خبریں

دی وائر کی سنگیتا بروآ پیشاروتی کو ملا پراگ کمار داس جرنلزم ایوارڈ

آسام کےنامورصحافی پراگ کمار داس کی یاد میں یہ ایوارڈ ہر سال آسام کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو دیا جاتا ہے۔ دی وائر کی نیشنل افیئرز ایڈیٹر سنگیتا بروآ پیساروتی اس ایوارڈ  سے سرفراز ہونے والی پہلی خاتون ہیں۔

سنگیتا بروآ پیشاروتی گوہاٹی میں ایوارڈ لیتے ہوئے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سنگیتا بروآ پیشاروتی گوہاٹی میں ایوارڈ لیتے ہوئے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

نئی دہلی: دی وائر کی نیشنل افیئرزایڈیٹر سنگیتا بروآ پیساروتی کو اس سال پراگ کمار داس جرنلزم ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔آسام کے بارے میں رپورٹنگ کرنے والے صحافیوں کو ہر سال دیا جانے والا یہ باوقار ایوارڈ پہلی بار کسی خاتون صحافی کو ملا ہے۔

یہ ایوارڈ پراگ کمار داس ستیرتھ منچ کی طرف سے داس کی یاد میں دیا جاتا ہے، جو آسامی روزناموں ‘پرتی دن’ اور ‘بدھ بار’ کے مدیر تھے اور آسامی صحافت کا ایک اہم ستون مانے جاتے تھے۔ بدھ کو گوہاٹی میں منعقدہ ایک تقریب میں سنگیتا کو یہ ایوارڈ معروف آسامی رائٹر اروپا پتنگیا کلیتا نے دیا۔ ایوارڈ کے ساتھ پچیس ہزار روپے کا نقد انعام بھی دیا گیا۔

یہ ایوارڈ ہر سال 17 مئی کو پراگ کمار داس کی برسی پر دیا جاتا ہے۔ آج ہی کے دن 1996 میں انہیں گوہاٹی میں نامعلوم بندوق برداروں نے سرعام قتل کر دیا تھا۔ آسامی سماج  کے بہت سے لوگوں کا ماننا ہے کہ ان  کا قتل ان کی جرأت مندانہ صحافت کی وجہ سے ہوا تھا۔

ایوارڈ تقریب میں اروپا پتنگیا کلیتا نے داس کی صحافت کو یاد کیا۔ انہوں نے کہا کہ داس نے 1990 کے ہنگامہ خیز دور میں آسامی صحافت میں ایک نئے باب کا اضافہ کیا تھا۔ انہوں نے آج کے دور کے بارے میں بات کی اور ایک آزاد میڈیا ادارے میں کام کرنے والے صحافی کو یہ ایوارڈ دینے کے منتظمین کے فیصلے کی  تعریف کی۔

اس تقریب میں کلیدی خطبہ گوہاٹی ہائی کورٹ کے معروف وکیل شانتنو بورٹھاکر نے دیا، جنہوں نے عسکریت پسندی کے سالوں میں آسام میں جرأت مندانہ صحافت میں داس کی غیرمعمولی خدمات کے بارے میں بات کی۔بورٹھاکر نے کہا کہ یہ داس ہی تھے، جنہوں نے اس وقت ریاست میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کو دستاویزی شکل دنیا شروع کیا تھا اور این ایس اے کے تحت جیل کی سزا پانے کے باوجود اقتدار کے خلاف  سچ بولتے رہے۔

بورٹھاکر نے کہا، حالاں کہ کچھ لوگوں کا خیال تھا کہ داس کی صحافت الفا (یونائیٹڈ لبریشن فرنٹ آف اسوم) کی حامی تھی، لیکن یہ خیال رہے کہ انھوں نے اپنے اداریوں میں بھی الفا کو  تنقید کا نشانہ بنایا تھا … وہ سچی صحافت کے لیے کھڑے تھے، وہ سب سے سوال پوچھنے کی ہمت رکھتے تھے؛انہوں نے آسامی سماج کو ایک وژن دیا کہ انہیں کیا کرنا چاہیے۔ ان کی جرأت مندانہ تحریروں نے آسامی صحافت میں ایک نئے دور کا آغاز کیا۔

انہوں نے مزید کہا، حالاں کہ، آج ہندوستان میں آزاد صحافت کی موجودہ حالت کو دیکھتے ہوئےمجھے شک ہے کہ کیا داس آسام میں ‘بدھ بار’ جیسا اخبار نکال پاتے اور حکام سے وہی سوال کر پاتے، جو  انہوں نے اس وقت کیے تھے۔ورلڈ پریس انڈیکس میں ہندوستان کا رینک یوں ہی گر کر نئی نچلی سطح پر نہیں پہنچاہے!

آسام سے راجیہ سبھا کے رکن پارلیامنٹ اور سابق ایڈیٹر اجیت بھوئیاں نے بھی آزاد صحافت کی حمایت کی ضرورت پر بات کی۔ بھوئیاں ‘بدھ بار’ میں پراگ داس کے معاون  رہ چکے ہیں اور اپنی صحافت کی وجہ سے 1990کی دہائی میں این ایس اےکے تحت جیل  بھی گئے تھے۔

معروف کالم نگار اور مصنف دیب برت داس نے بھی ملک بھر میں صحافت کی حالت  زارکے بارے میں بات کی اور حکومت سے سوال کرنے میں داس کی ہمت کو یاد کیا۔

انھوں نے کہا، ‘پراگ داس کا قتل میرے لیے صدمہ تھا۔ کئی دنوں تک  میں کچھ نہیں لکھ سکا… ایک وقت تھا جب ‘بدھ بار’میں میرے کالم سےمیرا ایک لفظ بھی کاٹا نہیں جاتا تھا اور آج ہمیں اپنی تحریر میں سمجھوتہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔ مجھے حال ہی میں دو صحافیوں سے میرے  سیاسی کالم سے دو طاقتور رہنماؤں کے نام ہٹانے کے لیےفون آئے۔ میں نے سمجھوتہ کرنے کے بجائے سیاسی تبصرہ کرنا مناسب سمجھا۔ آج آسام میں صحافت اسی صورتحال سے دوچار ہے۔