فکر و نظر

اب ہندوؤں کے بارے میں فکر کرنے کی ضرورت ہے

اجتماعی تشدد یا نفرت کے علاوہ بغیرکسی تنظیم کےبھی بہت سے ہندوؤں میں دوسروں کے لیےنفرت ظاہر  کرنے کی ہوس فحاشی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ان ہندوؤں میں ایسے ‘باکمال’ خطیبوں کی تعداد بڑھ رہی ہے، جو کھلے عام تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ خطیبوں کے ساتھ ساتھ ان کے سامعین کی تعداد بھی بڑھتی جا رہی ہے۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

عید کا دن تھا۔ مسلمانوں کو غیر مسلموں کی طرف سے مبارکباد دی جا رہی تھی۔ یہ فطری ہی  تھا۔ لیکن اظہار مسرت  کے درمیان کسی نے مجھے ایک ویڈیو  ارسال کیا۔ معروف گلوکار شان اپنے مداحوں سے کچھ کہہ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ عید کے موقع پر انہوں نے ٹوپی کے ساتھ دعا مانگتے ہوئے اپنی تصویر شیئر کی تھی۔ اس کے جواب میں انہیں ہندو سامعین نے بہت بھلا برا کہا۔

شان نے پہلے تو اسے نظر انداز کرنے کے بارے میں سوچا، لیکن تعداد  اتنی زیادہ تھی کہ انہیں کچھ کہنا ضروری لگا۔ انہوں  نے بہت پیار سےسمجھایا کہ  کیوں اس طرح کسی دوسرے مذہب، اور ان کی طرز زندگی سے لگاؤ کا مظاہرہ کرنا اچھی بات ہے۔ شائستہ انداز میں، انہوں نے پروقار لہجے میں کہا کہ وہ ہم آہنگی کو اچھا سمجھتے ہیں، اس لیے وہ بدلیں گےنہیں۔

گلوکار شان کو عید کے دن  سنتے ہوئے میں ہندوؤں کے بارے میں فکرمند ہوں۔ صرف ہندوستان کے ہندوؤں کے بارے میں نہیں۔ دوسرے ممالک میں آباد ہوچکے ہندوؤں کے بارے میں بھی۔ ان کے بارے میں ٹھیک سے سوچا نہیں گیا ہے۔ ان کے اندر اور ان کے ساتھ جو ہو رہا ہے، اس کی خاطر خواہ  پڑتال نہیں کی گئی۔ وہ خودجوکر رہے ہیں،اپنے آپ کو جو بنا رہے ہیں، اس کی تفصیل قاعدے سے دی  نہیں گئی۔ ان کی سماجی  اور نفسیاتی صحت کی کوئی پرواہ نہیں کرتا۔ شان نے  اسی تشویش کے باعث اپنے گانے کے پروگرام سے پہلے اسے ریکارڈ کرنا ضروری سمجھا۔

گزشتہ برسوں میں ہندوستان کے مسلمانوں کے بارے میں بہت کچھ لکھا گیا ہے۔ ان پر ہونے والے پرتشدد حملوں کے بارے میں، ان کے قتل اور ان کے گھروں کی تباہی کے بارے میں، ان کی روزمرہ کی تذلیل کے بارے میں، ریاست اور معاشرے کی طرف سے ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں کے بارے میں۔ ہندوستان کے مسلم معاشرے میں بڑھتے ہوئے ڈپریشن کے بارے میں۔

مسلمان یہ سب برداشت کر رہے ہیں اور زندہ ہیں۔ ان کے زندہ ہونے کا ثبوت یہ ہے کہ ریاست کی تمام تر طاقتوں کے باوجود بلقیس بانو اب بھی لڑ رہی ہیں۔ ان کی زبان میں شائستگی ہے اور یہ بے چارگی کی علامت نہیں ہے۔ خالد سیفی 3 سال جیل میں رہنے کے بعد 6 گھنٹے کو  گھر آتا ہے تو مسکراتا ہےاور ہنستا ہے۔ جو بھی وقت میسر ہوتا ہے، اس میں وہ اپنی ماں کے ناخن کاٹتا ہے اور انہیں  سوئیاں  کھلاتا ہے۔

سپریم کورٹ کی ناانصافی کے باوجود ذکیہ جعفری انصاف کی لڑائی بند نہیں کرتیں۔ رام نومی کے موقع پر تشدد اور فحاشی کا سامنا کرنے کے بعد بھی مسلمان جوش و خروش سے عید مناتے ہیں۔ یہ سب مسلمانوں میں انسانیت کی بقا کا ثبوت ہیں۔

اب ہندوؤں کے بارے میں اعتماد کے ساتھ یہی سب کہنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔ میں رام نومی کی بات نہیں کر رہا ہوں، جو اب رام کے بارے میں اتنا نہیں ہے جتنا مسلمانوں کے بارے میں ہے۔ رام مسلمانوں کے خلاف اپنی نفرت کے اظہار کا صرف ایک وسیلہ بن گئے  ہیں۔ رام نومی کے چند روز بعد عید آئی ، عید میں مسلمانوں کے مہذب اجتماع سے رام نومی کےپرتشدد اجتماع کا موازنہ کرنے بھر سے ہی سب کچھ واضح ہو جاتا ہے۔

ہندوؤں کے پاس تو ایسی تنظیمیں ہیں جن کا کام  ہی مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف نفرت پھیلانا ہے، لیکن مسلمانوں یا عیسائیوں کے پاس  ایسی کوئی تنظیم نہیں ہے۔ ہندوؤں کا ایک طبقہ ایسے سیاسی لیڈروں کو اپنا نمائندہ منتخب کرتا ہے جو دوسری برادریوں کے خلاف نفرت پھیلاتے ہیں، مسلمانوں نے ایسا نہیں کیا ہے۔ ہم نے اس موضوع پر بات نہیں کی ہے۔ کیوں ہندوؤں کے ووٹ دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت پھیلا کر لیے جا سکتے ہیں؟

اس تبصرے کی فوری وجہ ایک خبر ہے ہاتھرس کے قریب کے  ایک اسکول کی۔ ایک ویڈیو دیکھا جس میں اس اسکول کے گیٹ پر درجنوں لوگ، شاید اس میں پڑھنے والے بچوں کے والدین بھی، تالیاں بجا رہے ہیں اور ہنومان چالیسہ یا مانس گا رہے ہیں۔ سننے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہیں وہ یاد نہیں ہے۔ وہ ٹوٹے پھوٹے انداز میں اچھل اچھل کر تالیاں بجا رہے ہیں۔ یہ ہنومان یا رام کی عظمت  کے لیے نہیں گایا جا رہا ہے بلکہ اپنے غصے کو ظاہر کرنے کے لیے گایا جا رہا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ تمام سرپرست ہندو تھے۔

آخر مسئلہ کیا تھا؟ معلوم ہوا کہ وہ ناراض ہیں کہ ان کے بچوں کو نماز پڑھوائی گئی ہے۔ وہ اسکول کے اساتذہ کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔ بات یہ تھی کہ 18 اپریل کو ورلڈ ہیریٹیج ڈے کے موقع پر اسکول نے سارے مذاہب کو اجتماعی ورثہ مانتے ہوئے طالبعلموں کو تمام مذاہب سے متعارف کرنے کے مقصد سے ایک پروگرام کا انعقاد کیا تھا۔ اس میں بچوں نے علامہ اقبال کی مشہور دعا ’لب پہ آتی ہے دعا‘ بھی پیش کی۔ یہ نماز تو بالکل نہیں تھی۔ بچوں نے دوسرے مذاہب کی دعائیں بھی پیش کیں۔ لیکن یہ بات باہر اس طرح  پھیلائی گئی کہ بچوں کو نماز پڑھائی گئی۔ اسکول کی ہیڈ مسٹریس سمیت دو اساتذہ کو معطل کر دیا گیا۔ اسکول اور ضلع انتظامیہ نے تحقیقات کا حکم دے دیا۔

انتظامیہ نے پریس کو صاف کہہ دیا کہ نماز پڑھنے کی بات غلط ہے، یہ افواہ ہے۔ اس افواہ کے نتیجے میں اساتذہ کو سزا دیے جانے کو انہوں نے ایک کارروائی کے طور پربیان کیا۔ انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ افواہ پھیلانے والوں کے خلاف کیا کارروائی کی ہے؟ کیا ہندوؤں کو افواہ پھیلانے کا حق ہے؟

اس معاملے میں کیا غلط ہے؟ ظاہر ہے کہ اسکول کے اساتذہ نے جو کچھ بھی کیا، اس کا مقصد تمام کمیونٹی کے بارے میں بچوں میں بیداری اور حساسیت پیدا کرنا تھا۔ لیکن وہ نہیں جانتے تھے کہ اب ہندو اپنے بچوں میں ایسی حساسیت نہیں چاہتے۔ وہ خود اپنے مذہب، اس کے صحیفے، پوجا  کے احکامات کو نہیں جانتے اور نہ ہی اس میں دلچسپی رکھتے ہیں، لیکن دوسرے مذاہب  کے حوالے سے ان میں ایک قسم کی نفرت ضرور پیدا ہوئی ہے۔

یہ واحد معاملہ نہیں ہے۔ کچھ عرصے سے جھارکھنڈ، گجرات، کرناٹک، مدھیہ پردیش، اتر پردیش اور دیگر ریاستوں سے ایسی خبریں آ رہی ہیں۔ پچھلے سال گجرات کے ایک اسکول نے بچوں کے لیے مسجد کی سیر کا اہتمام کیا۔ والدین غصے میں آگئے۔ سب نہیں، لیکن وہ لوگ بھی جو اسے اچھا مانتے تھے، وہ بھی اتنے خوفزدہ تھے کہ اسکول کے ساتھ کھڑے  نہ ہو سکے۔

اب یہ دیکھا جا رہا ہے کہ ہندو تنظیمیں اور ان کے ساتھ ہندو سرپرست کسی بھی طرح کی مذہبی ہم آہنگی یا میل جول  کا اشارہ ملتے ہی بھڑک اٹھتے ہیں۔ اب وہ یہ بھی برداشت نہیں کر سکتے کہ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے مذہبی طریقوں پر عمل کریں۔

پہلے کھلے میدان میں نماز پر حملہ کیا گیا۔ اب مسلمان  کےاپنے گھروں میں نماز پڑھنے پر بھی ان کے ہندو پڑوسیوں کو اعتراض ہونے لگا ہے۔ وہ اپنی سوسائٹی میں مندر بنا  کر زور زور سے گھنٹیاں اور گھڑیال  بجا سکتے ہیں، لیکن یہ برداشت نہیں کر سکتے کہ مسلمان اپنے گھر والوں کے ساتھ اپنے مذہب پر عمل کریں۔ بڑے دن کے موقع پر ہندو تنظیمیں چرچ میں داخل ہو کر ہنومان چالیسہ پڑھنے لگتی  ہیں۔ ان پر حملہ کرنے لگتی ہیں۔

منظم یا اجتماعی تشدد یا نفرت کے علاوہ یہ دیکھا جارہا ہے کہ کسی تنظیم کے بغیر بھی ہندوؤں کا دوسروں کے تئیں نفرت ظاہرکرنے کی ہوس فحاشی کی حد تک پہنچ چکی ہے۔ مسلم خواتین کی کھلم کھلا آن لائن نیلامی ہو یا ان کے ساتھ گالی گلوچ کرتے ہوئے لکھنا یا بولنا، اب اسے کہیں سے بھی چلانےیا منظم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ہندو نوجوان  اپنی مرضی سے یہ غلاظت پھیلاتے ہیں۔

اسے نوٹ کیا گیا ہے کہ  عید یا  دیگر برادریوں کےمقدس دنوں پر ہندو ان کے خلاف نازیبا ریمارکس کرتے ہیں۔ یہ کہہ کر کہ یہ ایک مجازی دنیا ہے، ہم اس کی سنگینی کو کم کر رہے ہیں۔ ہندوؤں میں نفرت اور فحاشی کا یہ انفیکشن اب ایک وبا کی شکل اختیار کر رہا ہے۔ یہ بیمار ذہن کوئی صحت مند رشتہ کیسے بنا سکتا ہے؟

ہندوؤں میں ایسے ‘باکمال’ خطیبوں کی، ان میں خواتین بھی ہیں ، تعداد بڑھ رہی ہےجو کھلے عام تشدد کو فروغ دیتے ہیں۔ بولنے والوں کی طرح ان کے سننے والوں کی تعداد بھی بڑھ رہی ہے۔

جس طرح ہندو اپنی ذات کے ساتھ ہی بیرون ملک جاتے ہیں، اسی طرح وہ عدم برداشت کی بیماری کے جراثیم اپنے ساتھ دوسرے ملکوں میں لے جاتے ہیں۔ امریکہ، آسٹریلیا، انگلینڈ میں دیکھا گیا ہے کہ ہندو یا ان کی تنظیمیں اب ڈھٹائی سے مسلم مخالف نفرت کا اظہار کر رہی ہیں۔

امریکہ میں ہندوؤں نے بلڈوزر کے ساتھ جلوس نکالا۔ بلڈوزر کا مطلب سب جانتے ہیں۔ آسٹریلیا میں سکھوں کے خلاف تشدد کے الزام میں گرفتار وشال جود کو سزا کے طور پرہندوستان واپس بھیج دیا گیا۔ لیکن یہاں پہنچنے پر ان کا پرجوش استقبال کیا گیا۔

کچھ لوگ کہہ سکتے ہیں کہ ان واقعات کی بنیاد پر کروڑوں ہندوؤں کے بارے میں کوئی نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا۔ ہندو اپنے دل پر ہاتھ رکھ کر پوچھیں کیا یہ بات ٹھیک ہے؟ کیا ہندو سماج میں نفرت نہیں بڑھتی جا رہی؟ کیا ان میں دوسروں سے الرجی نہیں بڑھ رہی؟ کیا وہ کسی احساس کمتری کا شکار ہیں کہ اس پر پردہ ڈالنے کے لیے وہ اپنی تعداد کی مدد سے تشدد کا سہارا لے کر اپنا تسلط ثابت کر رہے ہیں؟ ہندو سماج کو یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)