الیکشن نامہ

کرناٹک انتخابات: اگر کانگریس نمایاں فرق سے نہیں جیتی تو اس کے لیے بی جے پی کے منی پاور کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہیں ہوگا

اگرچہ کانگریس زیادہ تر پری پول سروے میں آگے ہے، لیکن اگر ہم ماضی کی انتخابی کارکردگی کا جائزہ لیں تو وہ  ووٹ شیئر کے لحاظ سے پیچھے ہے۔ اس کے ساتھ ہی کانگریس لیڈروں کو یہ خوف بھی ہے  کہ اگر پارٹی بڑے فرق سے نہیں جیتی تو اس کے لیے بی جے پی کے منی پاور کے سامنے کھڑا ہونا آسان نہیں ہوگا۔

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے منشور جاری کرتے ہوئے کانگریس لیڈر۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@INCKarnataka)

کرناٹک اسمبلی انتخابات کے لیے منشور جاری کرتے ہوئے کانگریس لیڈر۔ (تصویر بہ شکریہ: Facebook/@INCKarnataka)

کرناٹک میں انتخابی مہم اپنے آخری مرحلے میں ہے اور عام تاثر یہی ہے کہ اس اسمبلی انتخابات میں کانگریس بی جے پی کو شکست دینے والی ہے۔ انتخابی مہم کے آخری ہفتے میں جہاں وزیر اعظم نریندر مودی نے خود کو انتخابی مہم میں پوری طرح جھونک دیا ہے، وہیں زیادہ تر پری پول سروے بی جے پی پر کانگریس کی واضح برتری کی تصویر پیش کر رہے ہیں۔

ریاست میں بی جے پی امیدوار مودی کی آمد کا اس طرح انتظار کر رہے ہیں جیسے کسان قحط سالی  میں بارش کا کی راہ دیکھتے  ہیں۔ کرناٹک کابینہ کے  سابق وزیر اور چکمنگلور اسمبلی سیٹ سے بی جے پی کے امیدوار سی ٹی روی نے بے باکی  سے کہا، مودی آنے والے سات دنوں میں بی جے پی کے لیے1-2 فیصد اضافی سوئنگ ووٹ کا بندوبست کریں گے۔ مودی کی موجودگی ہمارے خلاف غصے کو کم کرنےکا تھوڑا کام کرے گی۔ تاہم، بی جے پی کے سینئر رہنماؤں کے پارٹی چھوڑ کر جانے سے پارٹی کو ہونے والا  نقصان یقینی طور پر کانگریس کے حق میں کام کرے گا۔

یہ بات بلا شبہ کہی جا سکتی ہے کہ کانگریس کے حق میں لہر ہے، جس کی تصدیق بی جے پی لیڈروں اور کارکنوں میں جوش و جذبے کی کمی سے ہوتی ہے۔ وہ صرف اس انتظار میں ہیں کہ مودی 8 مئی کو انتخابی مہم ختم ہونے سے پہلے کوئی معجزہ کر دیں۔

بی جے پی کے ایک سینئر وزیر نے جو کہ بنگلور سے  امیدوار بھی  ہیں، اس کو چھپانے کی کوشش بھی نہیں کی جب انہوں نے کہا، مودی جی آئیں گے اور ووٹروں کو ایک ہفتے کے اندر ہمارے حق میں موڑ دیں گے۔ ان کا صاف مطلب یہ تھا کہ مودی جی کی مداخلت کے بغیر  بی جے پی کی حالت نازک ہے۔

بنگلورو سے میسور ہوتے ہوئے ہبلی، ہاسن، چکمنگلور اور شیموگہ کا سفر کرتے ہوئے یہ حقیقت بار بار سامنے آتی رہی۔

چکمنگلور کے بی جے پی امیدوار دیپک دودیا نے دو ٹوک الفاظ میں کہا کہ انتخاب کے آخری مرحلے میں مودی کے عوامی جلسوں سے منظر نامہ بدل جائے گا۔ کچھ ایسا ہی عام بی جے پی کارکنوں کے منہ سے بھی سننے کو ملا۔ یہ ایسا ہی تھا گویا کسی نے یہ کہنے کے لیے ان کی پروگرامنگ کر دی ہے کہ مودی آئیں گے اور ان کی حفاظت کریں گے۔

بی جے پی کے زیادہ تر لیڈر اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ پارٹی کو حکومت مخالف شدید لہر کا سامنا ہے، جس کو پچھلے کئی سالوں میں سب سےزیادہ  بدعنوان حکومت  ہونے کے تصور نے اور زیادہ مضبوط کرنے کا کام کیا ہے۔’ 40 فیصد والی حکومت’ کا محاورہ عوام میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل چکا ہے۔ بی جے پی کچھ بھی کر لے، وہ اس پر پردہ نہیں ڈال سکتی۔

اب سوال یہ ہے کہ مودی حالات کو کس حد تک بدل سکیں گے؟ زیادہ تر پری پول سروے میں کانگریس کو 40 فیصد سے زیادہ ووٹ حاصل کرتے ہوئے (2018 میں اسے 38 فیصد ووٹ ملے تھے) اور 224 سیٹوں والی اسمبلی میں 113 سیٹوں کے اکثریتی نشان کو عبور کرتا ہوا دکھایا جا رہا ہے۔

لیکن کانگریس انہونی کا شکار ہو سکتی ہے۔ ریاست میں پارٹی کے سب سے مقبول لیڈر سدارمیا نے ان سے ملاقات کرنے والے نامہ نگاروں کو بتایا کہ پارٹی کو محفوظ رہنے کے لیے 120 سے زیادہ سیٹیں جیتنی ہوں گی۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ  120 سے کم سیٹیں ہونے پر بی جے پی اور جے ڈی (ایس) مل کر ایم ایل اے کی خرید وفروخت کی کوشش کر سکتے ہیں۔

کانگریس لیڈروں کو سب سے زیادہ ڈراسی بات کا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اگر کانگریس نمایاں فرق سے نہیں جیتتی ہے تو اس کے لیے بی جے پی کے منی پاور کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوگا۔

کانگریس لیڈر ڈی کے شیوکمار نے یہ بھی کہا کہ وہ کئی علاقوں میں ووٹر لسٹ میں کی گئی تبدیلیوں کے بارے میں بھی فکر مند ہیں، جہاں غیر معمولی طور پر بڑی تعداد میں ووٹرز کے نام فہرست سے غائب ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس پر نظر رکھے ہوئے ہیں۔

چیف منسٹر بسوراج بومئی نے دلیری سے دعویٰ کیا ہے کہ بی جے پی اکثریت کے ساتھ حکومت بنائے گی اور تمام پری پول سروے غلط ثابت ہوں گے۔ بومئی نے ہمارے سامنے اعتراف کیا کہ ‘کانگریس ہمارے خلاف بدعنوانی اور بیڈ گورننس کی بات کوپھیلانے میں کامیاب رہی ہے، لیکن دیہی علاقوں میں ہمارا کام خود بولے گا۔

بومئی  نے خاص طور پر درج فہرست ذات کی اکثریت والے علاقوں میں سڑک کی تعمیر اور دیگر دیہی بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے لیے کیے گئے کاموں کا ذکر کیا۔ بومئی نے کہا، اس سے ہمیں یقیناً فائدہ پہنچے گا۔ یہ پوچھے جانے پر کہ کیا جگدیش شیٹار کے پارٹی چھوڑنے سے پارٹی کو نقصان پہنچے گا، بومئی نے کہا کہ شیٹار اپنی ہبلی سیٹ بھی نہیں جیت پائیں گے۔

شیٹار کے گھر میں مودی کی تصویر اب بھی آویزاں ہے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنے تنگ نظر نہیں ہیں کہ اسے فوراً ہٹا دیں۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

شیٹار کے گھر میں مودی کی تصویر اب بھی آویزاں ہے۔ جب ان سے اس بارے میں پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ وہ اتنے تنگ نظر نہیں ہیں کہ اسے فوراً ہٹا دیں۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

لیکن جب ہم شیٹار سے ان کے گھر ہبلی میں ملے تو انہیں یقین تھا کہ وہ نہ صرف اپنی سیٹ آسانی سے جیت لیں گے بلکہ کرناٹک کے کئی علاقوں میں مضبوط موجودگی رکھنے والے لنگایتوں کے دبدبے والی دو درجن سے زیادہ سیٹوں  پر ہر جگہ بی جے پی کےکم سے کم 5000 ووٹ بھی کاٹیں گے۔

روایتی طور پر کرناٹک میں 60 سے 70 فیصد لنگایت ووٹ بی جے پی کو جاتے رہے ہیں۔ لیکن شیٹار کا دعویٰ ہے کہ اس بار لنگایت کا ایک بڑا طبقہ بی جے پی سے دور ہو جائے گا۔

امید کے مطابق، چیف منسٹر بومئی جو خود ایک لنگایت لیڈر ہیں، نے اس دعوے پر طنز کیا۔ اپنی روایتی لنگایت بنیاد کو برقرار رکھنے کے لیے، بی جے پی اپنے سب سے بڑے لنگایت لیڈر بی ایس یدیورپا اور بومئی پر اعتماد کر رہی ہے۔ لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ بی جے پی کی مرکزی قیادت کے ذریعے شیٹار کی تذلیل اور ان کے پارٹی چھوڑنے سے پارٹی کو یقیناً نقصان ہوگا۔

بی جے پی کا روایتی لنگایت ووٹ بینک کتنا ٹوٹتا ہے، یہ اس الیکشن کے نتائج طے کرنے میں اہم رول ادا کرے گا۔ اس سے یہ طے ہوگا کہ کانگریس 120 سے زیادہ سیٹوں کے ساتھ اکثریت کے نشان کو چھو پاتی ہے یا نہیں!

کانگریس کی کارکردگی اس بات سے بھی طے ہو گی کہ کیا سابق وزیر اعظم دیوے گوڑا کے خاندان کے  کنٹرول والی جے ڈی (ایس)  آخر کار بی جے پی کی مددگار ثابت ہوتی ہے۔ اولڈ میسور کی ورنا ودھان سبھا سے موجودہ ایم ایل اے یتیندرا کا کہنا ہے کہ ، جے ڈی (ایس) نے کئی اسمبلی حلقوں میں کانگریس کو نقصان پہنچانے کے لیے بی جے پی کے خلاف کمزور امیدوار کھڑے کیے ہیں۔

اس بار یتندرا نے اپنی نشست اپنے والد سدارمیا کے لیے چھوڑ دی ہے۔ ورونا وقار کی جنگ بن گیا ہے، جہاں بی جے پی اور جے ڈی (ایس) دونوں  ہی کانگریس کے اس سرکردہ کار لیڈر کو شکست دینے کی کوشش کر رہے ہیں۔

کانگریس کے سینئر لیڈر ڈی کے شیوکمار کا بھی ماننا ہے کہ بی جے پی اور جے ڈی (ایس) کے درمیان خفیہ معاہدہ ہے۔ وہ ثبوت کے طور پر حوالہ دیتے ہیں کہ مودی عام طور پر 200 سیٹوں پر الیکشن لڑ رہی جے ڈی (ایس) پر تنقید کرنے سے گریز کرتے ہیں۔

اگر جے ڈی (ایس) کانگریس کو بی جے پی کے مقابلے زیادہ نقصان پہنچاتی ہے، تو پچھلی بار کے مقابلے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے کے باوجود پارٹی 224 میں سے 120 سیٹیں جیت کر محفوظ اکثریت کے اعدادوشمار سےدور رہ سکتی ہے۔ حالانکہ خفیہ معاہدوں کے ساتھ سہ رخی مقابلوں کے پیچیدہ نتائج ہو سکتے ہیں، جو اس بات پر منحصر ہے کہ دو اہم جماعتوں کو کم اہم تیسری پارٹی کتنا نقصان پہنچاتی ہے۔

اس نقطہ نظر سے دیکھیں تو، جے ڈی (ایس) کا کردار الیکشن میں تاش کےجوکر جیسا ہے۔ حالیہ انتخابی تاریخ پر بھی نظر ڈالیں تو جے ڈی (ایس) کا انتخابی کردار معلق اسمبلی کی صورت حال پیدا کرنا رہا ہے۔ اگر سروے پر یقین کیا جائے تو اس بار ووٹروں نے فیصلہ کن مینڈیٹ کے لیے اپنا ذہن بنا لیا ہے۔

اگرچہ زیادہ تر پری پول سروے میں کانگریس آگے ہے، لیکن یہ ایک کمزوری سے دوچار ہے۔ 2018 میں کانگریس کو صرف 80 سیٹیں ملی تھیں، جبکہ اس کا ووٹ شیئر- 38 فیصد- بی جے پی کے 36 فیصد کے مقابلے  زیادہ تھا۔ بی جے پی دو فیصد کم ووٹ حاصل کرنے کے باوجود 104 سیٹوں کے ساتھ واحد سب سے بڑی پارٹی بن کر ابھری کیونکہ اس کے ووٹ کچھ علاقوں میں زیادہ پولرائزڈ ہیں۔

ایسے میں اگر اس بار کانگریس کا ووٹ فیصد 40 فیصد سے تجاوز کر جاتا ہے اور  وہ  بی جے پی سے 4-5 فیصد ووٹوں سے آگے رہتی ہے تو بھی یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ یہ ووٹ 120-130کی محفوظ اکثریت میں میں تبدیل ہو سکے گا یا نہیں، جو ایم ایل اے کی ہارس ٹریڈنگ کے امکانات  کوختم کرے گا۔ کرناٹک میں کانگریس کی انتخابی قسمت کی کلید ان سوالوں کے جواب میں ہی مضمر ہے۔

مجموعی طور پر 120 سے زیادہ سیٹوں کی معمولی اکثریت نہ صرف کانگریس بلکہ اپوزیشن کو بھی یہ باور کرانے کا کام کرے گی کہ مودی کی قیادت والی بی جے پی کو سیاسی اور انتخابی چیلنج دیا جا سکتا ہے۔ اس لیے کرناٹک انتخابات کا طویل مدتی اثر ریاست کی سرحدوں سے باہر پورے ملک پر پڑے گا۔

(اس رپورٹ کو انگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)