خبریں

’نریندر مودی کو کشمیر کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے‘

سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ کشمیر کا مسئلہ صرف کشمیریوں نے پیدا نہیں کیا ہے، 50 فیصدی دہلی نے  پیدا کیا ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ حکومت ہند نے اس ریاست میں کبھی بھی منصفانہ انتخابات نہیں کروائے، ایک بار تو  نتائج  ہی بدل دیے تھے۔

فروری 2019 میں کشمیر کی ڈل جھیل پر وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@narendramodi)

فروری 2019 میں کشمیر کی ڈل جھیل پر وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ٹوئٹر/@narendramodi)

نئی دہلی:سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات کرتے ہوئے جموں و کشمیر کے سابق گورنر ستیہ پال ملک نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو کشمیر کے بارے میں کوئی جانکاری نہیں ہے۔ وہ اپنے میں مست رہتے ہیں۔

ایک گھنٹے سے کچھ زیادہ کی اس بات چیت کے ایک حصے میں کرن تھاپر نے ملک سےجنوری 2022 میں ہریانہ دادری میں دیے گئے ان کے  بیان کہ کسان تحریک کے سلسلے میں جب وہ وزیر اعظم سے ملے تو، ‘پانچ منٹ میں ان کی لڑائی ہو گئی تھی کا حوالہ دیتے ہوئے پوچھا کہ  وہ آج کی تاریخ میں وزیراعظم کے بارے میں کیا سوچتے ہیں۔

ملک نے جواب دیا،’میری ان کے بارے میں وہ رائے نہیں ہے جو پوری دنیا کی ہے۔ بہت سی باتیں ہیں۔ جیسے- میں جب بھی ان سے ملا، ان کے پاس کوئی جانکاری نہیں تھی۔ ہم نے جب بھی کشمیر کی بات کی تو ان کی جانکاری انتہائی سطحی تھی۔ مثال کے طور پر میں نے ایک بار ان سے کہاکہ یہاں اصل مسئلہ جماعت ہے۔ ان کو اس کی فکر ہی نہیں تھی۔ انہوں نے کہا اس پر نوٹ  دےدو، میں نے بیس صفحات کا نوٹ دیا، لیکن انہوں نے اس پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ ہاں، امت شاہ نے کیا۔ وہ اب بھی کر رہے ہیں۔ جماعت بہت طاقتور ہے، 20-30 فیصدی تو  ملازمین ان کے ساتھ ہیں۔ ان کے پاس بہترین پراپرٹی ہے، مسجدیں ہیں…’

ان کے جواب کے بعد، تھاپر حیرت  سے پوچھتے ہیں کہ وزیر اعظم جواپنے آپ کو کافی جانکار بتاتے ہیں، وہ لاعلم  (اگنورنٹ)ہیں!

اس پر ملک کہتے ہیں کہ،اگنورنٹ کیا، مست ہیں اپنے میں – باقی جو ہو رہا ہے وہ بھاڑ میں جائے۔ اور کشمیر کے بارے میں بتاتا ہوں۔ انہیں کشمیر کے کسی حقیقی مسئلے کا علم نہیں تھا۔ انہیں یہ بھی معلوم نہیں تھا کہ حریت کیسےآپریٹ ہوسکتی ہے۔ میں نے وہاں جاتے ہی ایک انٹرویو دیا تھا، انڈین ایکسپریس میں آیا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ کشمیر کے سارے مسائل کشمیریوں نے پیدا نہیں کیے، 50 فیصدی  دہلی نے پیدا کیے ہیں۔ تب حریت کے سربراہ نے بیان دیا کہ گورنر نے پچاس فیصد درست کہا ہے۔ میں نے کہا باقی پچاس تم صحیح بول دو۔

ملک نے مزید کہا، ‘میں آپ کو اور بتاتا ہوں۔ مفتی سعید کے ایک بہت اچھے ساتھی تھے، ڈپٹی چیف منسٹر مظفر بیگ۔ وہ ایک دن مجھ سے ملنے آرہے تھے۔ کچھ دیرہوئی تو میں نے پوچھا کہ کہاں لیٹ  ہوگئے، تو بولےکہ گیلانی بلا لیا تھا، پوچھنے لگے کہاں جا رہے ہو، میں نے بتایا گورنر صاحب سے ملنے۔ تو انہوں نے کہا کہ یہ گورنر صحیح  ہے، اس سے تو ڈیل ہو سکتی ہے۔ انہوں نے مظفر بیگ سے کہا تھا کہ – اس لیے کہ وہ  دل نکال کر ہتھیلی پر رکھ لیتا ہے جب بات کرتا ہے۔ تکڑم کی کوئی بات نہیں کرتا۔

ملک نے مزید کہا، ‘میرا پوائنٹ یہ ہے کہ اگر ہم وہاں ایمانداری سے کام کریں- ہم نے وہاں کبھی منصفانہ انتخابات نہیں کرائے، ایک بار توہم نے انتخابی نتائج تبدیل کیے، ایک بار بخشی کے دور میں ہم نے تمام پرچےکینسل کر دیے- تو یہ جو ہماری چال بازیاں ہیں،ان سے ہمارے بارے میں یقین پیدا نہیں  ہوتا۔ میں نے وزیر اعظم کو دو تین بار اشارہ کیا کہ یہ مسئلہ حل ہو سکتا ہے، لیکن ان کی کوئی دلچسپی  ہی نہیں تھی۔

وہ اپنی بات جاری رکھتے ہیں،’میں اور بتاتا ہوں۔ ایک فٹ بال ٹیم تھی، جسے میں نے سپورٹ کیا۔ ایک کروڑ روپیہ میں نے دیا، ایک جموں کشمیر بینک سے دلوائے۔ وہ پہلے ہی جھٹکے میں ملک کی تین بڑی ٹیموں میں شامل ہوگئی۔ اس کا ایک میچ  ہوتاہے،اس میں 20 ہزار لڑکے آگئے دیکھنے کے لیے۔ تویاسین ملک نے حریت کا ہنگامی اجلاس بلایا اور گیلانی کو بتایا کہ یہ تمام لڑکے وہاں  چلے گئے ۔ تو گیلانی نے کہا کہ سب اپنی مرضی سے گئے ہیں، چپ رہو۔  دس سال سے  انہوں نےسینما نہیں دیکھا اور یہ کھیل بھی نہیں دیکھیں گے۔ اور میں گورنر کی اس بات سے متفق ہوں کہ یا تو گیند ان کے ہاتھ میں دو ورنہ وہ پتھر اٹھائیں گے۔ چنانچہ میں نے ہر گاؤں میں لڑکوں کو کھیل کا میدان دیا۔

اس کے بعد تھاپر نے سوال کیا،’جس وزیراعظم کو کشمیر کے بارے میں غلط جانکاری  ہے، یا جانکاری ہی نہیں ہے، انہوں نے کشمیر کے حوالے سے سب سے بڑا فیصلہ لے لیا۔ کیا یہ اسی جہالت میں لیا، اسی ناقص علم کے ساتھ ؟’

اس پر ملک نے کہا کہ وہ توصرف اپناایجنڈہ لاگو کر رہے تھے۔ تھاپر نے کہا کہ وہ (ملک) کشمیر کے بارے میں اچھی سمجھ رکھتے  ہیں، تو کیا وہ خود ایسا کرتے۔

ملک واضح طور پر انکار کرتے ہوئے کہتے ہیں،’میں تو نہیں کرتا۔ 370 تو ہٹاتا ، لیکن ریاست کی حیثیت کو کم نہیں کرتا۔ میں اب بھی کہہ رہا ہوں کہ کشمیریوں کو سب سے زیادہ ٹھیس (ریاست کا) درجہ کم ہونے کی وجہ سے ہی لگی ہے۔

اس کے بعد تھاپر نے پوچھا، ‘ 2019 کے بعد سےکشمیر میں  کس طرح سےحکومت کی گئی،اس کے بارے میں بتائیے۔ کیا دہلی نےاور غلطیاں کی ہیں؟

اس پر ملک کہتے ہیں،’نہیں، وہاں توکچھ نہیں ہوتا تھا۔ گورنر گولف کھیلتےتھے،مزے لیتے  تھے۔ دہلی کی طرف سے کوئی پہل نہیں ہوتی تھی۔ ایک بار جب وہاں سیلاب آیا تو مودی جی نے پہل کی تھی۔

اس پر کرن ٹوکتے ہیں  کہ وہ 2014 کی بات ہے!

وہ مزید پوچھتے ہیں کہ کیا اب مکمل ریاست کا درجہ بحال ہوگا، الیکشن ہوں گے؟ اس کے جواب میں ملک کہتے ہیں’اب ایسا ایوان میں تو وعدہ کیا ہےامت شاہ نے، لیکن مجھے نہیں لگتا کہ پی ایم جلدی اسے کریں گے۔’

کرن کےیہ  کہنے پر کہ ایسا نہ کرنا ان کی غلطی ہو گی، ملک کہتے ہیں،’ہاں، انہیں ایک دم سے ایسا کرنا چاہیے۔ انتخابات (2024) سے پہلےہی کرنا چاہیے۔ اور کیوں نہیں کرنا چاہیے! اگر آپ کو لوگوں میں اعتماد پیدا کرناہے توکس کا انتخاب کروا  رہے  ہو! بلدیہ کا!ریاست کا کرواؤ، جو اسمبلی ہو۔