الیکشن نامہ

ترکیہ کے انتخابات: کون لے گا بازی

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں  دونوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ دونوں کلیدی  امیدواروں  کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔

فوٹو: افتخار گیلانی

فوٹو: افتخار گیلانی

ترکیہ میں صدارتی اور پارلیامنٹ کی 600نشستوں کے لیے انتخابا ت کی تاریخ جوں جوں قریب آتی جا رہی ہے، انتخابی مہم میں بھی شدت آر ہی ہے۔ 14مئی کو ہونے والے ان انتخابات کے نتائج پر پوری دنیا کی نگاہیں ٹکی ہوئی ہیں۔

جنوبی ایشیا کی طرح ترکیہ کے انتخابات خاصے رنگین،رقص و سرود و گانوں سے مزین ہوتے ہیں، مگر حال ہی میں زلزلہ کی تباہ کاریوں اور اس کے نتیجے میں پچاس ہزار سے زائد اموات کی کی وجہ سے  اس بارسیاسی جماعتوں نے رقص  و موسیقی سے گریز کرتے ہوئے مہم کو سادہ رکھا ہواہے۔

اس آفت کے بعد آوازیں اٹھ رہی تھیں کہ چونکہ ملک کے گیارہ صوبو ں میں ایمرجنسی نافذ کی گئی ہے، اس لیے باز آبادکار ی تک انتخابات کو اکتوبر یا اگلے سال تک مؤخر کیا جائے، مگر صدر رجب طیب اردوان نے اس مطالبہ کو درکنا ر کرتے ہوئے ان کو جون میں طے شدہ شیڈول سے ایک ماہ قبل ہی مئی میں منعقد کروانے کا اعلان کردیا۔

رمضان المبارک کے دوران حریف جماعتیں اپنے بینرز کے ساتھ مساجد کے سامنے اپنی موجودگی درج کرانے کے لیے پانی، ملک شیک اور کھجوریں تقسیم کرتی ہوئی نظر آرہی تھیں۔ عید کے دن دارلحکومت انقرہ کے قلب میں واقع  مالتے پہ مسجد کے پاس سڑ ک کی دوسری طرف  ایک ترک قوم پرست جماعت کے کارکن نائٹ کلب کے اندر جشن منانے کے لیے جانے والے نوجوانوں کو لبھانے کے لیے ترکی کی مشہور مٹھائی بکلاوا اور ڈرنکس تقسیم کر رہے تھے۔

گزشتہ 27 مارچ کو ملک کی اعلیٰ انتخابی اتھارٹی سپریم الیکٹورل کونسل نے چار صدارتی امیدواروں کی نامزدگیوں کو قبول کیا اور اس بات کی تصدیق کی کہ 36 جماعتیں پارلیامانی نشستوں کے لیے انتخاب لڑنے کی اہل ہیں۔چار صدارتی امیدوار حکمران جسٹس اینڈ ڈیولپمنٹ پارٹی یعنی آق پارٹی کے امیدوار موجودہ صدر اردوان، اپوزیشن کے مشترکہ امیدوار اور سب سے بڑی اپوزیشن جماعت ری پبلکن پیپلز پارٹی (سی ایچ پی) کے رہنما کمال کلیچی داراولو،  ہوم لینڈ پارٹی کے محرم انجے اور آزاد امیدوار سینان اووان ہیں، جن کو نسل پرست پارٹیوں کے آبائی اتحاد  نے حمایت دی ہے۔

محرم انجے دراصل سی ایچ پی کے رکن تھے، اور پچھلے انتخابات میں اردوان کے خلاف امیدوار تھے۔ انہوں نے سی ایچ پی کو چھوڑ کر اپنی ہوم لینڈ پارٹی تشکیل دی ہے، جس کی وجہ سے لگتا ہے کہ وہ اپوزیشن ووٹوں کے بکھراو کا سبب بنیں گے۔ ان کو تقریباً 8فیصد ووٹروں، جن میں ایک بڑی تعداد نوجوانوں کی ہے، کی حمایت حاصل ہے۔

رائے عامہ کے جائزوں کے مطابق اردوان اور کلیچی داراولو کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہے۔ مگر ابھی تک ہوئے دس جائزوں میں  دونوں میں کوئی بھی آئین کی طرف سے مقرر 50فیصد جمع ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہو رہا ہے ۔ دونوں کلیدی  امیدواروں  کے ووٹوں کا تناسب 42 اور 43 فیصد کے آس پاس ہی گھوم رہا ہے۔

پولسٹرز کا خیال ہے کہ 15فیصد ووٹر، جن میں پچاس لاکھ نئے نوجوان ووٹر شامل ہیں، اور جو ابھی تک کسی پارٹی سے منسلک نہیں ہیں، کا ووٹ فیصلہ کن ثابت ہوگا۔ 14مئی کو اگر کوئی امیدوران مطلوبہ 50فیصد اور ایک ووٹ حاصل کرنے میں ناکام ہوتا ہے، تو انتخابات کا دوسرا راؤنڈ 28مئی کو ہوگا، جس میں صرف پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے امیدوار ہی قسمت آزمائی کریں گے۔

تاہم اپوزیشن کے لیے طمانیت یہ ہے کہ کرد وں کی پارٹی پیپلز ڈیموکریسی پارٹی (ایچ ڈی پی)، جو کہ پارلیامنٹ میں 12 فیصد ووٹوں کے ساتھ تیسری سب سے بڑی جماعت ہے، نے اپنا صدارتی امیدوار کھڑا نہیں کیا ہے اور کلی چی داراولو کی حمایت کا اعلان کردیا ہے۔

اس کا توڑ کرنے کے لیے اردوان نے کرد اسلام پسند فری کاز پارٹی (ایچ یو ڈی اے پی اے آر) کو اپنے اتحاد میں شامل کردیا ہے، جو کرد ووٹو ں کو تقسیم کرکے پوری طرح اپوزیشن کی جھولی میں گرنے نہیں دےگا۔

بین الاقوامی میڈیا کے تاثرات کے برعکس، جو دو بڑے اتحادوں کواسلامی انتہا پسند اور سیکولر گروپوں میں بانٹتا ہے، ان کے ڈھانچے پر معروضی نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ دونوں طرف نظریاتی خطوط سے پرے رنگا رنگ،متنوع اتحادتشکیل دیے گئے ہیں۔

سینٹر رائٹ آق پارٹی کی قیادت میں حکمران جمہور اتفاقی یعنی عوامی اتحاد میں پہلے چارپارٹیاں تھی، جن کی تعداد اب آٹھ تک پہنچی ہے۔ ان میں شدت پسند ترک قوم پرست نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی (ایم ایچ پی)، اسلامسٹ گریٹ  یونٹی پارٹی (بی بی پی)، کرد  اسلام پسند فری کاز پارٹی (ایچ یو ڈی اے پی اے آر)، سابق وزیر اعظم نجم الدین اربکان کی اسلامسٹ نیو ویلفیئر پارٹی، بائیں بازو کی  ڈیموکریٹک لیفٹ پارٹی،  ترک قوم پرست ڈی ایس پی  اور لبرل قدامت پسند ٹرو وے پارٹی ڈی وائی پی  ہے۔

سیکولر سینٹر لیفٹ سی ایچ پی کی قیادت میں حزب اختلاف کا اتحاد، جو دارصل چھ پارٹیوں کا مجموعہ  ہے میں اب 17 سیاسی جماعتیں شامل ہو گئیں ہیں۔اس میں سابق وزیر داخلہ میرل اکسنرکی شدت پسند ترک قوم پرست  آئی وائی آئی (گڈ پارٹی) سے لے کر لبرل-قدامت پسند جمہوریت اور ترقی پارٹی (ڈی ای وی اے) شامل ہیں۔

ترکیہ کی مرکزی اسلام پسند جماعت یعنی سعادت پارٹی، جس کی قیادت تیمل کارامواولو کر رہے ہیں، سی ایچ پی کی قیادت والے حزب اختلاف کے اتحاد میں شامل ہے۔ اس اتحاد کا واحد ایجنڈہ اردوان کو پاور سے باہر کا راستہ دکھانا ہے۔

ہندوستانی سیاست کے تناظر میں ان انتخابات کو  بالترتیب 1977 اور 1989 میں کانگریس پارٹی کی قیادت میں اندرا گاندھی اور راجیو گاندھی جیسے طاقتور حکمرانوں کو شکست دینے کے لیے ایسے ہی جنتا اتحاد کی تشکیل سے تشبیہ دی جاسکتی ہے۔

جس نے ان حکمرانوں کو باہر کا راستہ تو دکھا دیا، مگر خود تضادات کی زد میں آکر ڈیڑھ دو سال میں ہی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو گیا اور پھر کانگریس پارٹی کے لیے اقتدار میں راستہ صاف کردیا۔

صدر اردوا ن اقتدارمیں واپسی کے لیے کوئی دقیقہ فرگذاشت نہیں کر رہے ہیں۔ مغربی ممالک خاص طور پر امریکہ کے خلاف عوامی جذبات ابھارنے کے علاوہ، مقامی طور پر تیار کردہ الیکٹرک کار Togg T10X کی نقاب کشائی، سب سے بڑے جنگی جہازجو ملک کی بحری صلاحیتوں کو مضبوط کرے گا کی نقاب کشائی، انقرہ میں ایک نئی میٹرو لائن کا افتتاح، پہلے مقامی ہائی ریزولوشن ارتھ آبزرویشن سیٹلائٹ، IMECE کی لانچنگ، بحیرہ اسود سے قدرتی گیس کے اخراج کا افتتاح جیسے کام کرکے وہ ووٹروں کو لبھانے کا کام کر رہے ہیں۔

بحیرہ اسود سے گیس کے اخراج کا جشن منانے کے لیے  ایک ماہ کے لیے گھریلو صارفین کو مفت گیس کی پیشکش، نیز ماہانہ 25 کیوبک میٹر تک استعمال کرنے والے گھرانوں کو ایک سال تک مفت گیس کی فراہمی کا وعدہ کیا گیا ہے۔  حال ہی میں امریکی سفیر جیف فلیک کی کلیچی داراولو کے ساتھ ہوئی میٹنگ کو اردوان نے خاصی سنجیدگی کے ساتھ لیا ہے اور وہ اپنی تقریروں میں  اپنے حامیوں کو بتا رہے ہیں کہ ترک سیاست میں مداخلت کے لیے امریکہ کو سبق سکھانے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے ایک تقریب میں ملک کو دفاعی شعبے میں خود کفیل بنانے کے لیے اپنی کوششوں کی طرف بھی اشارہ کیا۔ اسی تقریب میں انہوں نے ملک میں تیار کردہ  Altay  ٹینک کے پہلے دو یونٹ فوج کو فراہم کر دیئے۔ وہ استحکام اور تسلسل کا وعدہ کرکے زلزلے سے تباہ ہونے والے علاقوں ایک سال کے اندر تین لاکھ 19 ہزارگھر  زلزلہ سے متاثر خاندانوں کے حوالے کرنا ہے۔  ان کا کہنا ہے کہ حکومت کا کل ہدف  چھ لاکھ50 ہزار نئے مکانات تعمیر کرانا ہے۔

 دوسری طرف کلی چی داراولو نے بھی زلزلہ متاثرین کے لیے تقریباً چھ لاکھ مکانات مفت تعمیر کرنے کا  وعدہ کیا ہے۔ انہوں نے ملک کے 18000 دیہاتوں میں سے جانوروں کے ڈاکٹر، ایک زرعی انجینئر اور ایک زرعی ٹیکنیشن کی تقرری کا وعدہ کیا ہے۔ خاندانی بیمہ کے وعدے اور خاندان کی آمدنی کو سہارا دینے کے منصوبوں کے ساتھ، اس نے دیہی ووٹروں کو مفت بجلی اور تقریباً 3.7 ملین مویشی اور 7 ملین سے زیادہ بھیڑیں فوڈ اسکیورٹی پروگرا م کے مفت تقسیم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔

اپوزیشن کا بنیادی ایجنڈہ صدارتی نظام کو ختم کرنا اور پارلیامانی نظام حکومت کو دوبارہ رائج کرنا ہے۔’ استنبول میں مقیم  آزاد صحافی   نیوسن مینگو  کا کہنا ہے کہ صدارتی نظام کی وجہ سے احتساب کا عمل مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے۔ ”ہمارے پاس امریکی طرز کا صدارتی نظام نہیں ہے جہاں تقرریوں کی کانگریس سے جانچ پڑتال کی جاتی ہے۔ مجھے بتایا گیا کہ اردوان اس حد تک حکومت کو مائیکرو منیج کرتے ہیں کہ چھوٹے درجہ کی تقرری بھی ان کے ہی حکم سے ہوتی ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ مجھے بتایا گیا ہے کہ وہ روزانہ  3,000 کاغذات پر دستخط کرتے ہیں۔“  ان کا کہنا ہے کہ پارلیامانی نظام  شاید احتساب کے دروازے دوبارہ کھولے گا۔

 آق پارٹی اور اپوزیشن سی ایچ پی کے ہیڈکوارٹر، فوٹو: افتخار گیلانی

آق پارٹی اور اپوزیشن سی ایچ پی کے ہیڈکوارٹر، فوٹو: افتخار گیلانی

ان دو اتحادوں کے حوالے سے، سینٹر فار اکنامک اینڈ فارن پالیسی اسٹڈیز (ای ڈی اے ایم) کے ڈائریکٹر سینان اولگن کے مطابق یہ معاشرے کے دو مختلف نظریوں کی نمائندگی کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردوان کی قیات والا اتحاد پچھلے بیس سالوں سے اقتدار میں ہے اور مغرب کے تئیں اس کا رویہ سرد اور گرم رہا ہے۔

اس وقت اس نے مغرب مخالف نظریہ کی کمان سنبھالی ہے۔اپوزیشن اتحاد وسری طرف ترکیہ کو مغرب کے قریب لانے کا خواہا ں ہے۔ ناٹو کا رکن ملک ہونے کے باوجود اپنے دور اقتدار میں اردوان نے  اسٹریٹجک خود مختاری حاصل کرنے کی کوشش کرکے مشرق وسطیٰ سے قربت اور ترک شناخت کو زندہ کرنے کی کوشش کی ہے۔

عرب لیگ کی طرح،انہوں نے ترکک کوونسل یا ترک نسل ممالک کی تنظیم کے قیام میں اہم کردار ادا کیا۔ اس تنظیم میں آذربائیجان، قازقستان، کرغزستان، ترکیہ اور ازبکستان  بطور رکن ممالک اور  ہنگری، شمالی قبرص اور ترکمانستان مبصر ممبر ہیں۔

اپنی تزویراتی خود مختاری کا مظاہرہ کرنے کے لیے، اردوان کی قیادت میں ترکیہ نے امریکی انتباہات کے باوجود روس سے ایس400 میزائل ڈیفنس سسٹم خریدا اور انتخابی مہم کے دوران 27 اپریل کو روسی مدد سے اکیو نیوکلیئر پاور پلانٹ کی تعمیر مکمل کی۔ یہ ترکی کا پہلا جوہری پاور پلانٹ ہے جس میں 4,800 میگاواٹ اور چار ری ایکٹر نصب کرنے کی صلاحیت موجود ہے۔

دوسری طرف کلی چی داراولو نے عہدہ سنبھالنے کے صرف تین ماہ بعد ترک شہریوں کو یورپ جانے کے لیے ویزا فری سہولیت دینے کا وعدہ کیا ہے، جو ترک نوجوانوں کو خاصل لبھا رہا ہے۔ ترکیہ کی یورپی یونین (ای یو) میں شمولیت کے لیے مذاکرات 2016 سے تعطل کا شکار ہیں کیونکہ 72 میں سے پانچ شرائط پر انقرہ نے عملدرآمد کرنے سے معذوری ظاہر کی تھی۔

ان میں بدعنوانی سے نمٹنے کے لیے قانون سازی میں تبدیلیاں، یوروپول کے ساتھ آپریشنل تعاون کا معاہدہ کرنا، یورپی یونین کے رکن ممالک کے ساتھ عدالتی تعاون، ذاتی ڈیٹا کے تحفظ کی قانون سازی کو اپ ڈیٹ کرنا، اور یورپی یونین کے معیارات کے مطابق دہشت گردی سے متعلق قانون سازی پر نظر ثانی کرنا اور انسانی حقوق کے چند مسائل، جن میں ہم جنس پرستوں کو آزادی اور حقوق دینا شامل تھا۔

  کلی چی داراولو نے وعدہ کیا ہے کہ وہ ان مذاکرات کا ازسر نو احیاء کریں گے اور قوانین میں  تبدیلیاں لا کر یورپ کو دکھائیں گے کہ ترکیہ میں اظہار رائے کی آزادی  ہے۔ ان کی پارٹی کو یہ بھی امید ہے کہ نئی ترک پارلیامنٹ سویڈن کے ناٹو میں شمولیت کی منظوری دیگی۔

 سو سال قبل مصطفے ٰ کمال اتا ترک نے جب ترکیہ کو جمہوری ری پبلک بناکر سی ایچ پی کی داغ بیل ڈالی، تو اس پارٹی نے کم و بیش تیس سالوں تک حکومت کی ہے۔ پہلے بیس سال تو لگاتار اور پھر وقفے وقفے سے 1979تک اقتدار میں رہی ہے۔ اس کا دور انتہائی شدید سیکولر نظریہ کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے اور فوج کو سیاست میں لانے کے لیے خاصا بدنام ہے، جس کی وجہ سے عام ترک خاص طور پر اناطولیہ سے تعلق رکھنے والے مکین ان سے بدکتے تھے۔

مگر کلی چی داراولو کی قیادت میں اس پارٹی نے اپنا نظریہ بڑی حد تک تبدیل کردیاہے۔  پارٹی کے ایک عہدیدارنے راقم کو بتایا کہ خواتین کے سر پر اسکارف پہننے، اذان کی تلاوت یا مذہبی نماز پر پابندی جیسے اقدامات یا فوج کو سیاست میں دوبارہ رول دینے کی اب ترکیہ میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔ ان کے مطابق آبنائے باسفورس میں تب سے اب کافی پانی بہہ چکا ہے۔ وہ جمہوریہ کے ابتدائی دن تھے۔

اب ضرورت اس بات کی ہے  کہ ترک سماج مفاہمت کے راستے ڈھونڈ کر ایک دوسرے کو برداشت کرتے ہوئے مل جل کر رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کی پارٹی نے سیکولرازم کی نئی تشریح کی ہے، جس میں مذہب بیزاری یا مذہب دشمنی کے بجائے تمام نظریات یا مذاہب اور ان کی عبادت، رسوم ر رواج میں حکومت کی عدم مداخلت ہے۔

صدارتی امیدوار کلی چی داراولو نے حال ہی میں ایک ویڈیو پیغام میں اعتراف کیا کہ وہ علوی فرقہ سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ” ہم اس شناخت کے ساتھ پیدا ہوئے ہیں،  اس میں ہمارا پنا کوئی رول نہیں ہے۔ اسکے ساتھ بڑے ہوئے ہیں۔“ انہوں نے ووٹروں سے اپیل کی وہ فرقہ وارانہ بحثوں میں نہ پڑیں۔

تجزیہ کاروں کے مطابق اگر اپویشن انتخابات جیت جاتی ہے، تو  سی ایچ پی کو درپیش سب سے بڑا چیلنج ملک پر حکومت کرنے کے لیے ہنر کی کمی ہوگی۔یہ پارٹی 1979سے اقتدار سے مسلسل باہر ہے۔ اس کے پاس حکومت کرنے کا ضروری تجربہ نہیں ہے۔ تاہم اسکے اتحاد میں شامل چھوٹی جماعتیں، جو ماضی میں مختلف اتحادوں کے ساتھ اقتدار میں رہی ہیں، شاید اس کی مدد کرسکیں۔

حکمران اتحاد کے حق میں ہونے والے انتخابات میں دھاندلی کے امکان کے بارے میں بعض مغربی ذرائع ابلاغ کے خدشات پر تبصرہ کرتے ہوئے،تجزیہ کارکہتے ہیں کہ ترکیہ  میں مجموعی طور پر ووٹر ٹرن آؤٹ 86 فیصد رہتا ہے  اور اس بار یہ 90 فیصد سے زیادہ رہنے کی توقع ہے۔، لہذا دھاندلی کا امکان نہایت ہی کم ہے۔

الیکشن کونسل کے مطابق نتخابات میں ووٹ ڈالنے کے لیے 64 ملین سے زائد افراد رجسٹرڈ ہیں۔ اس کے علاوہ اس وقت بیرون ملک مقیم 3.2 ملین ترک شہری بھی اپنا حق رائے دہی استعمال کررہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکیہ میں ایک متحرک سیاسی اور جمہوری ڈی این اے موجود ہے۔ لہٰذا ادارے جمہوریت کا ساتھ دیں گے۔ ترکیہ میں کسی بھی حکومت کو جمہوری جواز کی ضرورت ہے،ورنہ وہ کام کرنے کے قابل نہیں ہوگی۔

اگر چہ  اردوان کی آق پارٹی کے پاس انفرادی طور پر اب بھی ٹھوس 32 فیصد کا ووٹ بینک موجود ہے، مگر پچھلے دو سالوں سے معیشت میں آئی کمزوری اور ہوشربا اخراجات نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔  انقرہ میں مقیم نیوز پورٹل ترکی اردو کے ایڈیٹر فرقان حمید کے مطابق اردوان کا مقابلہ اپوزیشن کے اتحاد کے بجائے مہنگائی اور ابتر ہوئی معیشت سے ہے۔

حمید، جو 1979 سے انقرہ میں مقیم ہیں، کا کہنا ہے کہ اردوان ملک کو صنعتی اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں لانے اور پوری آبادی کے لیے سماجی تحفظ متعارف کرانے کے لیے کریڈٹ کے مستحق ہیں، لیکن ایسا لگتا ہے کہ ا شیاء ضروریہ کی قیمتوں میں ناقابل تصور اضافہ اور حالیہ برسوں میں کرنسی لیرا کی گراوٹ نے ان کے انتخابی امکانات کو نقصان پہنچایا ہے۔

فی الحال، ملک میں کم از کم اجرت $420  ماہانہ ہے، جو دو بیڈ روم والے اپارٹمنٹ کرائے پر لینے کے لیے کافی نہیں ہے۔ اردوان نے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں اضافہ کیا ہے لیکن یہ رقم بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مطابقت نہیں رکھتی ہے۔ تنخواہوں میں اضافے نے بھی مہنگائی کو مزید ہوا دی۔

تجزیہ کار اس بات پر متفق ہیں کہ اردوان کی امکانی ہار کی وجہ صرف مہنگائی ہوگی۔ ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ کہ حزب اختلاف کے رہنما کے طور پر اردوان کی موجودگی، کسی بھی حکومت کے لیے ڈراونی صورت حال ہوگی۔وہ نظریاتی طور پر ایک دوسرے سے مختلف حکومتی اتحاد کی فیصلہ سازی کو پیچیدہ بنا دیں گے۔

اس لیے اگر وہ ہار بھی جاتے ہیں، تو تب بھی قومی مزاج کی علامت رہیں گے اور حکومت کو اپنی مرضی کے مطابق کرنے کے لیے محدود کرد یں گے۔ ان انتخابات کے نتائج سے اگر ترکیہ کی حکومت میں تبدیلی آجاتی ہے، تو وہ یقیناً ایک اور زلزلہ ثابت ہوگا، مگر یہ ارتعاش سیاسی نوعیت کا ہوگا جس کی لپیٹ میں پورے خطہ کے تژیروراتی حساب و کتاب کے الٹ پلٹ ہونے کا اندیشہ ہے۔