خبریں

عتیق اور اشرف کی ہلاکت پولیس کے رول کے بارے میں شک پیدا کرتی ہے: جسٹس لوکور

عتیق احمد اور اشرف کی ہلاکت کے حوالے سے سینئر صحافی کرن تھاپر سے بات چیت میں سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکور نے کہا کہ ‘پولیس انکاؤنٹر میں موت کے واقعات پہلے بھی ہوچکے ہیں، لیکن یہ شاید پہلا موقع ہے جب پولیس کی حراست میں لیے گئے افراد کو کسی تیسرے شخص نے مارا ہو۔’

جسٹس مدن بی لوکور اور کرن تھاپر۔ (تصویر: دی وائر)

جسٹس مدن بی لوکور اور کرن تھاپر۔ (تصویر: دی وائر)

نئی دہلی: سپریم کورٹ کے سابق جسٹس مدن بی لوکور نے کہا کہ اتر پردیش کے الہ آباد میں پولیس حراست میں عتیق احمد اور ان کے بھائی اشرف کا بہیمانہ قتل ‘حیران کن’ ہے اور اس سے اتر پردیش پولیس کے بارے میں بہت سے تشویشناک سوال اور شکوک پیدا ہوتے ہیں۔

سینئر صحافی کرن تھاپر کے ساتھ بات چیت میں جسٹس لوکور نے اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کے ‘مٹی میں ملا دیں گے’ والے بیان پر سخت تنقید کی اور اسے ‘انتہائی بدقسمتی’ قرار دیا۔

انہوں نے یہ بھی کہا کہ سپریم کورٹ نے 28 مارچ کو پولیس حراست میں سکیورٹی کے لیے عتیق احمد کی درخواست کو نمٹاتے ہوئے پولیس سے ‘یقین دہانی’ کروائی تھی کہ وہ گینگسٹر سے سیاستداں بنےعتیق کی حفاظت کریں گے۔ انہوں نے دو بار کہا کہ عدالت کو ‘زیادہ محتاط’ ہونا چاہیے تھا۔

بات چیت میں جسٹس لوکور نے کہا کہ ‘جبکہ پہلے بھی  انکاؤنٹر میں ہلاکتیں ہوئی ہیں’ لیکن احمد برادران کی ہلاکت’شاید پہلی بار ہےجب پولیس حراست میں کسی تیسرے شخص کے ذریعے قتل  کا واقعہ پیش آیا ہے۔’ پولیس وہاں ان کی حفاظت کے لیےتھی ،لیکن پورے طور پر ناکام رہی۔

معلوم ہو کہ اتر پردیش کے شہر الہ آباد میں ایک میڈیکل کالج میں جانچ کے لیےپولیس اہلکاروں کے ذریعےلے جائے جانے کے دوران 60 سالہ عتیق احمد اور اشرف ، جو ہتھکڑی میں تھے، کو صحافیوں کے بھیس میں آئے تین افراد نےاس وقت گولی مار کر ہلاک کر دیا، جب وہ  صحافیوں کے سوالوں کا جواب دے رہے تھے۔

فائرنگ سے چند گھنٹے قبل احمد کے بیٹے اسد احمد کی تجہیز و تکفین عمل میں آئی تھی، جو13 اپریل کو جھانسی میں ایک پولیس انکاؤنٹر میں اپنے ایک ساتھی کے ساتھ  ماراگیا تھا۔

اتر پردیش پولیس نے 14 اپریل کو کہا تھا کہ اس نے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ کی قیادت والی حکومت کے چھ سالوں میں 183 مبینہ مجرموں کو انکاؤنٹر میں مار گرایا  ہے اور اس میں اسد اور اس کا ساتھی بھی شامل ہے۔

عتیق کے بیٹے اسد احمد اور غلام ،امیش پال کے قتل میں مطلوب تھے، جن کو24 فروری کو الہ آباد واقع ان کے گھر کے باہر دن دہاڑے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ پیشے سے وکیل امیش پال  2005 میں بی ایس پی ایم ایل اے راجو پال کے قتل کے گواہ تھے۔ عتیق احمد پر ایم ایل اے کے قتل کا الزام ہے۔

امیش پال کے قتل کے سلسلے میں عتیق احمد، ان کی اہلیہ شائستہ پروین، ان کے دو بیٹوں، ان کے چھوٹے بھائی خالد عظیم عرف اشرف اور دیگر کے خلاف بھی ایف آئی آر درج کی گئی تھی۔

سپریم کورٹ میں دائر درخواست میں عتیق اور اشرف کے قتل کی تحقیقات کے لیےماہرین کی ایک کمیٹی بنانے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔

جسٹس لوکور نے اس واقعہ کے سلسلے میں اتر پردیش پولیس کے رول کے حوالے سے بھی کچھ سوال اٹھائے۔

انہوں نے پوچھا؛ پہلا، پولیس نے قاتلوں کو پولیس کی حراست  میں کیوں نہیں لیا، جوڈیشیل ریمانڈ پر کیوں بھیج دیا؟ کیا وہ تحقیقات نہیں کرنا چاہتے؟ دوسرا، کیا پولیس مسلح تھی؟ اگر ایسا تھا تو جوابی فائرنگ کیوں نہیں کی گئی؟ اگر نہیں تھی کیوں نہیں؟ عتیق احمدپر واضح طور پر خطرہ تھا۔ تیسرا، قاتلوں کو کیسے پتہ چلا کہ عتیق اور اس کے بھائی کو رات 10.30 بجے ہسپتال لے جایا جا رہا ہے؟ اور انہیں کیسے پتہ چلا کہ وہاں میڈیا ہوگا اور وہ میڈیا پرسن ہونے کا دکھاوا کر سکتے ہیں؟ کیا انہیں کسی نے اطلاع دی تھی؟ چوتھا، رات 10.30 بجے انہیں طبی معائنے کے لیے لے جانے کی کیا ضرورت تھی؟ انہیں صبح کیوں نہیں لے جایا جا سکتا تھا، خاص طور پر جب ان کی پولیس حراست اتوار کو شام 5 بجے ختم ہونے والی تھی؟

یوگی آدتیہ ناتھ کے ‘مٹی میں ملا دیں گے’والے بیان کے بارے میں انہوں نے کہا، ‘ایسا کہنا بہت بدقسمتی کی بات ہے۔ یہ بالکل ٹھیک نہیں ہے۔ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ قانون کی حکمرانی، ہمارے عدالتی نظام میں سب ٹھیک نہیں ہے۔

اس پوری بات چیت کونیچے دیے گئے لنک پر دیکھ سکتے ہیں۔