خبریں

’نریندر مودی کو بدعنوانی سے نفرت نہیں ہے، بدعنوان لیڈروں کے بارے میں بتانے پر کچھ نہیں کیا‘

صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ انہوں نے وزیر اعظم نریندر مودی کے سامنےان کےایک وزیر اور گوا کے وزیر اعلیٰ کے خلاف بدعنوانی کے معاملات اٹھائے تھے، جن پر انہوں نے کوئی کارروائی نہیں کی۔ اس کے بجائے آناً فاناً میں ان کا تبادلہ کر کے میگھالیہ بھیج دیا۔

ستیہ پال ملک وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: پی ایم او انڈیا/ٹوئٹر)

ستیہ پال ملک وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ۔ (فائل فوٹو بہ شکریہ: پی ایم او انڈیا/ٹوئٹر)

نئی دہلی: صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے دعویٰ کیا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو ان کی پارٹی کے رہنماؤں اور وزرائے اعلیٰ کی طرف سے کی جا رہی بدعنوانی سے کوئی مسئلہ نہیں ہے اور جب انہوں اس بابت ان سے بات کی تو بھی انہوں نے کرپشن میں ملوث رہنماؤں کے خلاف کوئی  کارروائی  نہیں کی۔

اس بات چیت  کے ایک حصے میں کرن تھاپر ملک کی طرف سے صحافی پرشانت ٹنڈن کو دیے گئے انٹرویو  کا حوالہ دیتے ہوئے آر ایس ایس لیڈر رام مادھو اور ریلائنس کی ایک انشورنس کمپنی کے معاملے کے بارے میں  سوال کیا۔

اس انٹرویو میں ملک نے کہا  تھاکہ ریلائنس جموں و کشمیر میں ایک انشورنس اسکیم کھولنا چاہتی تھی اور انہوں نے اسے منظوری  نہیں دی  تھی ، اور اس کے بعد رام مادھو اگلی صبح سات بجے ان کے گھر پہنچ گئے تھے۔

کرن نے ملک سے اس بارے میں پوچھا تھا، آپ نے ان سے کہا کہ میں کچھ غلط نہیں کروں گا۔ وہ کون سا غلط کام کروانا چاہتے تھے۔

ملک نے ہنستے ہوئے کہا، ‘مجھے بھی ان کی طرف سے نوٹس آ چکا ہے۔ وہ مجھے صرف یہ بتادیں کہ وہ راج بھون کیا کرنے گئے تھے۔ایک دن پہلے ہی یہ معاملہ ختم ہوا تھا، اگلی صبح وہ  گھر آگئے۔ میں نے پوچھا کہ کیا حکم ہے تو بولےآپ نے انشورنس والا معاملہ ختم کر دیا۔ میں نے کہا ہاں، بولے چٹھی چلی گئی ۔ میں نے کہاپوچھتا ہوں۔ چیف سکریٹری نے بتایا کہ شام کو ہی چلی گئی تھی، تو رام مادھو اپ سیٹ ہوئے۔

اس پر ان سے سوال کیا گیا کہ انہوں نے اس انشورنس اسکیم سے انکار کیوں کیا تھا۔

اس پر ستیہ پال ملک نے کہا، ‘جس دن میں نے حلف لیا تھا، اس کےاگلے ہی دن سے وہ ایجنڈےپر آگئے تھے۔ سب کا اس بات پراتفاق تھا کہ اسے (اسکیم) پاس ہونا چاہیے، وہ  پاس بھی  ہو گیا تھا۔ دو دن بعد فائل منگوا کر میں نے اسے منسوخ کر دیا۔ فوری طور پر ملازمین کی طرف سے مخالفت ہوئی کیونکہ ہر ملازم کو سال بھر کے لیے ساڑھے آٹھ ہزار ادا کرناتھا۔ پھر ریٹائرڈ ملازم کو 20 ہزار کے اوپر دینا تھا۔ میں نے کہا کہ دہلی میں تو سی جی ایچ ایس میں ہمیں کچھ ادا نہیں کرنا پڑتا، تو ہم یہاں کیوں ادا کریں گے؟ پھر اس میں جن ہسپتالوں کو شارٹ لسٹ کیا گیا  تھاوہ تھرڈ کلاس ہسپتال تھے۔ کوئی معروف ہسپتال نہیں تھا۔ تو میں نے کہا یہ کیا بات ہوئی ۔ ہسپتال بھی اچھے نہیں، علاج بھی نہیں، پیسے بھی لیے جائیں  گے، تو میں نے کہا  کہ سی جی ایچ ایس کے پیٹرن پر ہی کیجیے۔

اس کے بعدتھاپر نے چھا کہ کیا رام مادھو اتنی صبح ان سے ملنے اس لیے آئے تھے کہ وہ چاہتے تھے کہ آپ  اس اسکیم  کو منظوری کر  لیں۔

ملک  جواب میں کہتے ہیں،انہوں نے براہ راست تونہیں کہا، لیکن میں سمجھ گیا کہ کیا ہوا ہے۔ کوشش  ان کی یہی رہی ہوگی۔ وہ کبھی نہیں آئے مجھ سے ملنے۔ تاہم  وزیراعظم بھی کہتے تو میں نہیں بدلتا۔

اس اسکیم کے ساتھ ہی ایک اور ہائیڈل کو منظور کرنے کے بدلے  300 کروڑ روپے کی پیشکش کی بات میڈیا میں آئی تھی۔ تھاپر نے اس کے بارے میں سوال کیا۔

اس پر ملک نے کہا، ‘چرچہ تھا کہ ان دونوں اسکیموں میں 150-150 کروڑ روپے لگے تھے، اگر میں یہ کرتا تو مجھے مل جاتا۔ایک  ہائیڈل اسکیم تھی، وہ بھی منسوخ ہو گئی۔ کہا گیا تھا کہ دونوں کے 150-150 کروڑ روپے تھے۔

اس پر، تھاپر نے ان کے پچھلے انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا، آپ نے یہ بھی کہا تھا کہ جب سی بی آئی نے آپ سے پوچھا تو آپ نے کہا کہ وزیر اعظم کے لوگ ہیں!

اس پر انہوں نے جواب دیا،میں نے کہا تھا کہ یہ تمام لوگ وزیراعظم کے قریبی ہیں۔ پہلے- امبانی، دوسرے رام مادھو، تیسرے حسیب درابو۔ میں جب بھی وزیر اعظم سے ملنے جاتا تو وہ مجھ سے پوچھتے کہ کیا میں درابو سے ملا تھا؟ دو تین بار میں نے منع کیا کہ  نہیں، پھر ایک دن میں نے اسےبلا ہی لیا۔ انہوں نے مجھے کہا کہ آپ نے ہمارا ہائیڈل کینسل کر دیا، وہ توہم کہیں سے کروا  ہی لیں گے۔ انہوں  نے شاید  کروا بھی لیا۔ میں نے پی ایم کو بتایا کہ میں ان سے ملا ۔ انہوں نے پوچھا کیا ہوا، تو میں نے بتایا کہ  وہ تودلالی کا کام لے کر آئے تھے۔ میں نے منع کر دیا۔ تووہ بولے ٹھیک کیا۔

قابل ذکر ہے کہ درابو پی ڈی پی-بی جے پی سرکار میں جموں و کشمیر کے وزیر خزانہ  تھے۔

کرن تھاپر نے مزید سوال کیا کہ،جب آپ کہتے ہیں کہ وزیراعظم کے قریبی لوگ ہیں تو کیا وزیراعظم خود بھی اس میں ملوث ہیں؟

ملک نے کہا، ‘نہیں۔ وہ ملوث نہیں ہیں، لیکن میں سیفلی کہہ سکتا ہوں کہ وزیر اعظم کو کرپشن سے زیادہ نفرت نہیں ہے۔ اور یہ اس کا بڑا ثبوت ہے کہ میں نے گوا میں ان سے شکایت کی کہ نچلی سطح پر بدعنوانی ہو رہی ہے۔ تیسرے دن انہوں نے خود مجھے فون کیا اور کہا کہ آپ کی جانکاری غلط ہے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے کس سے معلوم کیا، انہوں نے بتایا فلاں شخص سے ۔ میں نے کہا کہ وہ تو خود وزیر اعلیٰ کے گھر  میں بیٹھ کر پیسے لے رہا ہے۔آخرکار ایک ہفتے کے اندر میرا وہاں سے تبادلہ ہو گیا۔ تو میں کیسے مانوں کہ وہ کرپشن کے خلاف ہیں۔

انہوں نے مزید کہا، ‘میں نے ایک آفس کا کیس اور بتایا کہ ان کے یہاں سےفون جاتا ہے کہ پی ایم او سے بول رہے ہیں، جتیندر سنگھ کے یہاں سے۔ ہمارے وزیر سے رابطہ کرو۔ میں نے کہا کہ آپ کے دفتر کا نام استعمال ہو  رہا ہے، تو انہوں نے امت شاہ سے کہا۔ انہوں نے مجھ سے تصدیق کی، میں نے کہا کہ ہاں ایسا ہی ہو رہا ہے۔ چیف سکریٹری نے بھی مجھے یہ بتایا ہے، آپ اس  سے بھی پوچھ لیں۔ لیکن جتیندر سنگھ تو وہیں ہیں جہاں وہ تھے۔ تو میں کیسے مان لوں کہ کرپشن نہیں ہے۔

اس پر تھاپر نے کہا، لیکن وزیر اعظم دوسری پارٹیوں پر الزام لگا رہے ہیں، روز ریلیوں میں کہتے ہیں کہ میں نے کرپشن ختم کر دیا ہے؟

ملک نے کہا کہ وہ کم از کم ایک کیس تو بتا دیں۔ انہوں  نے دو  بتا  دیے، جن میں انہوں نے شکایت کی تھی اور دونوں 100فیصدی درست ہیں۔ ملک نے کہا، ‘آپ گوا کے بچے بچے  سے پوچھ لیں کہ وہاں کا وزیر اعلیٰ کیسا ہے؟

اس پر کرن کہتے ہیں،’اسی لیے آپ کو سات آٹھ ماہ کے اندر وہاں سے ہٹا دیا گیا؟’

ملک حامی بھرتے ہوئے بتاتے ہیں، وہاں کے جو لوک گلوکار ہیں ، انہوں راج بھون کے سامنے کھڑے ہو کر ہمارے حق میں گانا گایا۔ ایسا کبھی حکومت کے حق میں نہیں ہوتا۔ وہاں ریلی نکلی ، میں چلا آیا تھا۔ انہوں نے مجھ سے کہا جلدی پہنچو، گوا سے کوئی فلائٹ نہیں تھی، ایئر فورس کا ایک ٹوٹا  ردی سا پلین بھیجا، میں اس سے گیا۔ وہ صبح چل کر شام کو پہنچا۔

انہوں نے مزید کہا  کہ انہیں وہاں سے ہٹانے کی جلدی تھی اور انہوں نے اس کی وجہ بتاتے ہوئے کہا کہ ‘وہاں ماحول بن رہا تھا کہ یہ  ہمارا  سپورٹر ہے۔ میں نے وہاں کہا کہ  اس روٹ پرفلاں فلاں گاڑی مت چلوائیے، اس سے کورونا پھیلے گا، یہ وہاں پھیل گیا کیونکہ وزیر اعلیٰ گاڑیوں کے مالکان سے پیسے لیتا تھا۔ بہت ساری چیزیں تھیں، جن میں لوگوں نے محسوس کیا کہ یہ  (گورنر) ہمارے حق میں ہیں۔

تھاپر نے مزید سوال کیا کہ انہیں کشمیر سے بھی  14مہینوں میں ہٹا دیا گیا۔ کیا اس کی وجہ ریلائنس والی  اسکیم تھی۔

اس کی تردید کرتے ہوئے ملک نے کہا، ‘ کشمیر میں تو میں رہ ہی نہیں سکتا تھا کیونکہ اس کا درجہ  کم ہو گیا  تھا۔ اور وہاں جو لیفٹیننٹ گورنرہوتا ہے ، وہ  گورنر سے بہت نچلی سطح پر ہوتا ہے، تووہ میں رہتا ہی نہیں اگر کہتے بھی تو۔

کرن یہاں پر کہتے ہیں،’تو جو کچھ آپ کہہ رہے ہیں، وہ عوام سنے گی، حکومت بھی سنے گی اور ہو سکتا ہے کہ یہ وزیر اعظم کے کانوں تک پہنچے، جس پر ملک ٹوکتے ہیں کہ ایک گھنٹے میں ان کے پاس   پہنچ بھی  جائے گا۔

تھاپر سوال کرتے ہیں، ‘آپ کو اس بارے میں کوئی تشویش ہے؟’

ستیہ پال ملک بے پراہی سے کہتے ہیں،’میں فقیر آدمی ہوں، وہ میرا کیا بگاڑیں گے؟ جیل میں ڈال دیں گے؟ میں کئی بار جیل جا چکا ہوں۔ کشمیر کے معاملے میں تو مجھے سخت ہدایت دی گئی تھی کہ میں کچھ نہ بولوں۔ ایک دن انہوں نے مجھے گوا میں فون کرکے کہا، ‘آپ نے پھر کشمیر پر بول دیا۔ میں نے کہا کہ میں نے کچھ نہیں کہا لیکن نتیجہ اخذ کیا۔ تو انہوں نے کہا کہ اگر آپ دوبارہ کشمیر کی بات کریں گے تو میں آپ سے کبھی نہیں ملوں گا۔

کرن کے یہ  کہنے پر کہ اس بات چیت میں  وہ کشمیر کے بارے میں کھل کر بولے ہیں ، ملک کہتے ہیں،’کیوں نہیں بولنا چاہیے!آپ حیرت کروگے کہ کشمیر پرجو  ان کی مشاورتی کمیٹی ہےاس  نے انہیں لکھا تھا کہ انہیں پاکستان سے بڑا خطرہ ہے، انہیں مکان  اورزیڈ پلس  سیکورٹی ملنی چاہیے۔ لیکن آج میرے پاس صرف ایک سپاہی ہے۔  کرایے کے مکان میں رہ رہا ہوں میں۔

تھاپر کہتے ہیں،’تو کیا یہ حکومت کی لاپرواہی نہیں ہے؟’ ملک مسکراتے ہوئے مذاقیہ لہجے میں کہتے ہیں، سرکار چاہتی ہے کہ مار دے کوئی اس کو۔

تھاپرآگے کہتےہیں اس بیان کے بعد یہ نفرت مزید بڑھے گی؟ وہ بہت ناراض ہو ں گے آپ سے۔ ملک جواب دیتے ہیں،کتنے بھی ناراض  ہوں ، جو فیکٹ ہے وہ فیکٹ ہے’۔