فکر و نظر

’دی کیرالہ اسٹوری‘ سے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈہ کے لیے دوسرے فلمسازوں کو تحریک ملے گی

‘دی کشمیر فائلز’کے بعد ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کا بنایا جانا ایک سلسلے کی شروعات ہے۔ کم پیسوں میں، ناقص اداکاری اور ہدایت کاری کے باوجودصرف مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کی  مدد سے اچھی کمائی کی جاسکتی ہے، کیونکہ ایسی فلموں کی تشہیر میں اب اسٹیٹ مشینری لگائی جاتی ہے اور بی جے پی کی پوری مشینری اس کے لیے کام کرتی ہے۔

فلم دی کیرالہ اسٹوری  کا پوسٹر اور فلم کے پروڈیوسرز اور دیگر اداکار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان سے ملاقات کر تے ہوئے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

فلم دی کیرالہ اسٹوری  کا پوسٹر اور فلم کے پروڈیوسرز اور دیگر اداکار اتر پردیش کے وزیر اعلیٰ یوگی آدتیہ ناتھ اور مدھیہ پردیش کے وزیر اعلیٰ شیوراج سنگھ چوہان سے ملاقات کر تے ہوئے۔ (فوٹو بہ شکریہ: فیس بک)

‘ہم اظہار رائے کی آزادی کی حفاظت کریں گے، لیکن آپ کسی کمیونٹی کو بدنام نہیں کر سکتے۔’ یہ کہتے ہوئے سپریم کورٹ نے فلم ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کو ہر جگہ دکھلانے کافیصلہ سنایا۔

سپریم کورٹ نے مغربی بنگال حکومت سے کہا کہ وہ  ‘دی کیرالہ اسٹوری’ سے پابندی ہٹالے۔ تمل ناڈو سرکار کو اس نےحکم دیا ہے کہ جو یہ فلم دکھلانا چا ہے ،اسے خاطرخواہ سیکورٹی فراہم کی جائے۔

ان کی سادہ سی دلیل ہے کہ جب سینٹرل بورڈ آف فلم سرٹیفیکیشن (سی بی ایف سی) نے اجازت دے دی ہے تو پھر پابندی لگانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس نے اسے ایک خیالی کہانی/فکشن مانتے ہوئے کسی بھی دوسری فلم کی طرح ایک فلم تصور کیا ہے۔

لیکن یہ کوئی معمولی فلم نہیں ہے۔ اس فلم کو دیکھنا قومی فریضہ ہے، اس لیے بھارتیہ جنتا پارٹی کی اتر پردیش، مدھیہ پردیش، ہریانہ، اتراکھنڈ کی سرکاروں  نے اسے ٹیکس کی معافی  دی ہے۔

خود وزیر اعظم نے حال ہی میں اس فلم کی تشہیر کی ہے۔ وزرائے اعلیٰ نے اپنی تمام ترمصروفیات کے درمیان فلم دیکھنے کے لیے وقت نکالا ہے اور عوام سے اسے دیکھنے کی اپیل کی ہے۔ ظاہر ہے یہ سعادت کسی اور فلم کو حاصل نہیں ہوتی۔

معلوم نہیں سپریم کورٹ کو اس بات کا علم تھا یا نہیں کہ مغربی بنگال کی بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما دشرتھ ترکی نے بنگال کے علی پور دوار کے چائے باغان کی 140 لڑکیوں اور خواتین کو قریبی ریاست آسام کے نیو بونگائیگاؤں لے جا کر ‘دی کیرالہ اسٹوری’فلم دکھلائی۔ ان کےآنے جانے کے اخراجات کے ساتھ ساتھ ٹکٹ اور کھانے پینے  کا اتنظام بھی اسی  بی جے پی لیڈر نےکیا۔

مغربی بنگال میں اس فلم پر پابندی ہے۔ ترکی نے اپنی اہلیہ کے ساتھ ان تمام خواتین کو اپنے گھر سے کوئی  120 کلومیٹر دور ایک فلم دکھلانے کی اتنی زحمت اٹھائی۔ آخرکیوں؟ ان کے مطابق یہ لڑکیاں اور خواتین روزی روٹی کمانے کے لیے گھروں سے دور جاتی ہیں۔ انہیں اپنی حفاظت کے لیے چوکنا رہنا چاہیے۔ یہ فلم انہیں ان خطرات کے بارے میں بتاتی ہے جن کا سامنا انہیں باہر جانے پر کرنا پڑے گا۔ لہٰذا عوامی نمائندہ ہونے کے ناطے ان کا فرض ہے کہ وہ انہیں متنبہ کریں۔


یہ بھی پڑھیں:’دی کیرالہ اسٹوری‘ پر پابندی لگانا مسئلے کا حل نہیں ہے


یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ ان خواتین میں ایک بھی مسلمان نہیں تھی۔ تو ہندو یا (ہمیں معلوم نہیں) آدی واسی  خواتین کو کس خطرے کو پہچاننے کو کہا گیا،جس سے انہیں  ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے؟ ترکی صرف ان کو ہی لے کر فلم دکھانے کیوں گئے؟ کیا انہیں اپنے علاقے کی باقی کام کرنے والی خواتین کی حفاظت کی فکر نہیں ہے؟

ہم ان سوالوں کا جواب جانتے ہیں۔ جیسے اس سوال کا جواب کہ کیوں  اتر پردیش اور مدھیہ پردیش کے وزرائے اعلیٰ نے ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کو ٹیکس کی معافی  دی؟ یا ان سےبھی  پہلے  کیوں  بی جے پی لیڈر (جو ہندوستان کے وزیر اعظم بھی ہیں) نریندر مودی نے کرناٹک انتخابی مہم کے دوران ‘دی کیرالہ اسٹوری’ کی تشہیر کی؟

مودی نے کہا کہ یہ فلم دہشت گردی کی خطرناک سازش کو بے نقاب کرتی ہے۔ انہوں نے کانگریس پارٹی پر الزام لگایا کہ وہ اس فلم کے خلاف ہے، جس کا مطلب ہے کہ وہ دہشت گردی کے ساتھ ہے۔

کہا جا رہا ہے کہ یہ فلم دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کی سازش کی کہانی بیان کرتی ہے۔ خیالی انداز میں، لیکن سازش حقیقی  ہے، اور وہ  ہندو اور عیسائی خواتین کو مسلمان بنانے اور دہشت گرد تنظیم اسلامک اسٹیٹ کے استعمال کے لیے ہندوستان سے باہر بھیجنے کی سازش ہے۔

فلم میں بتایا گیا ہے کہ کس طرح یہ خواتین محبت کے جال میں پھنس جاتی ہیں اور پھر ان کا مذہب تبدیل کر دیا جاتا ہے۔ بی جے پی اور راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کی زبان میں اسے ‘لو جہاد’ کہا جاتا ہے۔

یہ دعویٰ کیا گیا کہ کیرالہ اس سازش کا مرکز ہے اور وہاں سے اس سازش کے تحت 32 ہزار خواتین کو مسلمان بناکراسلامک اسٹیٹ بھیجا گیا ہے۔ یہ فلم اس بڑی اور خوفناک سازش اور سانحے کی کہانی بیان کرتی ہے۔

غور کیجیے کہ 32000 ایک بہت بڑی اور ڈرامائی تعداد ہے۔ اتنی عورتوں  کامنظم سازش کے تحت  مذہب تبدیل کرنا واقعی تشویش کا باعث ہونا چاہیے، لیکن جیسے ہی آلٹ نیوز نے نشاندہی کی کہ یہ سراسر جھوٹ ہے، فلم کے پروڈیوسر اور ڈائریکٹر نے کہانی بدل دی۔

انہوں نے کہا کہ تعداد صرف 3 ہے، 32000 نہیں۔ پہلے تو تعداد کی بنیاد پر سازش کی شدت کو بڑھایا گیا لیکن جھوٹ پکڑتے ہی دلیل بدل گئی۔ کہا گیا کہ نمبر اہم نہیں، اگر 1کے ساتھ بھی  یہ ہواتو بھی یہ  اتنا ہی خوفناک ہے۔ کیا 3 اور 32000 کے درمیان فرق واقعی اہم نہیں ہے؟


یہ بھی پڑھیں: دہلی کے نوجوانوں نے کہا – فلم ’دی کیرالہ اسٹوری‘ ملک کو توڑنے کا کام کر رہی ہے


فلمسازوں کو پہلے جھوٹ بولنے میں کوئی اخلاقی عار نہیں تھی۔ پکڑے جانے پر کوئی شرمندگی بھی نہیں۔ انہوں نے عدالت کو یقین دلایا کہ وہ فلم کے شروع میں لکھ دیں  گے کہ یہ فکشن  ہے۔ عدالت نے ان سے یہ پوچھنا ضروری نہیں سمجھا کہ اس نے اتنا بڑا اور خوفناک جھوٹ کیوں مشتہر کیا۔

خیر! اس بات کی بھی کوئی اہمیت نہیں، کیونکہ فلم دیکھنے والوں نے بتایا کہ فلم میں یہ تعداد 50 ہزار بتائی جا رہی ہے۔ اس پر یہ دلیل دی جا سکتی ہے کہ یہ خیالی نمبر بھی ڈرامائی اثر پیدا کرنے کے لیے پیش کی گئی ہے، اس کی گرفت کرنا حماقت ہے۔

ججوں نے بحث کے دوران ہنسی مذاق بھی کیا جیسا کہ سنگین سے سنگین  موقع پر بھی یہ بڑے لوگوں کی عادت  ہوتی ہے ۔ مثلاً  یہ کہ بھوت پریت بھی تو نہیں  ہوتے ،تو کیا ان پر کہانی یا فلم نہ بنے!

ان کے پاس مذاق کرنے کی یہ سہولت ہے، مسلمانوں کو نہیں۔ کیونکہ صرف وہی جانتے ہیں کہ یہ فلم ہندوؤں کے لیے بنائی گئی ہے، ان کے اندرمسلمانوں کے خلاف تعصب کو مزید گہرا کرنے کے لیے۔ اس فلم کو دیکھنے کے بعد عام مسلمانوں کو بھی  شک کی نگاہ سے دیکھنے والوں کی تعداد  بڑھ جائے گی۔ اس سے وہ اور غیرمحفوظ ہو جائیں گے۔

اب ہر مسلمان مشتبہ ہے، کیونکہ آپ ایک اچھے اور سازشی مسلمان میں فرق  ہی کیسے کر پائیں گے۔ کون ان کو اپنے پڑوس میں رکھنا چاہے گا یا ان کو ملازمت دینا چاہے گا؟ ان سے دوستی کون کرے گا؟

لیکن یہ سوال صرف مسلمان ہی کر سکتے ہیں۔ فلم ان کے لیے نہیں، بلکہ ہندوؤں کے لیے بنائی گئی ہے۔ فلم کا موضوع وہ ہیں۔ ہوشیاری سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ایک دہشت گردتنظیم اور اس کے سازشی طریقوں کے بارے میں ہے، مسلمانوں کے بارے میں نہیں، لیکن اس فلم کو دیکھنے کے بعد تقریباً ہر مبصر نے کہا ہے کہ یہ فلم مسلمانوں کے خلاف نفرت کو ہوا دیتی ہے اور اس لحاظ سے بہت خطرناک ہے۔

اس سے سماجی ہم آہنگی میں خلل پڑتا ہے اور ہندوؤں کے درمیان مسلمانوں کے خلاف نفرت بڑھ جاتی ہے۔ آج کے ماحول میں، جہاں پہلے ہی یہ شکوک اور نفرت کافی ہیں، کیا ایسی کسی حرکت کو برداشت کیا جانا چاہیے؟

عدالت نے اس بات پر غور نہیں کیا کہ ایک مخصوص سیاسی جماعت اس فلم کی تشہیر کیوں کر رہی ہے۔ یہ فلم ایک سیاسی تناظر میں بنائی گئی ہے۔ یہ اکثریتی نفرت کی سیاست ہے جس کے ہاتھ میں ریاست کے تمام وسائل ہیں۔ اس نے مسلمانوں کے خدشات کو قابل غور نہیں سمجھا اور اظہار رائے کی آزادی کے اصول کی آڑ میں میکانکی انداز میں نفرت انگیز پروپیگنڈے کو جواز فراہم کیا۔

یہ ٹھیک ہے، جیسا کہ بہت سے لوگ کہہ رہے ہیں کہ فلم پر پابندی لگانے سے کام نہیں چلے گا، لیکن یہ کہنا کہ جن کوفلم نہیں دیکھنا وہ نہ دیکھیں، یا یہ کہ اگر فلم خراب ہوگی تو پٹ جائے گی، ایک طرح  کی اکثریتی لاپرواہی یا بے حسی کا نتیجہ ہے۔


یہ بھی پڑھیں:کیسے دی کیرالہ اسٹوری کا تعلق فلم کے ذریعے سچ دکھانا نہیں بلکہ نفرت کا کاروبار چلانے سے ہے


جیسا کہ ہم نے کہاکہ  سوال اس انتخاب کا نہیں ہے۔ اگر میں مسلمان ہوں تو یہ بات مجھے غیر محفوظ بناتی ہے کہ مجھے ایک بڑی آبادی میں بدنام کیا جا رہا ہے۔ اس کے بعد میرے خلاف امتیاز،تشدد مزید بڑھے گا اور اس کی قبولیت بھی بڑھے گی۔ اس عدم تحفظ کو سمجھنا اتنا مشکل کیوں ہے؟ یہ عدم تحفظ کے احساس کے ساتھ ہی  ذلت آمیز بھی ہے۔

یہ فلم مسلمانوں کے ساتھ ساتھ کیرالہ کے تئیں بھی خدشات پیدا کرتی ہے۔ بی جے پی پہلے ہی کیرالہ کو لے کر شمالی ہندوستان کے لوگوں میں نفرت پھیلا رہی ہے۔ حال ہی میں ہندوستان کے وزیر داخلہ نے کیرالہ سے کرناٹک کے لوگوں کو خبردار کیا۔ انہوں نے کہا کہ صرف بی جے پی ہی انہیں کیرالہ کے خطرے سے بچا سکتی ہے۔

ایک ایسے ملک میں جہاں کسی مسلمان مرد کے ہندو عورت سے تعلقات کو نجی معاملہ نہیں سمجھا جاتا، اسے ایک منظم سازش کا حصہ سمجھا جاتا ہے، جس کا مقصد ہندوستان کی مسلم آبادی کو بڑھانا ہے، وہاں یہ فلم اس سازش کو عالمی بنا دیتی ہے۔

سازش اب صرف ہندوستان میں مسلمانوں کی آبادی بڑھانے کی نہیں، بلکہ ہندو خواتین کو بین الاقوامی اسلامی دہشت گردوں کا غلام بنانے کے لیے ان کے اسمگلنگ کی ہے۔ کیا  ہندو شائقین فلم کو دیکھ کر اسے محض ایک فرضی کہانی سمجھ کر سکون کی نیند سو جائیں گے؟

یہ کہنا بھی معصومیت ہے کہ اس فلم پر پابندی لگانے کے بجائے ہمیں ‘افواہ’ جیسی فلموں کی تشہیر کرنی چاہیے یا کیرالہ سے متعلق متبادل فلمیں بھی دکھائی جائیں۔ نفرت کے پروپیگنڈے کو کھلی چھوٹ دینے  کے خطرات صرف وہی جانتے ہیں جو اس کےنشانے پرہوں گے۔ محبت کی تبلیغ ان کے کام نہیں آتی۔ نفرت انگیز پروپیگنڈہ ان کے خلاف تشدد کے پیمانے کو بڑھاتا اور گہرا کرتا ہے۔

کچھ لوگوں  نے نازی جرمنی میں یہودیوں کے قتل عام سے پہلے بنائی گئی ایسی فلموں کی یاد دلائی ہے، جن میں یہودیوں کو اسی طرح دکھایا گیا تھا جس طرح ‘کیرالہ اسٹوری ‘ میں مسلمانوں کو دکھایا گیا ہے۔

یہ مسلمانوں کے خلاف تشدد کے لیے ہندوؤں  کو منظوری دے رہا ہے۔ یہ فلم بنانے والے تو جانتے  ہی ہیں۔ وہ فلم بناکر مطمئن نہیں ہیں۔ انہوں نے اعلان کیا ہے کہ اس فلم کی کمائی سے وہ ان خواتین کی مدد کریں گے جو تبدیلی مذہب کا شکار ہوئی  ہیں۔ یہ وہی کام ہے جو بابو بجرنگی گجرات میں کرنے کا دعویٰ کیا کرتا تھا۔

‘دی کشمیر فائلز’کے بعد ‘دی کیرالہ سٹوری’ کا بنایا جانا اب ایک سلسلے کی شروعات ہے۔ کم پیسوں میں، ناقص اداکاری اور ہدایت کاری کے باوجود، مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈے کی مدد سے  اچھی کمائی کی جا سکتی ہے، کیونکہ ایسی فلموں کی تشہیر میں اب اسٹیٹ مشینری لگائی جاتی ہے اور بی جے پی کی پوری مشینری اس کے لیے کام کرتی ہے۔ یہ  کسی اور فلم کے لیےکوئی  نہیں کر سکتا۔

کہا جا رہا ہے کہ ‘دی کیرالہ اسٹوری’ نے کافی کمائی کی ہے۔ اس سے فلمی زبان میں مسلمانوں کے خلاف نفرت کا پرچار کرنے کے لیے اور فلمسازوں کوتحریک ملے گی۔ اس دوران ہمیں اطمینان ہونا چاہیے کہ موسم گرما کی اس چھٹی میں ہمارے جج اس فلم کو دیکھ کر اپنی رائے قائم کریں گے۔ اس دوران مسلمانوں کے خلاف تشدد کے واقعات سے ، اس فلم کابراہ راست کوئی تعلق نہیں ہوگا۔

(اپوروانند دہلی یونیورسٹی میں پڑھاتے ہیں۔)