فکر و نظر

کاؤنٹر کرنٹس: اکیس سالوں سے جاری عوامی صحافت کا یہ سفر

اس نیوز پورٹل کےمدیر اعلیٰ  بینو میتھیو کی زندگی صحافتی برادری کے لیے ایک ایک سبق ہے کہ پیسہ، ترقی یا شہرت کبھی بھی اصولوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صحافی کو اقتدار کی گلیوں میں جگہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ادارتی آزادی کو کیسے بچائے رکھا جائے، یہ ان  کی پہلی ترجیح ہے۔

کاؤنٹر کرنٹس کا سرورق اور اس کے مدیر اعلیٰ بینو میتھیو۔

کاؤنٹر کرنٹس کا سرورق اور اس کے مدیر اعلیٰ بینو میتھیو۔

گزشتہ 27مارچ کو’ کاؤنٹر کرنٹس’ نام کے ایک متبادل انگریزی نیوز پورٹل نے اپنے سفر کے اکیس  سال پورےکیےہیں۔ بہت سارے قارئین کاؤنٹر کرنٹس ڈاٹ او آر جی سے واقف ہوں گے۔ آج یہ نیوز پورٹل اعتماد اور مظلوم طبقات کی آواز بن چکا ہے۔ اس کے قارئین کی تعداد ملین میں ہے۔ ہزاروں کی تعداد میں لوگ اس کو ہر روز پڑھتے ہیں۔

ہندوستان کے علاوہ، اس کے قاری یورپ، امریکہ، مغربی ایشیا، جنوبی ایشیا، آسٹریلیا اور دیگر ممالک میں موجود ہیں۔ اس ویب سائٹ پر ہزاروں کی تعداد میں خبریں شائع ہو چکی ہیں۔ کاؤنٹر کرنٹس پر شائع شدہ خبریں اور مقالے نہ صرف لوگوں کو معلومات بہم پہنچا رہے ہیں، بلکہ مستقبل کے مؤرخیں کے لیے اہم ماخذ بھی محفوظ کر رہے ہیں۔

اس نیوز پورٹل سے بڑے بڑے سماجی کارکنان، ادبااور صحافیوں کی جماعت جڑی ہوئی ہے۔ اس سفر کے میر کارواں بینو میتھیو ہیں، جو اس نیوز پورٹل کےمدیر اعلیٰ ہیں، ان کی زندگی متبادل میڈیا کی علامت بن چکی ہے۔

آج سے 53 سال پہلے کیرالہ کے پہاڑی اور پسماندہ ضلع اِڈُکی میں بینو میتھیو کی پیدائش ایک شامی عیسائی خاندان میں ہوئی تھی۔ ان کے والدین کے 13 بچے تھے، جن میں چھ بیٹے اور سات بیٹیاں شامل ہیں۔ بینو کی ابتدائی تعلیم ملیالم میڈیم سے ہوئی تھی، حالانکہ انہوں نے انگریزی اور ہندی کا مطالعہ بطور دوسری اور تیسری زبان کیا۔

کالج میں بینو نے سائنس کا انتخاب کیا اور وہ بی اے کیمسٹری کے طالبعلم بنے۔ مگر بینو کی دلچسپی درسی کتابوں سے کہیں زیادہ، ادبی اور سماجی موضوعات کی کتابوں میں تھی۔ کالج کے دنوں میں بینو نے دنیا کے کلاسک لٹریچر کے ایک بڑے حصے کو پڑھ ڈالا۔

بینو نے امتحان تو پاس کر لیا، مگر ان کا شمار ایک ‘مثالی’ طالبعلم میں نہیں ہوتا تھا، کیوں کہ وہ غیر درسی کتابیں پڑھنے کے بڑے شائق تھے۔ ادب سے رغبت نے ان کو انگریزی لٹریچر کے قریب کیا۔ پھرانگریزی ادب میں ایم اے کیا۔

اس بیچ گھر کے مالی حالات اچھے نہیں تھے، اس لیے گھر واپس لوٹنا پڑا، وہ کھیت میں کام کرنے لگے۔ صبح سے شام تک وہ کام کرتے اور رات کو جب بھی وقت ملتا، توپڑھنے بیٹھ جاتے۔ انہی دنوں انہوں نے کیرالہ کے ایک مقامی اخبار میں نوکری سے متعلق اشتہار دیکھا اور درخواست ڈال دی۔ اخبارنے ان کو نوکری پر رکھ لیا۔ ان کو خبریں لکھنے کے علاوہ اخبار کے پیج بنانے کی ذمہ داری بھی دی گئی۔ تنخواہ ملنے کے بعد، مالی تنگی دور تو ہوئی، مگر وہ بطور صحافی مطمئن نہیں تھے۔

وہ دیش اور دنیا کے مسائل کو لےکر فکر مند تھے۔ وہ قلم کی طاقت سے دبی ہوئی آواز کو بلند کرنا چاہتے تھے۔ مگر اخبار ان کو خاطر خواہ جگہ فراہم نہیں کررہا تھا۔ یہیں سے بینو کے دل میں متبادل میڈیا کھڑا کرنے کے آئیڈیا نے جنم لیا۔

یہ بات سن 2000 کے آس پاس کی ہے۔ تب ہندوستان کے کئی حصوں میں انٹرنیٹ پہنچ چکا تھا۔ بینو نے محسوس کیا کہ انٹر نیٹ ایک ایسا وسیلہ ہے، جو دنیا کے لوگوں کو آپس میں جوڑ سکتا ہے۔ ماہر لسانیات، فلسفی اور امریکی پالیسی کے بڑے ناقد نوم چومسکی کے بینو بڑے مداح تھے۔ انٹرنیٹ کی مددسے اب بینو چومسکی کو براہ راست پڑھنےلگے۔

اسی انٹر نیٹ نے بینو کو دنیا میں رونما ہو رہے بڑے واقعات کوسمجھنے کا موقع فراہم کیا، بالخصوص، فلسطین کی خبریں وہ انٹرنیت کی مدد سے کافی غور سے پڑھتے۔ انٹرنیٹ کا جادو بینو پرصاف نظر آ رہا تھا۔ بینو نے محسوس کیا کہ وہ بھی انٹرنیٹ کی مدد سے اپنی بات دنیا تک پہنچا سکتے ہیں۔

اسی اثنا میں گجرات میں مسلم مخالف فسادات رونما ہوئے۔ بینو اور ان کے دیگر ساتھی اقلیتوں کے اوپر ہو رہے حملے سے کافی مضطرب تھے۔ وہ اس ظلمت کے دور میں بھلا کیسے خاموش رہ سکتے تھے؟ اس پس منظر میں، 27 مارچ 2002  کو کاؤنٹر کرنٹس نیوز پورٹل انٹر نیٹ پر لانچ ہوا۔

مگر اس کے لیے بینو نے بینک سے 42 ہزار روپے قرض لیے اور ایک کمپیوٹرخریدا۔ کاؤنٹر کرنٹس پر پہلی خبر گجرات فساد میں مارے گیے ایک حاملہ مسلم خاتون سے متعلق تھی۔ یہ مضمون ملیالم زبان میں پہلے شائع ہو چکی تھی۔ مشہور مصنفہ سارا جوزف کا یہ ایک ہلا کررکھ دینے والا مضمون تھا۔

اس کا انگریزی ترجمہ ہوا اور کاؤنٹر کرنٹس پر اَپ لوڈ ہو گیا۔ یوں اپنے پہلے دن سے یہ پلیٹ فارم مزاحمت کی نشانی بن گیا اور فرقہ واریت کے بڑے مخالف کے طور پر ابھر کر سامنے آیا۔

آج جو اعتماد کاؤنٹر کرنٹس نے اپنے قارئین سے حاصل کیا ہے، اس میں مدیر اعلیٰ بینو میتھیو کا اہم کردار ہے۔ یہ کوئی معمولی بات نہیں ہے کہ سالوں تک وہ دن بھر نوکری کرتے تھے اور گھر واپس آ کر کاؤنٹر کرنٹس کی ذمہ داری اٹھاتے  تھے۔ وقفہ وقفہ پر ان کو کئی جھٹکے بھی کھانے پڑے، مگر انہوں نے کبھی اپنے اصولوں کا سودا نہیں کیا۔

مثال کے طور پر، کچھ سال پہلے، ان کے اخبار کی مینجمنٹ نے یہ شرط عائد کر دی کہ وہ اپنی نوکری اور کاؤنٹر کرنٹس میں سے کسی ایک کا انتخاب کر لیں۔ بینو کو فیصلہ لینے میں ذرا بھی وقت نہیں لگا۔ اب وہ صرف کاؤنٹر کرنٹس کی ہی ادارتی ذمہ داری سنبھال رہے ہیں۔

بینو کو ایک بار پولیس نےڈرانے کی کوشش کی، مگر وہ ذرا بھی نہیں گھبرائے۔ دراصل بابری مسجد پر سپریم کورٹ کے فیصلہ کے بعد بینو نے ایک مضمون لکھا۔ مضمون شائع ہونے کےبعد ممبئی پولیس نے اسے کاؤنٹر کرنٹس ویٹ سائٹ سے ہٹانے کو کہا۔ مگر بینو نے نہ تو مضمون ہٹایا اور نہ ہی پولیس کو دوبارہ کوئی جواب دیا۔

بینو کی زندگی صحافتی برادری کے لیے ایک ایک سبق ہے کہ پیسہ، ترقی یا شہرت کبھی بھی اصولوں کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ انھوں نے اپنے عمل سے ثابت کیا کہ صحافی کو اقتدار کی گلیوں میں جگہ تلاش کرنے کی ضرورت نہیں بلکہ عوام کے ساتھ رہنا چاہیے۔ ادارتی آزادی کو کیسے بچائے رکھا جائے، یہ بینو کی پہلی ترجیح ہے۔ کاؤنٹر کرنٹس کسی قسم کا اشتہار قبول نہیں کرتا۔ نہ ہی وہ کسی ادارے کی فنڈنگ کا خواہشمند ہے۔

بینوکا کہنا ہے کہ جیسے ہی کوئی ادارہ یا تنظیم کسی میڈیا کی جیب میں پیسہ ڈالتی ہے، ویسے ہی میڈیا کی آواز خاموش ہونے لگتی ہے۔ جہاں تک سوال میڈیا کے اخراجات کا ہے، تو اس کےلیے بینو میتھیو عوامی تعاون پر منحصر ہیں۔

ملک کے مین اسٹریم میڈیا کی حالت کو دیکھ کر بینو میتھیو کافی افسردہ ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بہت سارے صحافی اب کھلے طور پر نفرت پھیلا رہے ہیں۔ وہیں ملک کا لبرل طبقہ ان سے مقابلہ کرنے میں ناکام ہے،کیونکہ وہ بائیں بازو سے لے کر دائیں بازو کوخوش کرنے میں مصروف ہے۔ اس پس منظر میں آزاد اور خود مختار میڈیا کی بڑی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا ہے کہ ملک کے حالات تب ہی بہتر ہوں گے، جب ہزاروں کی تعداد میں کاونٹر کرنٹس جیسے پلیٹ فارم کام کریں گے۔ ان کا زور ہے کہ عوامی صحافت مختلف زبانوں اور مختلف خطوں سے شروع کی جائے۔ سوشل میڈیا  کے پلیٹ فارم  پر سرگرم صحافیوں کے لیے بھی بینو کا پیغام یہ ہے کہ انہیں سستی شہرت کے لیے اپنے مشن سے دور نہیں جانا چاہیے۔

بینو کا کہنا ہے کہ کسی بھی صحافتی ادارہ کو اپنے صحافیوں اور قلم کاروں پر کسی خاص نظریہ کو نہیں تھوپنا چاہیے،  بلکہ اسے مختلف آوازوں کو جگہ دینی چاہیے۔ بطور صحافی بینو کا ماننا ہے کہ دنیا کے مسائل آپس میں جڑے ہوئے ہیں ، اس لیے ہر محاذ پر توجہ دینےکی ضرورت ہے۔ سامراجیت اور گلوبلائزیشن کی مخالفت سے لے کر ماحولیاتی تبدیلی کے خطرات پر بات کرنی ضروری ہیں، مگر اسی کے ساتھ ساتھ فرقہ وارریت کی مخالفت نیز دلت اور دیگر محروم طبقات کے حقوق کے تحفظات بھی اہم ہیں۔

خواتین مخالف تشدد اور شہری و انسانی حقوق کی پامالی کے خلاف آواز بلند کرنا بھی صحافیوں کی ذمہ داری ہے۔

بینو میتھیو اس بات کو لےکر بالکل فکر مند نہیں ہیں کہ ان کے بعد کاؤنٹر کرنٹس کی ذمہ داری کون اٹھائے گا۔ان کو یقین ہے کہ نوجوان صحافیوں کا کارواں ان کے سفر کو آگے لےجائے گا۔

سچ کہیے تو  بغیر وسائل  کے جو کام کاؤنٹر کرنٹس نے انجام دیا ہے، وہ اپنےآپ میں ایک مثال ہے اور اس معاملے میں اگر یہ کہا جائے کہ کاؤنٹر کرنٹس محض ایک نیوز پورٹل کا نام نہیں بلکہ ایک عوامی صحافت اور تحریک کا نام ہے، تو غلط نہ ہوگا۔