ادبستان

سوشل میڈیا: پاپولر بنام ادبی شاعری

شعر کہنے کے شوق میں نئے لڑکے اور لڑکیوں نے اردو سیکھنا شروع کیا۔ بلکہ نئی اردو شاعری میں کئی اہم اور نمایاں نام  توایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔

علامتی تصویر

علامتی تصویر

اردو شاعری بنیادی طور پر محفلوں میں سننے –سنانے اور عوامی مقبولیت حاصل کرنے کا ایک اہم وسیلہ  رہی ہے، لیکن یہ راستہ پہلے بہت دشوار گزار  ہوا کرتا تھا۔

استادی اور شاگردی  کی توانا روایت نےسب سے زیادہ اہمیت  شاعرانہ مشق (ریاضت ) کو  دی تھی، جس میں لفظوں  کے صحیح معنی اورتلفظ کی سمجھ کے ساتھ–ساتھ اپنے جذبات و خیالات یا اافکار کو خوبصورت اور دلکش انداز میں پیش کرنے کا طریقہ سکھایا جاتا تھا اور یہ بھی بتایا جاتا تھا کہ موضوعات کو لفظوں میں ڈھالنے کا سلیقہ پیش رو شعراء کاکلام پڑھنے اور اچھے شعریاد رکھنے سے آتا ہے۔

کبھی کبھی یہ سلیقہ  مشاعروں یا  نشستوں سے بھی آ جایا کرتا تھا، لیکن اب یہ کام سوشل میڈیا کے ذریعے زیادہ مؤثر طریقے سے کیا جا رہا ہے۔

اگر سوشل میڈیا پر اردو شاعری کے پھیلاؤ کو انقلاب مان لیا جائے تو اس کا آغاز  5 جولائی 2006 کوڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ کویتا کوش ڈاٹ او آر جی سے ہوا، پھر فیس بک، ٹوئٹر اور بالآخر 11 جنوری 2013 کو ڈبلیو ڈبلیو ڈاٹ ریختہ ڈاٹ او آر جی  نے اس تصور کو بام عروج پر پہنچا دیا کہ اچھی اور نمائندہ شاعری وہ ہوتی ہے جس سے حظ اٹھانے کے لیے یا لطف اندوز ہونے کے لیے رسم الخط سے واقف ہونا   ضروری نہیں، اردو شاعری کو رومن یا دیوناگری میں بھی پڑھا، سمجھا اور سراہا جا سکتا ہے۔

اردو شاعری سوشل میڈیا کے دور سے پہلے سے ہی  مقبول رہی  ہے۔ بیسویں صدی کی آخری دہائی میں ہندوستان اور پاکستان کی متعدد اردو ویب سائٹ بے انتہا مقبول تھیں۔ مثال کے طور پر،ڈبلیو ڈبلیو اردوستان ڈاٹ کام اورڈبلیو ڈبلیو اردو دوست ڈاٹ کام کا نام لیا جاسکتا ہے۔ ان کے علاوہ یورپی ممالک کی کئی اردو ویب سائٹس نے بھی اپنے قدم جما لیے تھے۔

ہندوستان میں عالی مرتبت، سیاستداں اور جج صاحبان وغیرہ اپنے خطابات اور تقاریر میں اردو اشعار کا استعمال پچھلے وقتوں میں بھی کرتے رہے ہیں،جس پر کئی بار تالیاں بھی بجائی گئیں اور بعض اوقات مخصوص زبان کی طرف جھکاؤ کے باعث تنقید کا نشانہ بھی بنایا گیا۔ ان  سب کے باوجود اردو شاعری کا جادو سر چڑھ کر بولتا ہی  رہا۔

اردو شاعری کی مقبولیت میں سوشل میڈیا پرسب سے اہم خدمات غزل کی شاعری کی  رہیں، جو عربی اور فارسی سے ہوتی ہوئی  اردو میں داخل ہوئی۔ اس کی ساخت، ہر شعر کامفرد اکائی ہونا، دوہے کی طرح دو مصرعوں میں پوری کائنات کو سمیٹ لینا اور بعض اوقات مختلف شخصی، سماجی اور سیاسی حالات پر چسپاں ہو جانا غزل کی شاعری  کی مقبولیت کے اہم اسباب ہیں۔

اردو میں آنے کے بعد غزل نے اپنی ہیئت اور موضوعات  کا تعین خود کیا، اس نے فطری طور پر بغیرکسی خارجی دباؤ کے ہندوستانی تہذیب و ثقافت کی رنگارنگی اور بوقلمونی  کو اپنے اندر جذب کر لیا، روایات اور پیچیدگیوں کو سمجھا، یہاں کی بولیوں کو خوش اسلوبی سے اپنایا۔ امیرخسرو کی غزل ‘ زحال مسکیں مکن تغافل’، کبیر کی ‘ہمن ہیں عشق مستانہ ‘، قلی قطب شاہ کی ‘پیا باج پیالہ’ کے بعد میر اور غالب کا زمانہ آتا ہے؛

میر کے دین و  مذہب کوکیا پوچھتے ہوان نے تو

قشقہ کھینچا، دیر میں بیٹھا،کب کا ترک اسلام کیا(میر)

جلا ہے جسم جہاں دل بھی جل گیا ہو گا

کریدتے ہو جو اب راکھ جستجو کیا ہے(غالب)

تلک کرنا یا میت کو نذر آتش کرنا ہندی  روایت ہے، عرب یا ایران میں یہ شعر نہیں کہے جا سکتے تھے۔

سوشل میڈیا پر غزل، شعر اور شاعری کی نت نئی محفلیں منعقد کی جا رہی ہیں اور ایسی محفلوں کے فائدے اور نقصانات پربحث و مباحثے کا ایک لامتناہی  سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس دوران اچھی بات یہ ہوئی ہے کہ اردو اور ہندی غزل کو الگ الگ دیکھنے کے بجائے ہندوستانی غزل کےوسیع مفہوم میں دیکھنے اور سمجھنے کے سلسلے کا آغاز بھی  ہو چکا ہے۔

سوشل میڈیا اور کچھ ویب سائٹ نے اردو شاعری کو ہمارے روزمرہ کے معمولات کا حصہ بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے، لیکن سب سے زیادہ قابل تعریف ہندی بولنے والے شاعری کےوہ عاشق ہیں، جنہوں نے اردو زبان اور اس کی شاعری کو عام کرنے کے لیے نہ صرف اردو رسم الخط سے واقفیت حاصل کی بلکہ اردو رسم الخط میں قابل قبول مواد کودیوناگری میں بھی دستیاب کرایا اور اس کے فروغ میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔

شعر کہنے کے شوق میں نئے لڑکے اور لڑکیوں نے اردو سیکھنا شروع کیا۔ بلکہ نئی اردو شاعری میں کئی اہم اور نمایاں نام  توایسے ہیں جن کی مادری زبان اردو نہیں ہے۔ یہ واقعہ اپنے آپ میں خوش کن ہے کہ برسوں بلکہ دہائیوں کے مذہبی، سیاسی اور لسانی تعصبات کو چھوڑ کر اردو اور ہندی والےآہستہ آہستہ ہندوستانی کی طرف گامزن ہیں۔

لٹریری فیسٹیول، تقریب اور اردو کے نام پرہونے والے جشن  کی بے پناہ کامیابی نے ان لامحدود امکانات کے نئے دریچےکھولے جو کہیں  نہ کہیں بازار کو بھی  اپنی جانب کھینچ رہے تھے۔ککرمتے کی طرح جا بجا اُگ آئے کئی نام نہاد ادبی اداروں نے اس منظر نامے سے فائدہ اٹھانے بلکہ اس کا بھرپور استحصال کرنے کی کوشش کی  اور اردو کے نام پر جشن  کی جھڑی لگا دی ۔

اس سے اردو شاعری کی مقبولیت کا اندازہ ہونے کے ساتھ ساتھ اردو کے ادبی اور ثقافتی کاموں کو بچانے اور ان کی پرورش کے نام پر بڑے اسپانسرز کو راغب کرنے اور فنڈ اکٹھا کرنے کے نئے تماشے بھی سامنے آئے۔ جشنِ ریختہ کو چھوڑ دیں تو باقی تمام جشن اتنےناظرین بھی جمع  نہیں کر پاتے جتنے معمولی مشاعروں میں عام طور پر مل جاتے ہیں۔

اس وقت ٹوئٹر، فیس بک اور انسٹاگرام وغیرہ پر اردو شاعری کے متعدد گروپ فعال اور متحرک ہیں اور اردو کے کئی  ہندستانی–پاکستانی شاعر بھی۔ فرق یہ ہے کہ پاکستانی شاعر اپنا کلام اردو میں پوسٹ کرتے ہیں اور ہندوستان کے زیادہ تر پاپولر شاعراپنا کلام  اردو میں پوسٹ کرنے سے گریز کرتے ہیں یا گھبراتے ہیں۔

اس کے اسباب وعلل پرغوروخوض کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ ہندوستانی شاعر، بالخصوص ایسے شاعر جو مشاعرے یا منچ کی وجہ سے جانے جاتے ہیں اپنے ہندی بولنے والے شائقین کوجوڑنے کے لیے بے تاب رہتے ہیں، لیکن جس زبان نے انھیں مقبولیت کی چوٹی  پر پہنچایا، اس زبان میں پڑھنے لکھنے والوں کو وہ شایدحقارت کی نگاہ سے دیکھتے  ہیں۔

اس احساس کمتری کے پیچھے ہندوستان میں ہونے والے  مشاعروں میں اپنی بالادستی برقرار رکھنے کے علاوہ اور بھی بہت سی سماجی و سیاسی وجوہات ہوسکتی ہیں جن پر تفصیل سے لکھنا ضروری ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ اردو پوسٹ کو سوشل میڈیا پرسراہا نہیں جاتا۔ اردو ادب سے وابستہ پاکستان اور ہندوستان کے تقریباً تمام بڑے نام سوشل میڈیا پر متحرک ہیں۔ میر، غالب اور اقبال سے لے کر فیض احمد فیض، حبیب جالب، پروین شاکر، جون ایلیاسب کے نام سے درجنوں ہینڈلز اور پیج ہیں۔ ان کے فالوورز کی تعداد لاکھوں میں ہے۔ البتہ، ہندی میں جوہینڈل  فعال ہیں ان کے ساتھ ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ان میں سے اکثر کے ایڈمن کا کچھ سراغ نہیں ملتا۔

کئی بار توردم، وزن اور ردیف و قافیہ سے آزاد، بے تکی شاعری بھی کسی بڑے شاعر کے نام  پوسٹ کر دی جاتی ہے، جس کی وجہ سے ان ہینڈلز کا اعتبارشک کے دائرے میں آجاتاہے۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ہینڈل کسی معروف شاعر کا ہوتا ہے، لیکن بعض اوقات کسی خاص شخص (جسے شاعر کہنا بھی مناسب نہیں) کی چھوٹی بڑی سطریں اس طرح پوسٹ کی جاتی ہیں گویا کوئی بہت مشہور شعر  ہوکسی  معروف شاعر کا۔

یہ  اندازہ بہت دیر سے ہوتا ہے کہ ایسے ہینڈل کسی چھٹ بھیے شاعر نے خود کو شاعر تسلیم  کروانے کے لیے بنائے ہیں۔ اسی لیے ایڈمن  کا نام بھی صیغہ راز میں رکھا گیا ہے تاکہ اس کی ادبی یا شاعرانہ  حیثیت اور حسیت کا صحیح اندازہ نہ لگایا جا سکے۔

سوشل میڈیا نے سب سے زیادہ مذاق غالب، جون ایلیا اور گلزار کی شاعری کابنایا ہے۔ ان کے نام پر سینکڑوں بے نام  ہینڈلز اور فیس بک پیج موجود ہیں، جو کچھ بھی الٹا–سیدھا ان کے نام سے پوسٹ کرتے ہیں اور داد و تحسین  حاصل کرتے  ہیں۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ ان–باکس میں رابطہ کرنے کے باوجود ایڈمن اپنا نام ظاہر نہیں کرتے، اس لیے انہیں بے نام  ہینڈل کہنا زیادہ مناسب ہوگا۔

اس بات کا قوی امکان ہے کہ ان کو اس زبان کا علم بھی نہ ہو، جس کے کوی یا شاعر کے پیج یا ہینڈل کے وہ ایڈمن بن بیٹھے ہیں۔ اس لیے نام اور شناخت ظاہر کرنے کا جوکھم مول لینا ان کے لیے خطرناک ہو سکتا ہے۔ سوشل میڈیا پر وائرل ہونے والی شاعری کے  ویڈیوز اور آڈیوز پر سرسری نظر ڈالنے سے  بھی اندازہ ہوجاتا ہے کہ ان کی مقبولیت کی کسوٹی  روایتی طور پراس کامعیاری ہونا نہیں بلکہ کچھ اور ہے، جو انہیں عوام کے قریب لاتی ہے۔

شاید اس کی وجہ ان کی زبان کا سہل اورسادہ ہوناہے، جس میں نہ تو فارسی عربی کے مشکل لفظ ہوتے  ہیں اور نہ ہی  سنسکرت یا کسی دوسری زبان کے ایسے الفاظ ،جنہیں سمجھنے کے لیے لغت کی ضرورت پڑے۔ یا پھر ایسے عاشقانہ  شعر ہوتے  ہیں، جو اسکول اور کالج کے لڑکے اور لڑکیاں پرپوز کرنے کے لیے استعمال کر سکیں۔

آج اگر سوشل میڈیا کو مقبولیت کا پیمانہ مان لیا جائے تو جون  ایلیا، میر اور غالب سے زیادہ پسند کیے جاتے ہیں۔ اس کے فوری منفی اثرات یہ دیکھنے میں آ رہے ہیں کہ نئے شاعروں کی ایک پوری نسل جون ایلیا کا بھوت  بنی گھوم رہی ہے اور داد وتحسین بھی وصول کر رہی ہے۔

اس میں مسئلہ یہ ہے کہ لوگ انہی کی قافیہ پیمائی کو اردو کی بہترین اور نمائندہ شاعری سمجھ کر اردو شاعری  کے بارے میں اچھی یا بری رائے قائم کرلیتے ہیں۔

سوشل میڈیا پر اس طرح کی پاپولر شاعری پسند کرنے والے زیادہ تر لوگ وہ ہیں جو اسے دیوناگری میں پڑھنے کے لیے مجبور ہیں اور بعض اوقات براہ راست اردو شاعروں تک ان کی رسائی نہیں ہو پاتی، اس لیے وہ پوری طرح سے مڈل مین سمجھے جانے والے ان افراد پر انحصار کرتے ہیں جن کی صلاحیت صرف کاپی پیسٹ تک محدود ہے۔

اب آپ اسے بازار کا دباؤ کہیں یا شہرت کی  لالچ، یاد رہے کہ مشاعرہ اب بین الاقوامی سطح پر اپنے آپ میں ایک بڑی انڈسٹری بن چکا ہے۔ اسپانسر سے لے کر آرگنائزر تک کسی شاعر کی مقبولیت کا اندازہ اس کی دیوناگری میں دستیاب تخلیقات سے  ہی لگاپاتے ہیں، جو سہل اور سادہ ہونے کی وجہ سے سرکولیشن میں ہوتی ہے نہ کہ اپنے ادبی اوصاف یا شعری خصوصیات کی وجہ سے۔

کسی شاعر کی مقبولیت کا اندازہ مشاعرہ میں بجنے والی تالیوں کے شور سےہوتا ہے جو مختلف وجوہات کی بناء پر لیجنڈ بن چکے  شاعروں کے حصے میں ہی آتا ہے ہیں یا پھر  ان کے حصے میں جو ترنم اور گائیکی سےیا اسٹیج پرفارمنس سے سامعین کو مسحور کرنے کے فن میں ماہر ہوں۔

ادبی پس منظر کے بہترین شاعر بھی مشاعرے  میں شاذ و نادر ہی سراہے جاتے ہیں۔ بشیر بدر اور ندا فاضلی جیسے اہم شاعروں کو بھی سامعین پر اپنی گرفت برقرار رکھنے کے لیے اداکاری کا سہارا لینا پڑتا تھا۔ شہریار، شجاع خاور، محمد علوی اور عرفان صدیقی جیسے شاعر بھی مشاعرےکی  کامیابی کی ضمانت نہیں سمجھے جاتے تھے۔

مسئلہ یہ ہے کہ اردو والوں کے عدم تحفظ کی کوئی انتہا نظر نہیں آتی ۔ان کو  آج بھی یہی لگتا ہے  کہ جس طرح دھیرے دھیرے اردو سنیمابغیر کسی لسانی تبدیلی کے ہندی سنیما بن گیا، اسی طرح پوری اردو شاعری اپنے اصل رسم الخط کو ترک کرکےکہیں  ہندی شاعری نہ بن جائے۔

(نعمان شوق ممتاز شاعر اورادیب ہیں۔ اجنبی ساعتوں کے درمیان، جلتا شکارا ڈھونڈنے میں، فریزر میں رکھی شام اور اپنے کہے کنارے ان کی شعری تخلیقات ہیں)

یہ مضمون آؤٹ لک ہندی میں شائع ہوا ہے، مضمون کی اہمیت اور افادیت کے پیش نظرآؤٹ لک اور مضمون نگار دونوں کی اجازت  کے ساتھ اس کو یہاں دی وائر اُردو کے قارئین کے لیے پیش کیا جا رہا ہے۔