڈیا سے بات کرتے ہوئے ان کے چھوٹے بھائی سومیش نے بتایا کہ ایف آئی آر درج ہونے سے کچھ دن پہلے پولیس ان کے گھر بھی  آئی تھی۔

ان  کے بھائی نے دعویٰ کیا کہ ممبئی لے جانے سے پہلے منگاسے پولیس کی کارروائی کے خوف سے روپوش ہو گئے تھے۔ انہوں نے کہا، ‘انہوں  نے کوئی غلط کام نہیں کیا ہے۔ یہ سیاسی صورتحال کے خلاف غصے کا اظہار کرنے والا ایک ریپ ہے، لیکن انہوں نےکسی کا نام نہیں لیا۔ اب ہمارا خاندان خوفزدہ ہے۔

اورنگ آباد کے امبیڈکرائٹ کارکنوں نے بتایا کہ منگاسے کا تعلق دلت برادری سے ہے اور وہ امبیڈکرائٹ تحریکوں میں حصہ لیتے رہے ہیں۔ اورنگ آباد کے طلبہ کے حقوق اور ذات پات کے مخالف کارکن گنارتنا سوناونے نے بتایا، انہوں نے (منگاسے) نے حال ہی میں دھم دکشا (بدھ مت) اختیارکیا ہے۔

دوسری جانب ریپر امیش کھاڑے کا گانا زیادہ عام ہے۔ منگاسے کے گانے کے برعکس، یہ کسی سیاسی جماعت کی  تنقید یا تائید نہیں کرتا ہے۔ ان  کا ریپ صرف اس بات پر توجہ مرکوز کرتا ہے کہ کس طرح غریب اور پسماندہ افراد کو زندگی بسر کرنے کے لیے ان کے حال پر چھوڑ دیا جاتا ہے، جبکہ سیاسی جماعتیں بڑی بڑی  سودے بازی  میں مصروف ہیں۔

ممبئی میں مقیم کھاڑے شمبھو کے نام سےزیادہ  مشہور ہیں اور ان کے یوٹیوب چینل ‘شمبھو ریپ’ کے 3.74 لاکھ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں۔

غور طلب ہے کہ 6 اپریل کو ممبئی پولیس کے کرائم انٹلی جنس یونٹ (سی آئ یو) نے کھاڑے کے خلاف ایک گانا ‘جنتا بھونگلی کیلی’ (آپ نے عوام کو برہنہ کر دیا ہے) اپ لوڈ کرنےکی وجہ سے شکایت درج کی تھی۔

بھونگلی ایک عام دیہی اصطلاح ہے، جسے عریانیت کےمفہوم میں استعمال کیا جاتا ہے۔ کھاڑے نے اپنے شہریوں کی پرواہ نہ کرنے پر ریاست کو تنقیدکا نشانہ بنایا ہے۔

اس گانے میں انہوں نے اپوزیشن کو بھی نہیں بخشا اور وہ  مراٹھی زبان ریپ میں گاتے ہوئے نظر آئے، ‘ورودھک شاسک دوست آہت چلایہ، فقط تمچاچ مست آہے لاڈ’ (اپوزیشن اور حکمران پارٹی، دونوں کی ملی بھگت ہے اور وہ جم کر مستی کر رہے ہیں)۔’

غورطلب ہے کہ 2:54 منٹ کے ریپ کو 11 مارچ کو پوسٹ کرنے کے بعد سے تقریباً 80000 بار دیکھا جا چکا ہے۔

وڈالا پولیس اسٹیشن میں پوچھ گچھ کے لیے کھاڑے کوبلائے جانے کے فوراً بعد نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی) کے رہنما اور ایم ایل اے جتیندر اوہاد نے پولیس پر کھاڑے اور ان کے خاندان کو ہراساں کرنے کا الزام لگایا۔

انہوں نے کھاڑے کی حمایت میں ٹوئٹ کیا، ‘کھاڑے اور اس کے والدین کو وڈالا پولیس اسٹیشن میں حراست میں لیا گیا ہے۔ اس گانے میں کچھ بھی قابل اعتراض نہیں ہے۔ انہوں نے کسی کا نام نہیں لیا ہے۔ انہوں نے اس گانے میں اپنی غربت کے بارے میں بتایا ہے۔

انہوں نے مزید لکھا، ‘یہ پولیس راج نہیں ہے۔ ہم جمہوریت میں اظہار رائے کی آزادی کو اس طرح کچلنے نہیں دیں گے۔

وڈالا پولیس نے دعویٰ کیا کہ کھاڑے کو پوچھ گچھ کے بعد چھوڑ دیا گیا تھا۔ ان کے خلاف تعزیرات ہند (آئی پی سی) کی دفعہ 504، 505 (2) اور آئی ٹی ایکٹ 2000 کی دفعہ 67 (الکٹرانک شکل میں فحش مواد شائع کرنا یا منتقل کرنا) کے تحت مقدمہ درج کیا گیا ہے۔

منگاسے کی طرح ان کے گانوں میں بھی کہیں بھی کسی برادری کا ذکر نہیں ہے۔ لہذا یہ واضح نہیں ہے کہ پولیس نے ان پر ‘طبقوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینے’ والے الزام کیوں لگائے ہیں۔

ایک اور ٹوئٹ میں اوہاد نے لکھا کہ اگر انقلابی شاعر نام دیو ڈھسال آج زندہ ہوتے تو حکومت انہیں ہمیشہ کے لیے سلاخوں کے پیچھے ڈال دیتی۔ سخت لفظوں میں ڈوبی  ڈھسال کی تخلیقات نے جنوبی وسطی ممبئی کی زندگی کو واضح طور پر دکھایا، جہاں مشہور ریڈ لائٹ ڈسٹرکٹ کماٹی پورہ واقع ہے۔ ڈھسال نے اپنی انقلابی تحریروں کے ذریعے سماجی و سیاسی ذات پات کی درجہ بندی کے ڈھانچے کو چیلنج کیا تھا۔

امراوتی سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان ریپر وپن تاتاڑ، جو فلم جھنڈ اور ڈاکیو–سیریز مرڈر ان اے کورٹ روم میں اپنے ریپ کے لیے مشہور ہیں، کہتے ہیں کہ حالیہ پولیس کارروائیوں نے ‘انہیں ہلا کر رکھ دیا’ ہے۔

ایک 25 سالہ امبیڈکرائٹ آرٹسٹ وپن کا کہنا ہے کہ زیادہ تر ریپ فنکار اپنے اردگرد کے ماحول کی عکاسی کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ‘زیادہ تر فنکار چھوٹی بستیوں سے آتے ہیں اور انتہائی غربت میں رہتے ہیں۔ وہ ان چیزوں کو گرفت میں لینے  کے قابل ہوتے ہیں، جو شہری اشرافیہ کے فنکاروں کی گرفت میں نہیں آتی  ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ ریپر باغی فنکار ہوتے  ہیں اور اگر حکومت بغیر سوچے سمجھے ہمیں مجرم قرار دیتی ہے تو یہ نقصاندہ ہوگا۔

وہ ریپ پر لگائے جانے والے ‘فحاشی’ کے ٹیگ کو یکسر مسترد کرتے ہیں، جو کہ اکثر ریپ پر تنقید میں استعمال ہوتا ہے۔ وہ کہتے ہیں، ‘آرٹ کی یہ شکل فحش نہیں ہے۔ اگر کوئی فحش چیز  ہے تو وہ فاقہ کشی سے موت ہے، ذات پات کے مظالم، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور غریبی  ہیں ، انہیں ‘فحش’ کہنا چاہیے۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔