الیکشن نامہ

کرناٹک انتخابات: بی جے پی کے ہندوتوا کی گدگداہٹ اب ہنسانے کے بجائے رلانے لگی ہے

وزیر اعظم نریندر مودی نے جس طرح کرناٹک اسمبلی انتخابات کو اپنی شخصیت سے جوڑ کر پوری مہم میں اپنے عہدے کے وقارتک سےسمجھوتہ کیا اوررائے دہندگان نے جس طرح ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ بی جے پی کے ‘مودی نام کیولم’ والے سنہرے دن بیت گئے ہیں۔

وزیر اعظم نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/نریندر مودی)

وزیر اعظم نریندر مودی انتخابی مہم کے دوران۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک/نریندر مودی)

کرناٹک کے رائے دہندگان نے اسمبلی انتخابات میں جو فیصلہ سنایا ہے ، فطری طور پراس کے کئی تجزیے کیے جائیں گے۔ پوچھا جائے گا کہ انہوں نے کتنا بی جے پی کوہرایا اور کتنا کانگریس یا اپوزیشن (کیونکہ جنتا دل سیکولر کو ملی سیٹیں بھی بی جے پی مخالف مینڈیٹ کا حصہ ہیں) کو جتایا ہے؟

یہی نہیں، اپنے آخری لمحات میں اندھا دھندانتخابی مہم چلا کر انتخابی نتائج کو اپنے حق میں کرنے میں وزیر اعظم نریندر مودی کے کرشمے کی ناکامی پر بھی سوال اٹھیں گے ہی اٹھیں گے۔

ہاں،2014 میں ان کے اقتدار میں آنے کے بعد،ایک دو استثنیٰ کو چھوڑ کر، تقریباً تمام انتخابات میں کانگریس کو زبردست شکست کا سامنا کرنا پڑا، تو’ کانگریس مکت بھارت’ کی اپیل پر کان دینے والے جو حضرات  کہنے لگے تھے کہ  اب وہ جیتنا ہی  بھول گئی  ہے، انہیں بھی اس سوال کے سامنے کھڑا ہی کیا جائے گا کہ اب وہ انہیں،آہستہ آہستہ ہی صحیح،پھر سےجیت کا سبق یاد کرتی نظر آنے لگی ہے یا نہیں؟

اگر نہیں تو اس نے ہماچل کے بعد کرناٹک میں بھی بی جے پی  سے اس کی چمک کیوں کر چھین لی ہے؟ اگر ہاں، تو کیا یہ زمین کے اپنے محور پر 360 ڈگری گھوم  جانے جیسی بات نہیں ہے؟

اس لحاظ سے دیکھیں تو کرناٹک کے اس فیصلے کے سلسلے میں  سب سے موزوں  بات یہ ہے کہ بی جے پی کے ہندوتوا کی  جو گدگداہٹ کبھی ووٹروں کے ایک بڑے حصے کو اس حد تک ہنساتی تھی کہ وہ اپنے سارے دکھ درد بھول کر اس کی جھولی  میں آ گرتے تھے اور اسے ہر طرح کی اینٹی انکمبینسی سے محفوظ کر دیتے تھے، اب وہ  انہیں اتنا رلانے لگی ہے کہ وہ اس بنا پر بھی بی جے پی کو برداشت کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اس کی سرکاروں  کے ناکارہ پن کے ساتھ توبالکل بھی نہیں۔

اسی لیے انہوں نے ہندوتوا کو اس کی بدانتظامی اور بدعنوانی کے لیے ڈھال بنانے کی کوششوں کو یکسر مسترد کر دیا ہے۔ یہ تقریباً ایسا ہی ہے جیسے 2014 میں ہم وطنوں نے اپنے آپ کو سیکولر کہنے والی پارٹیوں کی اس امید پر پانی پھیر دیا تھا کہ وہ ان کی تمام من مانیاں برداشت کرکے بھی  فرقہ پرست بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے روکے رکھیں گے۔

بی جے پی وقت رہتے  اودھ کی اس کہاوت کا سبق اپنا لیتی کہ گدگدگی اتنی ہی لگانی چاہیے،جتنی ہنسی آئے توکون جانےاس  حالت زار سے بچ جاتی۔

بہرحال،اس کی بدقسمتی سے اس انتخاب میں کانگریس بھی طویل عرصے کے بعد کلرس انسٹنکٹ(کچھ کر دکھانے کا عزم) کے ساتھ میدان میں اتری، اس کو زندگی اور موت کا سوال مان کر۔ اس کے بغیر اس کے لیے اس طرح منظم مہم چلانا ممکن  ہی نہیں تھا، جیسا کہ اس نےچلایا۔

اس مہم میں نہ تو اس کی علاقائی یا مقامی اکائیاں ہائی کمان (صاف کہیں تو سونیا گاندھی، راہل اور پرینکا گاندھی) کے بھروسے بیٹھی رہیں، اور نہ ہائی کمان نے انہیں اپنا محتاج سمجھنے یا سب کچھ ان پر ہی  چھوڑ دینے کی غلطی دہرائی۔

پارٹی کی ڈھانچہ جاتی کمزوریوں کے باوجود دونوں نے ایسی ہم آہنگی کا مظاہرہ کیا کہ مبصرین کے لیے یہ کہنا مشکل تھا کہ پارٹی کے مقامی لیڈروں نے زیادہ پسینہ بہایایا ہائی کمان نے ۔

اسی  بناپراس نے بی جے پی سےجیسے کو تیسا کی طرز پر نمٹ  کراسےانتخاب کو اپنے ایجنڈےیا بیانیے پر لے جانے سے روکااور بہتر حکمت عملی اپناتے ہوئے سماجی فارمولے کو اپنے موافق یا نیا ایجنڈا سیٹ کرنے میں بھرپور کامیابی حاصل کی ۔

اس کے بعد اس نے بی جے پی کی بنائی ہوئی فرقہ پرستی کی دیوار پر ووٹروں کے دکھ اور درد کا آئینہ لگا کر اس کو ہی ان کے سامنے لا کھڑا کیا۔

انتخابی مہم کے آخری دنوں میں وزیر اعظم نریندر مودی نے کٹر ہندوتوا کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بجرنگ بلی اور بجرنگ دل کو ایک کرنے کی جو کوشش کی، وہ بھی اس آئینے کے سامنے ان کی پارٹی اور ان کی اپنی جلاوطنی جیسی  ہی تھی۔

ممکنہ طور پر وزیر اعظم کو توقع تھی کہ کانگریس اپنی پرانی عادت کے مطابق، اس فیصلہ کن موڑ پر بجرنگ دل پر پابندی لگانے کے اپنے وعدے پرتھوڑی کمزور ہوگی، پھر دفاعی انداز میں چال چلے گی اور اعتماد کھو دے گی۔ لیکن اس بار اس نے انہیں ناامید کرتے ہوئےاپنے عزم کا مظاہرہ کیا اور ان کی  کلائی مروڑ کر انتخاب کو اپنے نام کرلیا۔

وزیر اعظم نے مبینہ طور پر انہیں گالی دینے  کا معاملہ اٹھایا اور ان کی گنتی کی بنیاد پر ووٹروں پر جذباتی تشدد کی  راہ چلےتو بھی اس نے  پیچھا نہیں کھینچا۔ یہ کہہ کر نہلے پر دہلا جڑ دیا کہ کیسے وزیراعظم ہیں، ووٹروں کے دکھ درد سننے کے بجائے ان کے سامنے اپنا  ہی دکھ روتے رہتے ہیں۔

کانگریس صدر ملیکارجن کھڑگے نے توبعد میں انہیں اس کو لے کر بھی بھرپور طریقے سے گھیرا کہ وہ گجرات میں خود کو وہاں کا بیٹا بتا کر ووٹ مانگتے ہیں  پر انہی کی طرز پر انہوں نے خود کو کرناٹک کا بیٹا بتا کر ووٹ مانگے۔

کھڑگے کے بیٹے کے خلاف انتخاب لڑنے والے بی جے پی امیدوارکے ذریعےان  کے خاندان اور ان کے خاتمے کی بات کہنے کا کا آڈیو لیک ہواتو بھی بی جے پی سے جواب دیتے نہیں بنا۔

یہ بہت ممکن ہے کہ بعض حضرات ان نتائج کو ریاست میں سیاسی بدعنوانی اور ہارس ٹریڈنگ کے ذریعے اقتدار میں آنے والی بی جے پی حکومت کے خلاف اقتدار مخالف  یا موجودہ حکمرانوں کو واپسی نہ کرنے دینے کی ووٹروں کی دہائیوں پرانی روایت کانتیجہ بھر قرار دے کر خوش ہونا چاہیں،لیکن وزیر اعظم نے جس طرح سے اس الیکشن کو اپنی شخصیت اورعزت سے جوڑا اور پوری مہم میں اپنے عہدے کے وقار  تک سے سمجھوتہ کیا اور ووٹروں نے جس طرح ان کی باتوں کو نظر انداز کیا، اس سے یہ پیغام واضح ہے کہ بی جے پی کے ‘مودی نام کیولم’والے سنہرے ہیں دن  بیت  گئے ہیں۔

اب ووٹر مودی کے نام پران کی اور ان کی پارٹی کی سرکاروں کی من مانیوں اور مہنگائی اور بدعنوانی وغیرہ کو برداشت کرتے ہوئےان  کے ساتھ رہنے کو تیار نہیں ہیں، کٹر ہندوتوا کے جھانسےمیں آنے کوبھی نہیں۔

اس لیے اب بی جے پی کو اس سوال کا سامنا کرنا ہی  پڑے گا کہ اگر اب مودی کا نام اس کی جیت کی گارنٹی  نہیں ہے اوران کا وزیر اعظم کے عہدے کے وقار  تک کو داؤ پر لگا کرکٹر ہندوتوا پر اترنا  بھی بے لذت ثابت ہو رہا ہے  تو ااس کے پاس اور کون سا سرمایہ ہے جو اسے الیکشن  میں جیت دلوائے گا؟

خاص طور پر جب اس کا پرانا کیڈر پر مبنی ڈھانچہ  بدل چکا ہے، میگا اسٹار معجزہ پر انحصار کی بیماری لاعلاج ہو گئی ہے اور غریب نواز امیج انڈسٹری نواز حامی میں بدل گئی ہے۔

دوسری طرف سے دیکھیں تو ووٹروں نے صرف بی جے پی کو شکست نہیں دی ہے۔ وزیر اعظم کے بجرنگ دل اور بجرنگ بلی کو ایک کرکے رکھ دینے اوربھڑکانے والے تباہ کن اور جارحانہ پروپیگنڈے  کی طرف سے آنکھیں بند رکھنے اور ان کے خلاف علامتی کارروائی  تک کرنے سےپرہیز کرنے والے الیکشن کمیشن کو بھی شکست دی ہے۔

اس میڈیا کو بھی، جو الیکشن شیڈول کے اعلان سے پہلے ہی ریاست کو حجاب، اذان اور ‘لو جہاد’ جیسے معاملوں پرتقسیم کرنے اور بنیادی مسائل سے توجہ ہٹانے والےچالوں میں الجھائے ہوئے تھا۔

اس شکست نے نہ صرف بی جے پی کو جنوبی ہندوستان کے داخلہ دروازےپر ہی روک دیا ہے بلکہ 2024 کے لوک سبھا انتخابات میں شمالی ہندوستان (جہاں بی جے پی 2019 میں چوٹی پر تھی اور اب تنزلی کا خطرہ محسوس کررہی ہے) میں ممکنہ نقصان  کی  جنوبی ہندوستان میں بھرپائی کے منصوبوں پر بھی گرہن لگا دیا ہے۔

ہاں، اگر یہ راہل گاندھی کی ‘بھارت جوڑو’ یاترا کا(جو ریاست میں 30 ستمبر 2022 سے 15 اکتوبر 2022 تک زبردست حمایت کے درمیان تھی) نتیجہ ہے، تو بی جے پی کو اور زیادہ پریشان ہونے کی ضرورت ہے۔ کیونکہ پھر اس کا مطلب ہے کہ راہل یاترا میں نفرت کے بازار میں محبت کی جو دکان کھولنے کی بات کر رہے تھے، اسے نہ صرف گراہک ملنےلگے ہیں، بلکہ وہ انہیں منافع بھی دلانے لگی ہے۔

ہاں، کانگریس نے بی جے پی کے پے–سی ایم اور 40 فیصدکلچر یعنی اس کی بدعنوانی کو شکست دی ہے۔ راہل کی طرف سے مودی اور اڈانی کے تعلقات پر اٹھائے گئے سوالوں کے جواب نہ دے کر،اور کرائی پی ایم  تک پہنچ کر اور بڑے ہو جانے کی وجہ سےیہ توماننا ہی پڑے گا کہ بدعنوانی کا جو معاملہ اب تک بی جے پی کو انتخابات میں جیت سے ہمکنار کرتا آ رہا تھا، اب اس کے گلے کی پھانس بننے لگا ہے!

بلاشبہ یہ اس کے لیے خطرے کی گھنٹی سے کم نہیں ہے اور اس سلسلے میں وہ اس دلیل کی آڑبھی نہیں لے  سکتی کہ لوک سبھا اور ودھان سبھا کے انتخابات کے ایشوز الگ  ہوتے ہیں اور ان پر رائے دہندگان  الگ انداز سےردعمل دیتے ہیں۔

ہاں، ان نتائج کو راہل کے سچ بولنے کی قیمت ادا کرنے سے بھی جوڑا جا سکتا ہے (یعنی اڈانی  کا سوال اٹھاکر لوک سبھا کی رکنیت اور بنگلہ جانے سے)۔

اس کا اثر کانگریس کے اندرموجود غیرمطمئن لوگوں  اور اپوزیشن اتحاد کی کوششوں پر بھی پڑے گا۔ اپوزیشن کی جوجماعتیں اب تک کانگریس کو پوری طرح سے کمزور مان کر ممکنہ اپوزیشن اتحاد میں اس کے فیصلہ کن کردار کے آڑے آ رہی تھیں،یہاں تک کہہ رہی تھیں کہ اسے اپنے آپ کو پیچھے رکھنا چاہیے اور علاقائی جماعتوں کو آگے آنے کا موقع دینا چاہیے، اب ایک بار پھر وہ اپنےرویہ سوچنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

وہیں، کانگریس نئی دھمک کے ساتھ سودے بازی کرکے ان پارٹیوں کو یہ باور کرائے گی کہ اسے نظرانداز کرکے یا اس کی چھتری کے بغیر کوئی بھی مودی اور بی جے پی کا مؤثر متبادل نہیں بن سکتا۔

لیکن ایسا کرتے ہوئے اسے یہ یاد رکھنا ہوگا کہ ، ستاروں سے آگے جہاں اور بھی  ہیں، ابھی عشق  کے امتحاں اور بھی ہیں۔

(کرشن پرتاپ سنگھ سینئر صحافی ہیں)