ادبستان

لالہ او لالہ: چٹے خمور غبارے

حمید شاہد کی خود نوشت ’خوشبو کی دیوار کے پیچھے‘سےمقتبس؛ اباجان کے زمانے میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ ایسا تھا جیسے دونوں ایک گھر کے افراد تھے۔ استاد کی قدرو منزلت کبھی کبھی توماں باپ سے بھی بلند لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کی خدمت کے حوالے سے بعد ازاں اگرچہ کئی ناگفتہ باتیں بھی مشہور ہو گئیں مگر بالعموم اس رشتے میں اخلاص تھا۔ ہماری نسل تک آتے آتے یہ رشتہ قدرے کمزور پڑا مگرمجھے یاد ہے یہ پوری طرح تلف نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج کل ہو چکا ہے۔

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

تصویر بہ شکریہ: محمد حمید شاہد/فیس بک

لالہ او لالہ

دادا جان جب پٹی باڑی چھوڑ کر چکی سے پنڈی گھیب منتقل ہوئے تھے تو اناج کی آڑھت کا کاروبار شروع کر دیا تھا۔ کاروبار کی طرف ان کا دھیان یوں گیا کہ چکی میں واہی بیجی کرتے کرتے حکومت سے چینی کی ایجنسی مل گئی تھی ۔ یہ کاروبار نیا نیا تھا یہاں سے ایسی لت لگی کہ ایک بار کسی اور کام سے پنڈی گھیب آئے اور وہاں ایک بڑی دکان کی نیلامی میں خرید لی ۔ دکان ان کے پاس تھی،پنڈی گھیب آتے ہی ،اُس میں گاؤں سے آنے والا اناج ڈالا ۔ کچھ اِدھر اُدھر کے مواضعات سے منگوایا، اسے صاف کروا کر پٹ سن کے باردانے میں بھروادیا ۔ جب یہ بکنے پر آیا تو پہلے کاروبار سے بھی زیادہ منافع بخش نکلا۔

وہ بااصول آدمی تھے ، اناج وزن کرنے کو کانٹے لگوائے جن کا دھیان رکھا جاتا کہ درست حالت میں رہیں۔ اناج صاف کرنے کو چھاننیاں لگوائیں جو موٹر سے چلتیں اور اناج کو ہر ملاوٹ سے پاک کر دیتیں ۔دنوں میں کاروبار خوب بڑھا اور پھلا پھولا تھا۔ سب سے چھوٹے چچا دادا جان کے ساتھ ہو گئے تھے مگر اُن کے لچھن ایسے تھے کہ لگتا اندر ہی اندر سے اناج کی بوریوں کو چوہے کتر رہے تھے۔ دادا جان نے تنگ آکر آڑھت پر جانا چھوڑ دیا ۔ منافع بخش کاروبار میں خسارہ ہونے لگا ۔ دادا جان کی وفات کے بعد چچا اس کام سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔

منجھلے چچا نے اپنا کاروبار الگ سے شروع کیا تھااور اتنا بڑھا لیاکہ کاروباری حلقوں میں وہ سیٹھ مشہور ہو گئے تھے۔ دولت سیٹھ سلطان محمدپر عاشق تھی۔ گاؤں میں جہاں کہیں کوئی زمین بیچ رہا ہوتا،وہ خریدلیتے۔ شہر میں بھی اُن کی جائیداد بڑھتی چلی گئی تھی۔ ابا جان کا معاملہ الگ تھا۔ شروع میں وہ فوج میں بھرتی ہوئے تھے مگر بہت جلدکوئی حیلہ کرکے  وہاں سے نکل آئے تھے۔

خیر ،فوج سے یہ نکلنا، وہاں سے 1951ء میں باقاعدہ سبکدوش ہونا تھا کہ اُن کی سروس بک پر ہم سب بہن بھائیوں نے فوجی فاؤنڈیشن سے تعلیمی وظیفے لیے تھے۔ بعد میں وہ تھٹی سیدوشاہ ہی میں پڑھانے لگے تھے۔ جی، اسی سکول میں جس میں کبھی وہ پڑھتے رہے تھے۔ پھر وہ بھی کاروبار کرنے لگے ؛ دونوں بھائیوں سے الگ۔ مگر ان کا مزاج کاروباری نہ تھا۔ اپنی مدد کے لیے وہ ملازم رکھتے اور سارا انحصار انہیں پر کرتے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے وہ سیاسی سماجی کارکن تھے اور ان کا زیادہ وقت اپنی جماعت کے دفتر میں گزرتا تھا۔ جہاں ان سے ملنے والوں کا تانتا بندھا رہتا تھا ۔

ابا جان نے بتایا تھا کہ جب وہ چھٹے یاساتویں درجے میں تھے کہ دوسری جنگ عظیم کی خبریں آنے لگی تھیں۔ جرمنی اور پولینڈ کی جنگ شروع ہو چکی تھی۔ اس جنگ میں برطانیہ اور فرانس بھی کود چکے تھے۔  جنگ کے حوالے سے عجیب و غریب خبریں سننے میں آرہی تھیں۔ جرمنوں کے پاس آسمانی بجلی کی طرح لپک کر حملہ آور ہونے کی صلاحیت تھی۔

وہ جہازوں، ٹینکوں اور گولہ بارود کی بہت بڑی تعداد کے ساتھ حملہ آور ہوتے اور مخالف افواج کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کر دیتے ۔اس صلاحیت کو کام میں لاکر جرمنی نے کئی ممالک پر قبضہ کر لیا تھا۔ یہ الگ بات کہ ابھی تک وہ برطانیہ کو شکست دینے میں کامیاب نہ ہوسکا تھا تاہم سارا خوف جیسے وہیں سے ہندوستانیوں میں منتقل ہو رہا تھا۔گاؤں بھر میں جرمنوں کے بارے میں مشہور تھا کہ وہ آسمان پر اڑتے جہازوں سے چھتریوں کی ذریعے اترتے تھے اور سب کو قتل کر کے غائب ہو جاتے تھے ۔

ان دنوں اس علاقے سے بھی فوجی بھرتی ہوئی تھی اور لوگ اپنے وطن سے دور کہیں انگریزی فوج میں لڑ رہے تھے۔ گاؤں کی  بڑی بوڑھیوں کو جرمن کہنا بھی ڈھنگ سے نہیں آتا تھا ، وہ جرمن کو جرمل کہتیں ۔ ابا جی نے بتایا تھا کہ گاؤں کی ایک مسکین عورت تھی سکھاں؛ اس کا خاوند فوت ہو گیا تھا اور بیٹا فوج میں تھا ۔ اس کی کہیں سے کوئی خبر نہیں آ رہی تھی ۔ سکھاں اکثر میلے کچیلے لباس میں گاؤں کی گلیوں میں گھومتی رہتی اور جب کوئی اس کی خیریت پوچھتا تو کہتی؛ ‘مجھے کیا ہونا ہے، جرمل کی خیر مناؤ۔ جرمل ڈاہڈا ہوگا مگر میرا نورا اتھرا ہے اور غصے کا بہت تیز۔’

پوری فضا میں غصے سے زیادہ سراسیمگی تھی۔ اباجان نے اپنے بچپن کی شرارتوں کے جو قصے سنائے ان میں سے ایک تو اسی زمانے کا ہے جسے میں نے اس سے پہلے ایک افسانے کا حصہ بھی بنایا تھا ۔ اسی افسانے’خونی لام ہوا قتلام بچوں کا’ سے مقتبس کرتا ہوں؛

‘وہ رمضان کا مہینہ تھا۔ جنگ ، جرمن فوج اور فوجیوں کا چھتریوں کے ذریعے اترنا؛ اس طرح کی باتیں  ہوتی رہتی تھیں۔ایک مرتبہ یوں ہوا کہ ایک منصوبے کے تحت ہم تراویح کی جماعت میں سب سے آخری صف میں کھڑے ہوئے اور جوں ہی لوگ سجدے میں گئے، پیچھے سے کھسک لیے،اقامت گاہ میں اپنے اپنے کمروں میں گئے،خاکی نکریں پہنیں اور اوپر بنیانیں؛ وہی وردی جو ہم پہن کر پی ٹی کرتے تھے۔پھرچھتریاں لیں اور گاؤں کی ایک طرف سے سیڑھیاں چڑھے اور گھروں کی چھتوں سے بھاگتے ،رکاوٹیں الاہنگتے پھلانگتے دوسری طرف سے اُتر گئے۔اس زمانے میں شاید ہی کوئی مکان پکا ہوتا ہوگا، سب مٹی گارے کے بنے ہوئے اور ایک دوسرے سے جڑے ہوئے تھے۔

شدید گرمی کا موسم تھا۔ ابھی بجلی نہ آئی تھی لوگ چھتوں پر کھاٹیں بچھا کر سویا کرتے۔جسے مچھر دانی جڑتی،  وہ مچھر دانی لگا کر ورنہ یونہی کمر کی چادریں اوپر تان کر سوجایا کرتے تھے۔ہم گاؤں کی چھتوں پر چھاتے لیے بھاگ رہے تھے اور اپنے پیچھے ایک ہنگامہ اٹھاتے جارہے تھے۔ہم صاف مردوں اور عورتوں کے شور اور چیخوں میں سن سکتے تھے:’’جرمن آگئے ،چھتریوں والے اتر گئے ، بچاؤ بچاؤ۔‘‘ ہم دوسری طرف سے اُتر گئے۔کمروں میں گئے اور کپڑے بدل کر پھر تراویح میں شامل ہو گئے، یوں جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔خیر رات بھر یوں لگتا تھا جیسے لوگ چھتریوں والے جرمنوں کو ڈھونڈتے رہے تھے، کلہاڑیاں ، ڈنڈے جس کے ہاتھ جو لگا، تھاما اور گلیوں میں گھوم رہا تھا۔

ہم اپنے تئیں خوف زدہ ہو گئے،اگلے روز شہر کے تھانے سے پولیس آئی،پولیس والے ہیڈ ماسٹر سے بھی ملے تھے۔ شاید انہوں نے سمجھا بجھا کر پولیس والوں کو  واپس کر دیا تھا۔ تاہم ہماری پیشی ہو گئی۔ہیڈ ماسٹر صاحب کے ہاتھ میں ڈنڈا تھا،انہوں نے ہماری طرف دیکھ کر وقفے سے دو بار یوں زور سے ’’ہونہہ،ہونہہ‘‘ کیا تھا کہ ان کا کلف لگا شملہ جھولنے لگا، انہوں نے ہونٹ سختی سے بھینچے ہوئے تھے اور نرخرہ اوپر نیچے تھرک رہا تھا جیسے زور سے آئی ہنسی دبا رہے تھے ،اسی کیفیت میں ان کا ڈنڈا فضا میں بلند ہوا اور کہنے لگے:’’چھتری والے جرمن، تمہاری پی ٹی کی وردیاں پہن کر گاؤں میں اترے تھے۔‘ ‘ بہ مشکل اُنہوں نے جملہ مکمل کیا اوران کے ہونٹوں سے ہنسی کا فوارہ پھوٹ بہا تھا۔’’لالہ !تم بھی بہت شریر ہو ۔ دفعان ہو جاؤ‘‘۔ہم عجلت میں ہیڈ ماسٹر صاحب کے کمرے سے نکل آئے تھے مگر میں نے پلٹ کر دیکھا تھا وہ اپنی میز پر ایک ہاتھ رکھے اور دوسری سے پیٹ دبائے ہنس رہے تھے۔’

یہ واقعہ لگ بھگ ایسا ہی میں نے اباجان سے سنا تھا ۔ بس اس میں اضافہ یہ کرنا ہے کہ اس رات اس شرارت میں جو بچے شریک تھے ان میں سے کسی نے ہیڈماسٹر صاحب کو مخبری کر دی تھی۔

اسی افسانے سے ایک اور واقعہ بھی یہیں بیان کیے دیتا ہوں۔ جی، سچا واقعہ جو ابا جی سے اس زمانے میں سنا تھا۔ اُن کے مطابق تھٹی سیدو شاہ کا وہ تعلیمی ادارہ مدرسہ بھی تھا اور سکول بھی۔ہیڈ ماسٹر صاحب شام کو مسجد کے صحن میں قرآن،حدیث، فقہ اور سیرت کی تعلیم دیتے جبکہ اسکول کی باقاعدہ پڑھائی کمرہ جماعت میں ہوتی تھی۔ اُن دنوں ورنیکلر فائنل کے امتحان کے لیے ضلعی دفتر انتظام کرتا تھا ۔وہ اس امتحان کی تیاری کر رہے تھے جبکہ چھوٹا بھائی فارغ تھا کہ وہ ابھی ابتدائی جماعت میں تھا ۔دونوں وہیں اقامت گاہ میں رہتے تھے ۔

ایک صبح ہیڈ ماسٹر صاحب نے ابا جان کو بلا بھیجا۔یہ معمول کی بات تھی۔ وہ کسان کے بیٹے تھےاور مال ڈنگر سنبھالنے کا ہنر رکھتے تھے ۔جب ضرورت پڑتی ان کی بھینس کو چارہ ڈالتے اور پانی پلا دیا کرتے۔اس بار بھی یہی کرنا تھا ۔ ہیڈ ماسٹر صاحب آٹھویں کا نتیجہ لینے کیمبل پور جا رہے تھے۔ انہوں نے جاتے جاتے کہا؛’میں شام تک لوٹوں گا۔ دیکھو ، میں نے بھینس کو چارہ ڈال دیا ہے۔’ پھر گھر کے سامنے موجود بڑے تنے والے بوہڑ کی جانب اشارہ کرتے ہوئے اپنی بات مکمل کی؛’کچھ دیر میں بھینس چارے سے فارغ ہو جائے تو اسے کھول کر وہاں سائے میں لے جا کر باندھ دینا ، اور ہاں دن کو اسے پانی بھی پلانا،خیال کرنا کہیں دھوپ میں جھلستی نہ رہے۔’

بہ قول ابا جان ہیڈ ماسٹر صاحب کو اُن پر بہت اعتماد تھا۔وہ جو ذمہ داری دیتے وہ پوری ہو جایا کرتی تھی۔محنت کرانے والے استاد تھے ، طالبعلموں کو اپنے بچوں کی طرح سمجھتے اور طالبعلم بھی ان کے کام جی جان سے کرتے تھے مگراُس روز یوں ہوا کہ بھینس کے گتاوا ختم کرنے تک وہ بھینس کے پاس کھڑے رہے اور اس میں اتنی دیرہو گئی تھی کہ وہ اکتاہٹ محسوس کرنے لگے۔

گتاوے میں شاید شیرہ تھا کہ آخر میں بھینس کھرلی میں تلچھٹ چاٹنے لگی تھی۔ ابا جان نے کھونٹے سے بھینس کی رسی کھولی اور اسے کھینچتے ہوئے باہر لارہے تھے کہ منجھلے چچا بھی اپنے ایک دوست کے ساتھ وہاں آگئے۔ وہ اُنہیں کھیلنے کے لیے بلا رہے تھے ۔ ابا جان جلدی جلدی بھینس بوہڑ کے نیچے لے گئے۔تنے کے ساتھ پہلے سے ایک رسی بندھی ہوئی تھی جس سے بھینس کو باندھا جا سکتا تھا مگرانہوں نے جلدی میں رسی اوپر ایک شاخ کے ٹنٹھ میں یوں پھینکی کہ وہ وہیں اٹک گئی ۔ انہوں نے اسے کھینچا ،مگر وہاں رسی ایسی پھنسی کہ نکلتی ہی نہ تھی۔ وہاں کچھ اور لڑکے بھی آگئے تھے اور سب انہیں مسلسل بلا رہے تھے ؛ ’’لالہ !او لالہ آجاؤ۔”

ابا جان نے سوچا تھا کہ بھینس ہی باندھنی تھی، بوہڑ کے تنے سے بندھی رسی سے نہ سہی ، اسی بوہڑ کے ٹھنٹھ سے ہی سہی۔وہ مطمئن ہو کر لڑکوں کے ساتھ کھیلنے نکل گئے ۔ بیچ میں ایک دفعہ بھینس دیکھنے بھی آئے ،وہ مزے سے بوہڑ تلے بیٹھی جگالی کر رہی تھی۔اگرچہ یوں بیٹھے ہوئے اس کی رسی ذرا سی تنی ہوئی تھی اور جگالی کرنے کے لیے بھینس کو اپنی گردن کچھ اوپر اُٹھا کر رکھنا پڑ رہی تھی ۔ ابا جان کی نظر میں سب ٹھیک تھا لہٰذا وہ اقامت گاہ کے طعام خانے سے کھانا کھا کر پھر دوستوں کے ساتھ کھیلنے نکل گئے ۔ حتیٰ کہ سورج سر سے ہوتا دوسری طرف جھک گیا تھا ۔

اچانک اُنہیں ہیڈ ماسٹر صاحب کی آواز سنائی دی۔ ’’لالہ او لالہ ۔‘‘ وہ بھاگم بھاگ وہاں پہنچے اور مری ہوئی بھینس کو دیکھ کر بوکھلا گئے ۔انہوں نے ایک ہی لمحے میں اندازہ لگا لیا تھا کہ دھوپ سے بچنے کے لیے بھینس درخت کے دوسری طرف ہو لی تھی۔ایسے میں اس کی رسی تن گئی، وہ گری اوراُسے اپنی ہی رسی سے پھندا آگیا تھا۔ہیڈ ماسٹر صاحب پاس کھڑے ہکا بکا اسے دیکھ رہے تھے ۔ ابا جی کی سانسیں اوپر کی اوپر اور نیچے کی نیچے تھیں ۔ آخر کار ہیڈماسٹر صاحب نے چہرہ اوپر اٹھایا اور کہا:’’لالہ یہ تم نے…”

اُنہوں نے بات نامکمل چھوڑ دی تھی اورانا للہ پڑھا تو جیسے  چہرے پر ایک اطمینان سا آگیا تھا۔ کہنے لگے؛’خدا کا شکر ہے اسی میں معاملہ طے ہوا،میں تو بہت زیادہ خوش تھا۔’

پھر انہوں نے ابا جان کو خبر سنائی کہ اسکول کا نتیجہ سو فی صد رہا تھا اور یہ کہ ابا جان نے اس امتحان میں پہلی پوزیشن لی تھی۔گویا وہ نقصان جو ہیڈماسٹر صاحب کو بھینس کے مرنے سے پہنچا تھا، اس خوشی کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہ رکھتا تھا جو انہیں اپنے اسکول کے بچوں کے پاس ہونے اور اباجان کے پہلی پوزیشن پانے سے ملی تھی۔

چٹے خمورغبارے

اباجان کے زمانے میں استاد اور شاگرد کا رشتہ کچھ ایسا تھا جیسے دونوں ایک گھر کے افراد تھے۔ استاد کی قدرو منزلت کبھی کبھی توماں باپ سے بھی بلند لگا کرتی تھی۔ اساتذہ کی خدمت کے حوالے سے بعد ازاں اگرچہ کئی ناگفتہ باتیں بھی مشہور ہو گئیں مگر بالعموم اس رشتے میں اخلاص تھا۔ ہماری نسل تک آتے آتے یہ رشتہ قدرے کمزور پڑا مگرمجھے یاد ہے یہ پوری طرح تلف نہیں ہوا تھا جیسا کہ آج کل ہو چکا ہے۔

جس طرح اباجان نے ورنیکلر فائینل کا امتحان دیا تھا یا جماعت ہشتم کا وہ خاص امتحان جو مجھے بھی دینا پڑا تھا،ہم تک آتے آتے سب طلبہ نہ دیتے تھے محض وہ دیتے جن کے بارے میں سکول کے اساتذہ کو یقین ہوتا تھا کہ وہ اچھے نمبروں سے پاس ہو کر تعلیمی وظیفہ پاسکتے تھے۔ اسے مڈل اسٹینڈرڈیا وظیفےکا امتحان کہا جانے لگا تھا۔ تب میں گورنمنٹ مڈل سکول پنڈی گھیب میں پڑھتا تھا۔

امتحانات سے قبل ہمارے مختلف مضامین کے اساتذہ نے شام کے اوقات میں اسکول بلوانا اور مفت کلاسیں لینا شروع کر دیں ۔ اُن دنوں ٹیوشن پڑھنا لعنت سمجھا جاتا تھااور کوئی استاد یہ تہمت اپنے سر لینے کو تیار نہ تھا کہ پیسے لے کر بچوں کوپڑھا رہا ہے۔

یہیں مڈل اسکول کے زمانے کا وہ واقعہ یاد آرہا ہے جو میں نے اپنے ایک افسانے’شاخ اشتہا کی چٹک ‘میں اپنے ایک کردار شکیل سے منسوب کرکے برت لیا تھا۔ اگر اس اقتباس سے شکیل، مسیاڑی اور تنگلی جیسے نام بدل کر اصل ڈال دیں  تو واقعہ فکشن نہیں ہماری زندگیوں کا سچ ہو جائے گا۔لیجیے یہ واقعہ افسانے ہی سے مقتبس کر دیتا ہوں؛

‘اس واقعہ کا تعلق اُن دنوں سے ہے جن دِنوں اُس کے اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے مڈل اسٹینڈرڈ امتحان کی تیاری کے لیےیونین کونسل مسیاڑی کے دفتر میں اضافی پڑھائی کا اہتمام کیا تھا۔ امتحانوں تک اسے اور اس کے ہم جماعتوں کو وہیں رہنا‘پڑھنا اور رات گئے وہیں سونا تھا۔ یہ قصہ شکیل بہت مزے لے لے کر اور خوب کھینچ تان کر سنایا کرتا مگر مختصراً یوں ہے کہ جب ماسٹر صاحب چلے جاتے اور دِن بھر پڑھ پڑھ کر اکتائے ہوئے لڑکوں کو کچھ نہ سوجھتا ‘تو وہ ملحقہ کمرے میں منصوبہ بندی والی دواؤں کے ساتھ پڑے ہوئے چمکیلے لفافوں میں بند سفید غبارے چوری کرکے خوب پھلایا کرتے تھے ۔

  یہ غبارے اگرچہ اس طرح رنگین نہ تھے جیسے تنگلی میں سودے کی ہٹی پر ملتے تھے مگر ان میں ایک ایسی خوبی تھی جو ان رنگین غباروں میں بھی نہ تھی کہ یہ ہوا بھرنے پر بہت پھولتے تھے۔  وہ سب اس پر خوش تھے کہ ان کے ہاتھ بہت سے چٹے خمور غبارے لگ گئے تھے اور رات گئے ان میں اس پر مقابلہ لگا رہتا تھا کہ کون انہیں سب سے زیادہ پھلائے گا ۔

شکیل کے مطابق ان دنوں ان غباروں پر سفید رنگ کا سفوف ملا ہوتا تھا جس سے ان کے ہونٹ اور گال یوں ہو جاتے تھے جیسے ان پر آٹا مل دیا گیا ہو۔  اسی سفیدی نے ان کی شرارتوں کا پول ہیڈ ماسٹر صاحب پر کھول دیا تھا۔ ہیڈ ماسٹر صاحب کو پہلے تو غصہ آیا پھر کچھ سوچتے ہوئے ہنس پڑے اور کہا ،’نامعقولو! یہ ناپاک ہوتے ہیں کہ اس میں بیمار پیشاب کرتے ہیں ۔’

اگلے روز ساتھ والے کمرے پر تالا نہ پڑ گیا ہوتا تو وہ ضرور تجربہ کرتے کہ ان غباروںکو بیمار کیسے استعمال کرتے تھے کہ ہیڈ ماسٹر صاحب کی بات انہیں مزیدالجھا گئی تھی ۔