خبریں

منی پور میں تشدد کے درمیان 2 دنوں میں 13 لوگوں کی موت

منی پور کی اکثریتی میتیئی کمیونٹی اپنے لیے شیڈولڈ ٹرائب (ایس ٹی) کا درجہ مانگ رہی ہے، آدی واسی کمیونٹی اس کی مخالفت کر رہے  ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس سے ان کے آئینی حقوق متاثر ہوں گے ۔گزشتہ  3 مئی کو ریاست میں ایک آدی واسی  طلبہ تنظیم کی طرف سے میتیئی کمیونٹی کے مطالبات کے خلاف نکالے گئے احتجاجی  مارچ کے دوران تشدد پھوٹ پڑا تھا۔

منی پور میں جاری تشدد کے دوران کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ویڈیو گریب)

منی پور میں جاری تشدد کے دوران کئی گاڑیوں کو آگ لگا دی گئی۔ (فوٹو بہ شکریہ: ویڈیو گریب)

نئی دہلی: شمال–مشرقی ریاست منی پور میں اکثریتی میتیئی کمیونٹی کے لیے شیڈول ٹرائب (ایس ٹی) کا درجہ دینے کے مطالبے کے خلاف ریاست کی آدی واسی کمیونٹی کی جانب سے بڑے پیمانے پر مظاہروں کے نتیجے میں شروع ہونے والے تشدد میں دو دنوں میں کم از کم 13 لوگوں کی  جان چلی گئی ہے۔

وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے کہا کہ حالات پر قابو پانے کے لیے تمام اقدامات کیے جا رہے ہیں، تاہم زمینی حالات کچھ اور ہی  تصویر پیش کرتے  ہیں۔

دی وائر 3 مئی کی شام کو شروع ہونے والے تشدد کے دوران موت کے دو واقعات کی تصدیق کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ راجدھانی امپھال سے شائع ہونے والی سنگئی ایکسپریس نے 3  مئی سے 4 مئی کے درمیان ریاست کے مختلف حصوں میں ہلاک ہونے والے لوگوں  کی تعداد 11 بتائی ہے۔

منی پور میں آدی واسی  اور غیرآدی واسی  برادریوں کے درمیان بڑے پیمانے پر تشدد دیکھنے میں آیا ہے، جو 3 مئی کو آل ٹرائبل اسٹوڈنٹس یونین آف منی پور (اے ٹی ایس یو ایم) کی طرف سے مختلف پہاڑی اضلاع میں منعقد  ایک مارچ کے بعد شروع ہوا تھا۔

یہ مارچ ریاست کی اکثریتی میتیئی برادری کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے خلاف احتجاج کے طور پر نکالا گیا تھا۔

گزشتہ 30 اپریل کو منی پور ہائی کورٹ نے ریاستی حکومت کو ہدایت دی تھی کہ وہ مرکزی وزارت قبائلی امور کو میتیئی کو ایس ٹی کا درجہ دینے کے لیے ایک سفارش پیش کرے، آدی واسی  برادریوں نے اس بنیاد پراس کی  مخالفت کی تھی کہ اس سے ان کے آئینی تحفظات اور حقوق متاثر ہوں گے۔

تشدد کے پیش نظر ریاست نے فی الحال پانچ دنوں کے لیے انٹرنیٹ خدمات معطل کر دی ہیں اور منی پور کےآٹھ اضلاع میں کرفیو نافذ کر دیا گیا ہے، جن میں غیرآدی واسی  اکثریت والے امپھال ویسٹ، کاکنگ، تھوبل، جیریبام اور بشنو پور اضلاع کے ساتھ ساتھ آدی واسی  اکثریت والے اضلاع چوراچاند پور، کانگپوکپی اور ٹینگنوپل بھی شامل ہیں۔

تشدد کے بعد آتش زنی، فائرنگ اور پتھراؤ سے متعلق ویڈیوز سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔

گزشتہ 4 مئی کی رات  کو پہاڑی شہر سیکول کے رہنے والے لیتکھوہاؤ ہاوکیپ نے اپنے بھتیجے کی موت کی تصدیق کرتے ہوئےدی وائر کو بتایا،’ہم 3 مئی کی رات کو اپنی برادری (ککی) کے لوگوں کی مدد کے لیے گئے تھے، جب میرے بھتیجے منگمنجوائےکو منی پور پولیس کے کمانڈو نے گولی مار دی۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ انہیں پولیس نے مبینہ طور پر گولی کیوں ماری  تو لیتکھاؤ نے دعویٰ کیا،’یہاں منی پور میں اب ہر کوئی دو برادریوں میں تقسیم ہو گیا ہے۔ میتیئی کمیونٹی سے تعلق رکھنے والی پولیس اپنی کمیونٹی کی مدداس لیے کر رہی ہے کیونکہ وہ اکثریت میں ہیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا،’کوئی بھی ہماری مدد نہیں کر رہا ہے۔ میری وزیر اعظم سے عاجزانہ درخواست ہے کہ وہ منی پور کے لوگوں کی مدد کریں، کیونکہ وزیر اعلیٰ یہاں کچھ نہیں کر رہے ہیں۔

اہل خانہ کا کہنا ہے کہ 20 سالہ فٹ بال کھلاڑی منگمنجوائے کو 1 اور 2 بجے کے درمیان گولی ماری گئی۔ وہ انہیں سیکول کمیونٹی ہیلتھ سینٹر لے گئے، جہاں دیر رات تقریباً 3 بجے اسے مردہ قرار دیا گیا۔

موت کی تصدیق کے لیے دی وائر نے مریض کا رجسٹریشن نمبر بھی نوٹ کیا۔ ڈیتھ سرٹیفکیٹ میں جاری کی گئی موت کی وجہ میں کہا گیا ہے کہ، ‘سر میں گولی لگنے کے بعد مردہ کو لائے جانے کا معاملہ۔’

دی وائر کے ذریعے تصدیق کی گئی  ایک اور موت امپھال ویسٹ ضلع کے کھونگسائی وینگ کالونی میں ہوئی تھی۔

ایک مقامی جنکھومانگ نے کہا، وہ 11ویں جماعت کا طالبعلم تھا، جس کا نام تھنگگن لوفینگ تھا۔ ہجوم میں شامل ایک شخص نے اسے سینے میں گولی مار دی اور وہ موقع پر ہی دم توڑ گیا۔ کوئی نہیں جانتا کہ اس کی لاش کہاں ہے۔ اس کا خاندان سیکول ضلع کے تھانگکنفائی گاؤں میں رہتا ہے۔

تشدد کے بعدتمام لوگ کیمپوں میں رہنے کو مجبور ہیں۔سنیچر کو نیوز ایجنسی اے این آئی نے ایک ٹوئٹ میں اطلاع دی کہ 3 مئی کو تشدد شروع ہونے کے بعد سے فوج اور آسام رائفلز نے  11000 سے زیادہ شہریوں کو محفوظ طریقے سے اپنے کیمپوں میں منتقل کیا ہے۔ انہیں خوراک، رہائش اور طبی امداد سمیت تمام بنیادی سہولیات فراہم کی جا رہی ہیں۔

سیکول ضلع کے پانگزانگ گاؤں کے رہنے والا جنکھومانگ اس وقت امپھال مغربی ضلع کے منتری پوکھری علاقے میں آسام رائفلز کے کیمپ میں رہ رہے ہیں۔

انہوں نے کہا، ‘میں امپھال مغربی ضلع میں ایک میتیئی شخص کے مکان میں کرائے پر رہ رہا تھا۔ جیسے ہی حالات خراب ہونے لگے، میں نے آسام رائفلز سے رابطہ کیا اور انہوں نے مجھے بلا لیا۔ کیمپ میں ہم تقریباً 500-1000 لوگ ہیں اور خوش قسمتی سے ہم سب محفوظ ہیں۔

گزشتہ 4 مئی کی دیر شام انڈیا ٹوڈے نے اطلاع دی کہ بی جے پی کے تین بار کےایم ایل اے اور قبائلی امور کے سابق وزیر ونگزاگین والٹے پر امپھال میں وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ کے ساتھ میٹنگ سے گھر لوٹتے ہوئے ہجوم نے حملہ کیا تھا۔

خبروں میں بتایا گیا ہے کہ جب ایم ایل اے اور ان کے ڈرائیور پر حملہ کیا گیا تو ان کے سیکورٹی اہلکار فرار ہو گئے۔ بتایا جا رہا ہے کہ ایم ایل اے کی حالت نازک ہے اور امپھال میں سرکاری ملکیت والےریمس ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں ان کاعلاج چل رہا ہے۔

سنگئی ایکسپریس کی رپورٹ کے مطابق، بھیڑ کے تشدد میں ایم ایل اے کے ساتھ ریمس  میں داخل ایک شخص کی موت  ہو گئی ہے۔ دی وائر ابھی  تک اس بات کی تصدیق نہیں کر سکا ہے کہ  ہلاک ہونے والا شخص ایم ایل اے کی گاڑی میں تھا یا نہیں۔

اخبار نے اپنی رپورٹ میں کہا ہے کہ دو دنوں کے تشدد میں 11 لوگوں کی  جان چلی گئی ہے اور سینکڑوں لوگ زخمی ہوئے ہیں اور کئی مکانات اور املاک توڑ دی گئی ہیں یا جلا دی گئی ہیں۔

اس میں کہا گیا ہے، گزشتہ رات  (3 مئی) سنگامیئی مارکیٹ (امپھال مغربی ضلع میں) ہجومی تشدد میں ایک شخص  کی موت ہوگئی اور ایک گاڑی کو نذر آتش کر دیا گیا۔ 3 مئی کی رات ہی کانگ پوکپی (ضلع ہیڈ کوارٹر) میں ایک واقعہ میں گولیاں چلائی گئیں۔ پولیس کی جوابی کارروائی میں ایک شخص ہلاک ہوگیا۔

گزشتہ 4 مئی کی صبح امپھال کے کاکوا نامیرکپم لیئیکئی میں ایک ہجوم نے ایک شخص کو ہلاک کر دیا جبکہ دو دیگر زخمی ہو گئے۔ دونوں زخمی نے دوپہر کوریمس  میں دم توڑ  دیا۔

تشدد کی وجہ سے منی پور کے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

تشدد کی وجہ سے منی پور کے لوگوں کو نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے۔ (فوٹو بہ شکریہ: اے این آئی)

اخبار نے 4 مئی کو امپھال مغربی ضلع کے چاجنگ میں ایک اور موت کی تصدیق کی اور کہا، کل (3 مئی) چورا چاند پور، موریہہ، گمگیفائی، موٹبنگ اور سیکول علاقوں سے بڑے پیمانے پر تشدد کی اطلاع ملی تھی۔ امپھال میں ڈنگکوروآ میں 3 مئی  کی رات ہجوم کی طرف سے چلائی گئی گولی ایک شخص کو لگ گئی جس کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔

گزشتہ 3 مئی کو ہی تینگنوپال ضلع کے موریہہ میں اور 4 مئی کو امپھال مغربی ضلع کےسینجم چرانگ میں دو دیگر لوگوں کی موت کی اطلاع ، اخبار نےدی تھی۔

مقامی لوگوں نے دی وائر سے اس بات کی تصدیق کی ہے کہ پوری ریاست تشدد کا مشاہدہ کر رہی ہے، جہاں لوگ کھلے عام  پستول، اے کے 47 اور دیگر ہتھیاروں کے ساتھ گھوم رہے ہیں۔

گزشتہ 4 مئی کو مرکزی حکومت نے مداخلت کی اور ریاست کے مختلف حصوں سے لوگوں کو نکالنے کے لیے فوج اور آسام رائفلز کے اہلکاروں کو تعینات کیا۔ ریاست کے مختلف حصوں سے کم از کم 7500 افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔

اس سے پہلے دن میں مرکزی وزیر داخلہ امت شاہ نے صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے وزیر اعلیٰ کے ساتھ ٹیلی فون پر بات چیت کی۔ وزیر اعلیٰ این بیرین سنگھ نے ٹیلی ویژن پر تمام شہریوں سے تشدد ترک کرنے اور امن و امان بنائے رکھنے کی اپیل کی۔ انہوں نے کہا کہ فسادات جیسی صورتحال ‘غلط فہمی’ سے پیدا ہوئی ہے۔

دفاعی پی آر او کوہیما اور امپھال نے کہا کہ ‘تمام اسٹیک ہولڈرز کی جانب سے مربوط کارروائیوں کے ذریعے صورتحال کو قابو میں لایا گیا’۔ متاثرہ علاقوں سے تمام برادریوں کے شہریوں کو نکالنے کا کام رات بھر جاری رہا۔

پی آر او نے مزید کہا کہ فوج چورا چاند پور اور دیگر حساس علاقوں میں فلیگ مارچ کر رہی ہے۔

ممنوعہ احکامات کے باوجود بڑھتے ہوئے تشدد کے پیش نظر مرکزی وزارت داخلہ نے بعد میں اندرونی خلفشار پر قابو پانے کے لیے آئین کے آرٹیکل 355 کو نافذ کیا۔

گوہاٹی میں ڈیفنس پی آر او لیفٹیننٹ کرنل مہندر راوت نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ 4 مئی کو مرکزی وزارت داخلہ کی ہدایت پر سی آر پی ایف کی ریپڈ ایکشن فورس (آر اے ایف) کی پانچ کمپنیوں کو امپھال بھیجا گیا تھا۔

اس سے پہلے دن میں منی پور کے گورنر نے تمام ڈسٹرکٹ مجسٹریٹس، سب ڈویژنل مجسٹریٹس اور تمام ایگزیکٹو مجسٹریٹس/خصوصی ایگزیکٹو مجسٹریٹس کو انتہائی صورتوں میں شرپسندوں کو ‘دیکھتے ہی گولی مارنے‘ کے احکامات جاری کیے۔

میتیئی برادری ایس سی اور او بی سی کے زمرے میں آتی ہے، لیکن وہ ایس ٹی کا درجہ دینے کا مطالبہ کر رہی ہے، جبکہ ایس ٹی برادری کے لوگ اس کی مخالفت کر رہے ہیں کیونکہ وہ اپنے حقوق کھونے سے ڈرتے ہیں کیونکہ منی پور میں میتیئی برادری کی آبادی تقریباً 53 فیصد ہے۔

گزشتہ 4 مئی کو ککی برادری کے تقریباً 500 لوگ وزیر اعلیٰ کے استعفیٰ اور  اور ریاست میں صدر راج نافذ کرنے کی مانگ کرتے ہوئے نئی دہلی میں منی پور بھون کے باہر جمع ہوئے تھے ۔

انہوں نے اپنے مطالبات کا خاکہ پیش کرتے ہوئے صدر دروپدی مرمو کو ایک خط بھی لکھا، جس پر ککی برادری کی مختلف طلبہ تنظیموں کے صدور نے دستخط کیے تھے۔

تشدد زدہ چورا چاند پور کے توئبونگ کے بیجنگ کے رہنے والے سنگسیت کا خیال ہے کہ ریاست میں بی جے پی حکومت مقامی میڈیا کواپنے حق میں استعمال کر رہی ہے۔ انہوں نے فوج اور ریاستی پولیس پر ریاست میں فسادیوں کی مدد کرنے کا الزام لگایا۔

دی وائر نے سنگسیت کی طرف سے ہمارے ساتھ شیئر کیے گئے کچھ ویڈیوز دیکھے ہیں۔ ایک ویڈیو میں مردوں کے ایک گروپ کو بندوقیں اٹھائے کانگ پوکپی ضلع کی طرف جاتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔ سنگسیت نے دعویٰ کیا کہ اس گروپ کا تعلق میتیئی کمیونٹی سے ہے۔

اس کے علاوہ سنگسیت نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ مقامی پولیس، فوج اور میڈیا میتیئی کمیونٹی کی مدد کر رہے ہیں اور ریاست میں فسادات کو نہیں روک رہے ہیں۔ ایک اور ویڈیو میں فوجی وردی میں مردوں کے ایک گروپ کو بھیڑ کے ساتھ چلتے ہوئے دیکھا جا سکتا ہے۔

امپھال کے ایک پادری نے دی وائر کو بتایا کہ ریاست کے کئی گرجا گھروں کو ہجوم نے آگ لگا دی تھی۔ کچھ رپورٹس کے مطابق تقریباً 25 گرجا گھروں کو جلا دیا گیا تھا۔

چورا چاند پور میں رہنے والے موانلیان تونسنگ نے کہا، منی پور یونیورسٹی کے اندر قبائلی طلبا کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ یونیورسٹی کے فوجی کیمپ میں اس وقت تقریباً 150 قبائلی پناہ لیےہوئے ہیں۔ سب رجسٹرار ڈیوڈ زوٹ کے گھر پر حملہ ہوا، وہ بال بال بچ گئے۔ حملہ آور (50-100 مرد) گرلز ہاسٹل  کے دروازے اور تالے توڑ کراندرداخل ہوئے۔ انہوں نے شناختی کارڈ چیک کیے اور کچھ طلبا بالکونی سے کود گئے۔ یہ ککی/ایمی طلباء اور عملے کو تلاش کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔

اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔

Categories: خبریں

Tagged as: , , ,