خبریں

گجرات فسادات: نرودا گام میں دنگا معاملے میں بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی سمیت تمام ملزمین بری

گجرات میں  احمد آباد کے نرودا گام میں 28 فروری 2002 کوفرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 افرادکو قتل کر دیا گیا تھا۔ اس معاملے میں 86 افراد ملزم بنائے گئے تھے، جن میں گجرات حکومت کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی شامل تھے۔ نرودا گام میں قتل عام کا یہ واقعہ  اس سال کے نو بڑے فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک تھا۔

بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی فسادات کے ملزمان میں شامل تھے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

بی جے پی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی بھی فسادات کے ملزمان میں شامل تھے۔ (فائل فوٹو: پی ٹی آئی)

نئی دہلی: کوئی نہیں جانتا کہ 28 فروری 2002 کو احمد آباد کے نرودا گام میں فرقہ وارانہ فسادات کے دوران 11 لوگوں کو کس نے قتل کیا۔ ایسااس لیے کیوں کہ اس قتل عام کے 21 سال بعد جمعرات (20 اپریل) کو گجرات میں بھارتیہ جنتا پارٹی کی سابق وزیر مایا کوڈنانی اور بجرنگ دل کے سابق لیڈر بابو بجرنگی سمیت تمام ملزمین کو بری کر دیا گیا ہے۔

ایک دفاعی وکیل نے عدالت کے باہر میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا، تمام ملزمان کو بری کر دیا گیا ہے۔ ہم فیصلے کی کاپی کا انتظار کر رہے ہیں۔

یہاں تک کہ ملزمین کے رشتہ داروں سمیت عدالت کے باہر جمع بھیڑ  نے ‘جئے شری رام’ اور ‘بھارت ماتا کی جئے’ کے نعروں کے ساتھ  اس فیصلے کا خیر مقدم کیا۔

کیس میں کل  86 ملزمان تھے، لیکن ان میں سے 18 کی درمیانی مدت میں ہی  موت ہو گئی تھی۔

ملزمان کے خلاف آئی پی سی کی دفعہ 302 (قتل)، 307 (قتل کی کوشش)، 143 (غیر قانونی اجلاس)، 147 (ہنگامہ آرائی)، 148 (مہلک ہتھیاروں سے لیس ہو کر دنگا کرنا)، 120 بی (مجرمانہ سازش) اور 153 (دنگوں کے لیے اکسانا) سمیت مختلف دفعات کے تحت الزامات کا سامنا کر رہے تھے۔ ان جرائم کی زیادہ سے زیادہ سزا موت ہے۔

اسپیشل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایس آئی ٹی) معاملوں کے خصوصی جج ایس کے بخشی کی عدالت نے جمعرات کو یہ فیصلہ سنایا۔

استغاثہ اور دفاعی فریق  نے 2010 میں شروع ہونے والے مقدمے کے دوران بالترتیب 187 اور 57 گواہوں سے پوچھ گچھ کی۔ یہ مقدمہ تقریباً 13 سال تک چلا، جس کی سماعت چھ ججوں نے کی۔ وزیر داخلہ امت شاہ 2017 میں کوڈنانی کے دفاعی گواہ کے طور پر پیش ہوئے تھے۔

کوڈنانی نے عدالت سے درخواست کی تھی کہ وہ انہیں (شاہ)  یہ ثابت کرنے کے لیے طلب کریں کہ وہ گجرات اسمبلی اور بعد میں سولہ سول اسپتال میں موجود تھیں نہ کہ نرودا گام میں جہاں یہ قتل عام ہوا تھا۔

استغاثہ کے ذریعے پیش کردہ شواہد میں صحافی آشیش کھیتان کے ذریعہ کیے گئے اسٹنگ آپریشن کا ویڈیو اور متعلقہ مدت کے دوران کوڈنانی، بجرنگی اور دیگر کی کال کی تفصیلات شامل تھے۔

جب معاملے میں ٹرائل  شروع ہوئی تو ایس ایچ وورا صدارتی جج تھے۔ انہیں گجرات ہائی کورٹ میں ترقی دی گئی۔ ان کے جاں نشین جیوتسنا یاگنک، کے کے بھٹ اور پی بی دیسائی مقدمے کی سماعت کے دوران ریٹائر ہو گئے۔ ان کے بعد آنے والے خصوصی جج ایم کے دوے کا تبادلہ  ہو گیا تھا۔

گجرات حکومت میں وزیر رہیں کوڈنانی کو نرودا پاٹیہ فسادات کیس میں قصوروار ٹھہرایا گیا تھا اور انہیں 28 سال  کی قید کی سزا سنائی گئی تھی۔ ان فسادات میں 97 افراد مارے گئے تھے۔ سال 2018 میں انہیں گجرات ہائی کورٹ نے بری کر دیا تھا۔

نرودا گام قتل عام 2002 کے ان نو بڑے فرقہ وارانہ فسادات میں سے ایک تھا جن کی جانچ ایس آئی ٹی  نے کی اور خصوصی عدالتوں نے ان کی سماعت کی۔

ناناوتی کمیشن کے نتائج

گجرات فسادات کی تحقیقات کرنے والے جسٹس ناناوتی کمیشن نے گواہوں کے بیانات درج  کیے تھے کہ ‘مسلمانوں کو پولیس سے کوئی مدد نہیں ملی اور وہ صرف شرپسندوں کے رحم و کرم پر تھے’ اور یہ کہ ‘پولیس کی مدد  صرف شام کو پہنچی’۔

تاہم، کئی پولیس افسران نے کمیشن کے سامنے گواہی دی کہ وہ نرودا گام تک نہیں پہنچ سکے، کیونکہ وہ نرودا پاٹیا میں زیادہ سنگین صورتحال سے نمٹ رہے تھے، جو اسی وقت پیدا ہو رہی تھی۔

کمیشن نے پایا کہ ‘موقع پر موجود پولیس فورس ناکافی تھی’ اور پولیس کے پاس ‘صورتحال سے نمٹنے کے لیے مناسب وسائل بھی نہیں تھے۔’

کمیشن نے نتیجہ اخذ کیا کہ ‘یہ نہیں کہا جا سکتا کہ انہوں  نے جان بوجھ کر اس واقعہ کو ہونے دیا’۔

اس قتل عام میں سیاسی شخصیات کے ملوث ہونے کے بارے میں کمیشن نے کہا تھا، ‘نہ صرف علاقے کے مکینوں نے بلکہ وہاں موجود پولیس نے بھی کہا ہے کہ وی ایچ پی، بجرنگ دل اور بی جے پی کے لیڈران نے ان واقعات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا تھا اور انہی کی شہ پر  اس علاقے میں فسادات ہوئے۔

تاہم، کمیشن نے کہا تھا، چونکہ مذکورہ لیڈروں کے مواخذے سے متعلق معاملہ عدالتی فورم کے زیر تفتیش ہے، اس لیے اس کمیشن کے لیے اس پر کوئی رائے ظاہر کرنا مناسب نہیں ہے۔

(یہ رپورٹ وائبس آف انڈیا پر شائع ہوا تھا۔ اسے انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)