فکر و نظر

رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے فریبیز یعنی ’مفت کی سوغات‘ غیر جانبدارانہ انتخاب کے لیے پریشانی کا باعث کیوں ہے

حال ہی میں فلاحی پالیسیوں کی آڑ میں نقدی بانٹنے کا رواج عام ہو گیا ہے، بالخصوص انتخابات کے دوران۔ غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے میں ‘فریبیز’  کو ایک بڑے مسئلےکے طور پر دیکھا جاتا ہے ۔ اگر اس پر قابو نہیں پایا گیا تو اس سے ریاستوں پر مالیاتی  بوجھ پڑے گا۔

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

(علامتی تصویر: پی ٹی آئی)

تقریباً ایک سال پہلے بندیل کھنڈ ایکسپریس وے کی افتتاحی تقریب میں عوام سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نریندر مودی نے ‘مفت کی ریوڑی‘ کے سیاسی کلچر پر تنقید کرتے ہوئے کہا  تھاکہ یہ ملک کی ترقی کے لیے ‘بہت خطرناک’ ہے۔

‘ریوڑی کلچر’ پر ان کے بیان نےمفت انتخابی سوغات پر ایک زبردست سیاسی بحث چھیڑ دی  اور فریبیز (مفت میں دیا جانے والا سامان)مرکز اور ریاستوں کے درمیان تنازعہ کا موضوع بن گیا۔

وزیر اعظم کے نوٹس کے باوجودملک کی تمام سیاسی جماعتوں کے لیے کسی بھی انتخابی مہم کا بنیادی فوکس ، رائے دہندگان کو لبھانے کے لیے ‘مفت کی سوغات/مفت کی سہولیات’ یعنی’ فریبیز’ کا ڈسٹری بیوشن  ہی رہتا ہے۔

کرناٹک میں 10 مئی کو ہونے والے اسمبلی انتخابات سے پہلے سیاسی پارٹیوں کے درمیان ممکنہ ووٹروں کو ٹی وی، ککر، مکسر، چولہے، ساڑیاں، کھانے کی کٹ، مٹھائی کے ڈبے، گھڑیاں اور دیگر اشیاء مفت تقسیم کرنے کی  ہوڑ مچی ہوئی ہے۔

الیکشن کمیشن نے مشاہدہ کیا کہ شہری علاقوں میں ووٹروں کو لبھانے کے لیےڈیجیٹل والیٹ/یو پی آئی یا گفٹ کوپن کے ذریعےمفت نقد تحائف تقسیم کیے جا رہے ہیں،جس میں بنگلورو میٹروپولیٹن کے ووٹربھی شامل ہیں۔

سوشل میڈیا پر ایک ویڈیو سامنے آیا ہے، جس میں کرناٹک کانگریس کے صدر ڈی کے شیوکمار کو مانڈیا میں پارٹی کی ‘پرجا دھونی یاترا’ کے دوران لوگوں پر نوٹ اڑاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ اس ویڈیو کلپ نے سیاسی ہنگامہ کھڑا کر دیا ہے۔

مارچ 29کو ماڈل کوڈ آف کنڈکٹ (ایم سی سی) کے نافذ ہونے کے بعد سے کرناٹک میں انفورسمنٹ ایجنسیوں نے کل  170 کروڑ روپے سے زیادہ کی  ضبطی  کی ہے۔ الیکشن کمیشن نے نقدی، شراب، منشیات اور دیگر قیمتی اشیاءسمیت مختلف قسم کے غیر قانونی تحائف ضبط  کیے ہیں، جو ووٹرز میں تقسیم کرنے کے لیے جمع کیے جا رہے تھے۔

اپریل کے وسط تک 2023 کے انتخابات کی مجموعی ضبطی 2018 کے انتخابات میں ضبط کی گئی رقم سے چار گنا زیادہ ہے۔ ایڈیشنل چیف الیکٹورل آفیسر وینکٹیش کمار نے دی ہندو کو بتایا کہ بنگلورو کے بیاتاراین پورہ سے 3.6 کروڑ روپے اور شیوموگا سے 4.5 کروڑ روپے دو سب سے بڑے فریبیز ضبط کیے گئے ہیں۔

فریبیز کے منفی اثرات

غیر جانبدارانہ انتخابات کرانے میں ‘فریبیز ‘ کے ڈسٹری بیوشن کو ایک بڑا مسئلہ قرار دیا گیا ہے۔ اگر اس پر قابو نہیں  پایا گیا تو  ریاستوں پر مالیاتی  بوجھ پڑے گا۔

وقتاً فوقتاً سپریم کورٹ اور الیکشن کمیشن نے مفت خوری کےمضر اثرات پر روشنی ڈالی ہے۔ان سالوں میں  الیکشن کمیشن نے متعدد سفارشات کی ہیں اور بار بار حکومت کو انتخابی بدعنوانی کی تحقیقات کی ضرورت کی یاد دہانی کرائی ہے۔

حال ہی میں فلاحی پالیسیوں کی آڑ میں نقدی تقسیم کرنے کا رواج عام ہو گیا ہے،بالخصوص انتخابات کے دوران۔ کرناٹک کے علاوہ اس سال مدھیہ پردیش، راجستھان، میزورم، چھتیس گڑھ اور تلنگانہ میں اسمبلی انتخابات ہونے ہیں۔

مدھیہ پردیش میں وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان نے اعلان کیا ہے کہ وہ ‘لاڈلی بہنا یوجنا’ کے تحت ریاست کی ہر خاتون کو ماہانہ 1000 روپے دیں گے۔ انہوں نےاس نے پہلے ‘لاڈلی لکشمی یوجنا’ شروع کی تھی، جس کے تحت ریاست کالج میں داخلہ لیتے وقت لڑکیوں کو 25000 روپے دے رہی ہے۔

گزشتہ اسمبلی انتخابات کے لیے چوہان اسی طرح خرچ کرنے کی ہوڑ میں تھے۔ اس کڑی  میں ہر حاملہ خاتون کو 4000 روپے اور بچے کی پیدائش کے بعد 12500 روپے دینے کا اعلان کیا گیا تھا۔ ان میں سے کچھ اسکیموں میں لوگوں کے کھاتوں میں پیسے کی براہ راست منتقلی شامل ہے۔

شیوراج سنگھ چوہان کی حکومت نے 2020 میں ریاست کے کسانوں کے بینک کھاتوں میں 4000 روپے دو مساوی قسطوں میں منتقل کیے، جب ریاست میں 28 اسمبلی حلقوں کے لیے ضمنی انتخابات ہو رہے تھے۔

راجستھان اسمبلی کی 200 سیٹوں کے لیے انتخابات اس سال دسمبر میں ہونے کا امکان ہے۔ وزیر اعلیٰ اشوک گہلوت نے یکم جنوری 2004 کے بعد جوائن کرنے والے تمام ملازمین کے لیے نئی پنشن اسکیم (کنٹریبیوٹری پنشن پر مبنی) سے پرانی پنشن اسکیم میں تبدیلی کا اعلان کیا ہے۔

گہلوت حکومت کی طرف سے پیش کیے جانے والے دیگر تحائف میں ای–گاڑیوں کی خریداری کے لیے ریاستی جی ایس ٹی کی واپسی، دو پہیہ اور تین پہیوں والی ای–گاڑیوں کے خریداروں کو پیشگی امداد، گفٹ ڈیڈز پر اسٹامپ ڈیوٹی میں کمی وغیرہ شامل ہیں۔

دسمبر 2018 میں اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد چھتیس گڑھ میں کانگریس حکومت نے 6100 کروڑ روپے کے زرعی قرضے معاف کر دیے۔ اس نے دھان کی کم از کم امدادی قیمت (ایم ایس پی) کو 2500 روپے  فی کوئنٹل تک بڑھا دیا۔ مجموعی طور پر ریاست میں کانگریس حکومت نے  20000 کروڑ روپے سے  زیادہ کی مفت سہولیات تقسیم کیں۔

تلنگانہ میں جہاں دسمبر میں 119 سیٹوں کے لیے اسمبلی انتخابات ہوں گے، حکومت نے 1 لاکھ کروڑ روپے سے زیادہ کے فریبیز کا اعلان کیا ہے۔

‘ فریبیز کے راجا’ کہے  جانے والے چیف منسٹر کے چندر شیکھر راؤ اور ان کی پارٹی بھارت راشٹریہ سمیتی سب سے زیادہ تصوراتی فریبیز  دینے کے لیےمعروف ہے۔

مثال کے طور پر، اپنے ‘رایتو بندھو’ پروگرام کے تحت ریاستی حکومت نے  کسانوں کو ہر سال 4000 روپے  فی فصل امداد کے طور پر دیے، زمین کے سائز سے قطع نظر 120 ارب روپے خرچ کیے گئے۔

میزورم میں وزیر اعلیٰ زورامتھنگا نے گزشتہ سال خاندان پر مبنی سماجی-اقتصادی ترقی کی پالیسی (ایس ای ڈی پی) کا آغاز کیا۔ ایس ای ڈی پی  پالیسی 2018 کے اسمبلی انتخابات میں حکمران میزو نیشنل فرنٹ (ایف این ایف) کے منشور کا حصہ تھی۔

پھر بھی، حکومت کو خاندان پر مبنی پالیسی شروع کرنے میں تین سال سے زیادہ کا عرصہ لگا۔ مبینہ طور پر اسے ایم این ایف کو فائدہ پہنچانے کے لیے اس سال کے آخر میں ہونے والے اسمبلی انتخابات سے ٹھیک پہلے شروع کیا گیا ہے۔

زورام پیپلز موومنٹ (زیڈ پی ایم) پارٹی کی سیاسی امور کی کمیٹی کے رکن بی سی لالبین چنگا کہتے ہیں، ‘اپنےچوتھے سال کے اختتام پر تقریباً 8 فیصد پری پول وعدوں کی تکمیل آئندہ انتخابات کے لیے سیاسی ایجنڈے کو ظاہر کرتی ہے۔ میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ریاست کے معاشی بحران کو حل کرنے کے بجائے ان پالیسیوں نے کل کے لیے قرضوں کے شدید  بحران کو بڑھا دیا ہے۔

پارٹیوں کی جانب سے ریاستی خزانے کے ذریعے اس طرح کے مالیاتی تحائف کی تقسیم جلد ہی لیکویڈیٹی کی کمی کا باعث بن سکتی ہے، جس سے ریاستی حکومت کو قرض لینے پر مجبور ہونا پڑے گا۔

زیادہ تر ریاستوں میں پٹرولیم، ایکسائز ڈیوٹی یا لینڈ رجسٹریوں پر ٹیکس پہلے سے ہی انتہا پر ہیں۔ اس طرح کی نقد گرانٹس، سیاست دانوں کو جامع عوامی خدمات کی مؤثر فراہمی کی قیمت پر سیاسی حمایت، ووٹ کی خریدوفروخت، سرپرستی اورمقامی منصوبوں کے لیے خرچ کرنے کی سہولت کے بدلے بنیادی ووٹرز/خصوصی گروپوں کو فائدہ پہنچانے کے قابل بناتی ہیں۔

مالیاتی ذمہ داری اور بجٹ مینجمنٹ (ایف آر بی ایم) ایکٹ کے مطابق، ریاستوں کے لیے مجموعی ریاستی گھریلو مصنوعات (جی ایس ڈی پی) تناسب کا قرض 20 فیصد ہونا چاہیے۔ مہاراشٹر اور اڑیسہ کو چھوڑ کر باقی تمام ریاستوں میں یہ شرح  20 فیصد سے زیادہ ہے، پنجاب سب سے زیادہ مقروض ریاست ہے۔

ووٹ کی خریدو ٖفروخت  ہندوستان میں انتخابی ‘بدعنوانی’ کی ایک عام شکل ہے اور پھر بھی ہم نسبتاً کم جانتے ہیں کہ یہ کیسے کام کرتا ہے، اس کے کیا اثرات ہوتے ہیں اور ووٹرز اسے کس طرح دیکھتے ہیں۔

رویوں کے لحاظ سے ووٹرز ایسے سیاستدانوں سے ہینڈ آؤٹ کی توقع کرتے ہیں، جو انتخابی دور کے اوائل میں ہی بدعنوانی میں ملوث ہوتے ہیں۔

غریبوں اور ضرورت مندوں کو امداد فراہم کرنے کے لیے فریبیز کو سب سے چھوٹا اور سب سے تیز ذریعہ سمجھا جاتا ہے،یہ قومی خزانے کے لیے  بھاری قیمت پر آتے ہیں، کیونکہ قیمتی اقتصادی وسائل کو ترقیاتی منصوبوں سے الگ کرنا پڑتا ہے۔

فلاحی اسکیموں اور مفت تحائف کے درمیان ایک  واضح فرق کا فقدان ہے۔ سپریم کورٹ کا یہ جائزہ  درست ہے کہ انتخابات کے دوران ووٹروں کولبھانے کے لیے دی جانے والی غیر معقول مفت خوری پر پارلیامنٹ میں مؤثرثر انداز میں بحث نہیں ہو گی، کیونکہ کوئی بھی سیاسی جماعت فریبیز کو ختم نہیں کرنا چاہتی۔

(ویشالی اسٹریٹجک اور اقتصادی امور کی تجزیہ کار ہیں۔ انہوں  نے تقریباً ایک دہائی تک قومی سلامتی کونسل کے سکریٹریٹ کے ساتھ کام کیا ہے۔)