الیکشن نامہ

ترکیہ صدارتی انتخابات: کون جیتا، کون ہارا 

رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راؤنڈ میں چلے جائیں گے۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی، کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں  بے تحاشہ اضافے سے عوام خاصے نالاں تھے۔اردو ان اور ان  کے قریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کے لیے اب نہایت ہی مشکل امر ہے۔

طیب اردوان اورکمال قلیچدار اوغلو،فوٹو: ٹوئٹر اکاؤنٹس

طیب اردوان اورکمال قلیچدار اوغلو،فوٹو: ٹوئٹر اکاؤنٹس

گزشتہ 14مئی کو ترکیہ میں ہوئے  صدارتی انتخابات میں کسی بھی امیدوار کو مطلوبہ 50فیصد جمع ایک ووٹ حاصل کرنے میں کامیابی حاصل نہیں ہوئی، جس کی وجہ سے انتخابات کا دوسرا راؤنڈ 28مئی کو پہلے اور دوسرے نمبر پر آنے والے ا میدواروں یعنی موجودہ صدر رجب طیب اردوان اور اپوزیشن کے متحدہ امیدوار کمال کلچ داراولو کے درمیان ہوگا۔

نوے کی دہائی کی ابتدا میں صحافت میں قد م رکھنے کے بعد  2019  تک ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا پارلیامانی یا صوبائی انتخاب ہوگا، جو میں نے کور نہ کیا ہو۔ مگر ترکیہ کا انتخاب کا تجربہ واقعی  منفرد تھا۔

 دارالحکومت انقرہ میں تو  90 فیصد سے زیادہ پولنگ ہوئی، مگر کیا مجال کہ کہیں ہنگامہ یا شور شرابہ ہو۔ کئی پولنگ اسٹیشنوں کا دور ہ کرکے لگتا تھا کہ جیسے لوگ پکنک منانے آئے ہوں۔ لوگ بچوں حتی ٰ کہ پالتو جانورں کو بھی لےکر ووٹ ڈالنے آپہنچے تھے۔ ایک میلہ کا سا سماں تھا۔

جنوبی ایشیاء میں تو پولنگ اسٹیشنوں پر ہر لمحہ لڑائی جھگڑے کا خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ ترکیہ کے نشریاتی ادارے ٹی آرٹی کی اردو سروس کے سربراہ ڈاکٹر فرقان حمید، جو ترک شہری ہیں، اور اس ملک میں پچھلی چار دہائیوں سے آباد ہیں، کی معیت میں ووٹ ڈالنے کا منظر دیکھنے گیا، تو معلوم ہوا کہ پولنگ روم تک جانے میں کوئی روک ٹوک نہیں ہے۔ کہیں نام کے لیے بھی کوئی پولیس یا سیکورٹی کا اہلکار تعینات نہیں تھا۔ لوگ خود ہی اپنے پولنگ بوتھ کے کمرے کے باہر اطمینان سے قطار لگائے کھڑے باری کا انتظار کر رہے تھے۔

 جب تک والدین ووٹنگ کے فریضہ سے فارغ ہوں،بچوں کا خیال رکھنے کے لیے ایک کمرے میں کھلونے اور خواتین اہلکار خیال رکھنے کے لیے موجود تھیں۔ حا ل ہی میں فرقان صاحب نے ٹی آر اردو کے نام سے اردو زبان میں ایک یوٹیوب چینل میں شروع کیا ہوا ہے۔ پولنگ بوتھ سے اندر جانے سے لےکر ووٹ ڈالنے کے عمل تک کی انہوں نے ویڈیو ریکارڈنگ کی۔مجال ہے کسی نے شکایت کی۔

ووٹوں کی گنتی بھی پولنگ بند ہونے کے فوراً ہی امیدواروں کے ایجنٹوں کی موجودگی میں پولنگ بوتھوں پر ہی ہوتی ہے۔ بیلٹ بکس کو کہیں بھی ٹرانسپورٹ نہیں کیا جاتا ہے۔ پرزائڈنگ آفیسر گنتی مکمل کرنے کے بعد نتیجہ الیکشن کونسل کو بھیجتا ہے، ایجنٹ نتیجہ اپنی پارٹیوں کے چیف الیکشن ایجنٹ کو بھیجتے ہیں۔یعنی پارٹیوں کے صدر دفاتر اور الیکشن کونسل میں ایک ہی وقت میں گنتی کا اندراج ہوتا رہتا ہے۔

الیکشن کونسل میں بھی حتمی نتائج پر پارٹیوں کے چیف ایجنٹ پولنگ بوتھوں سے ا ن کے اپنے ایجنٹوں کے ذریعے ارسال کردہ اعدادشمار کو سرکاری گنتی سے ملانے کے بعد دستخط کرتے ہیں۔

پہلے راؤنڈ کے انتخابات کی خاص  بات یہ تھی کہ تمام اندازوں اور رائے عامہ کے جائزوں کو پس پشت ڈالتے ہوئے، صدر اردوان نے 49.5فیصد ووٹ حاصل کیے، جبکہ ان کے حریف کمال کلیچ داراولو کو  44.89 فیصد ووٹ حاصل  ہوئے۔ تیسرے امیدوار سینان اووان کو 5.17فیصد ووٹ حاصل ہوئے۔ چوتھے امیدوار محرم انجے نے پولنگ کے دن سے قبل ہی دستبرداری کا اعلان کیا تھا۔

گو کہ رائے عامہ اور تجزیہ کاروں کی یہ پیشن گوئی سچ ثابت ہوئی کہ انتخابات دوسرے راؤنڈ میں چلے جائیں گے۔ مگر اکثر کا خیال تھا کہ کلیچ داراولو کو سبقت حاصل ہوگی، کیونکہ گرتی ہوئی معیشت اور اور اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں  بے تحاشہ اضافے سے عوام خاصے نالاں تھے۔ نوجوان ووٹر اردوان کے بیس سالہ دور اقتدار سے اووب چکے تھے۔

تجزیہ کاروں کا خیال تھا کہ زلزلہ زدہ علاقوں میں بھی متاثرین جوق در جوق اپوزیشن کی حمایت کریں گے۔ جیسا کہ 1999کے ازمت کے زلزلہ نے اس وقت کے اپوزیشن امیدوار اردوان کے لیے 2002کے انتخابات میں اقتدار تک پہنچنے کا راستہ ہموار کر دیا تھا۔ اوردو ان اور ان  کےقریبی حریف کے درمیان تقریباً 25 لاکھ ووٹوں کا فرق ہے۔ اس کو پاٹنا اپوزیشن امیدوار کے لیے اب نہایت ہی مشکل امر ہے۔

مغربی میڈیا اور ان کی حکومتوں کی حد سے زیادہ مداخلت اور اردوان کے خلاف ان کی زوردار مہم نے ترک ووٹروں کے ایک بڑے حصہ کو اپوزیشن کے بارے میں شکوک شبہات میں مبتلا کر دیا۔ میرے گھر کے پاس ہی جوتوں کی ایک چھوٹی دکان کا مالک، 55 سالہ طغرل اوکتائے ابتر معیشت کی وجہ سے بر سراقتدار آق پارٹی اور اردوان کے خلاف ووٹ ڈالنے کے لیے پر تول رہا تھا۔

مگر پولنگ کے دن بوتھ سے واپس آکر اس نے بتایا کہ آخری وقت اس نے اردوان کو ہی ووٹ ڈالنے کا فیصلہ کردیا۔ اس کا کہنا تھا کہ جس طرح مغربی حکومتیں اور ان کا میڈیا ہاتھ دھو کر اردوان کے پیچھے پڑا ہوا تھا، اس سے و ہ خاصا دل برداشتہ ہوگیا۔

 کئی تجزیہ کاروں کے مطابق کلیچ داراولو کو مغربی میڈیا کی حمایت خاصی بھاری پڑی۔ ترک دراصل خاصے قوم پرست واقع ہوئے ہیں۔ چونکہ پچھلے دو سو سالوں کے دوران ان کے ملک پر بحیرہ اسود کے راستے روس نے اور بحیرہ روم کے راستے مغربی ممالک نے چڑھائی کی ہے، اس لیے وہ اپنے ملک کی سلامتی، آزادی اور خود مختاری کے سلسلے میں خاصے حساس ہیں۔ چاہے سیکولرسٹ ہو یا اسلام پسند، قوم پرستی اور اپنے وطن کی سلامتی ترکوں کی گھٹی میں ہے۔ اسی لیے مصطفیٰ کمال اتا ترک کی تصویر اسلامسٹ سعادت پارٹی کے دفتر میں بھی دیوار پر آویزاں نظر آتی ہے۔

اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ عرب نسل ممالک میں تو فلسطین کے بغیر باقی سبھی ممالک آزاد ہیں، مگر ترک نسل ممالک میں آذربائیجان اور چار وسطی ایشائی ممالک کو چھوڑ کر باقی سبھی روس یا چین کے قبضے میں ہیں۔ اس عدم تحفظ نے قوم پرستی کو ہوا دی ہوئی ہے اور اور ترک عوام اپنے ملک کے اندرونی معاملات میں بیرونی مداخلت کو برداشت نہیں کرتے ہیں۔

مغربی ممالک اور اس کے میڈیا نے اس کا ادراک نہیں کیا تھا۔ اردوان نے بھی اس کا فائدہ اٹھا کر اپنے آپ کو مظلوم ثابت کرکے مغرب کے خلاف ایک ہیجان برپا کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ زلزہ سے متاثر 11 صوبوں میں صرف حتائی میں اپوزیشن کو برتری حاصل ہوئی۔ باقی سبھی علاقے اردوان کے ساتھ چلے گئے۔

اس کے علاوہ آخری وقت تک اردوان نے فلاحی اسکیموں کے اعلانات کرکے ووٹروں کی منہ بھرائی کی۔ پولنگ سے صرف چھ دن پہلے صبح سویرے دیکھا کہ باہر کچھ جشن کا سا ماحول ہے۔ لوگ فون پر کوئی مسیج پڑھ رہے تھے۔ معلوم ہوا کہ صبح سویرے سبھی شہریوں کو ایس ایم ایس آیا ہے کہ اس ماہ کی ان کی گیس کی بل جمہور باشکن یعنی صدر نے ادا کی ہے۔ بتایا گیا بحیرہ اسود کے ذخائر سے گیس کے اخراج کا جشن منانے کے لیے یہ چھوٹ دی گئی ہے۔

میں نے گیس کمپنی کی پے منٹ سائٹ پر دیکھا تو میرے فلیٹ کی مئی کی گیس کی بل واقعی صفر تھی۔ بحیرہ اسود کے ذخائر ترکیہ کی گیس کی ضروریات کا تقریباً 30 فیصد پورا کریں گے۔یہ بھی اعلان کیا گیا کہ ماہانہ 25 کیوبک میٹر سے کم گیس استعمال کرنے والے گھرانوں کو ایک سال تک کوئی بل نہیں ادا کرنا پڑے گا۔  یورپ کے دیگر حصوں کی طرح، ترکیہ  میں بھی ایندھن کے بل ر وس-یوکرین جنگ کی وجہ سے تشویش کا باعث بن گئے تھے۔

اس طرح کی اسکیموں کی وجہ سے اردوان نے ملک کے کم مراعات یافتہ علاقوں جس  میں بحیرہ اسود (کارادانز بویلگیسی)، وسطی اناطولیہ اور مشرقی اناطولیہ پر گرفت برقرار رکھی۔ تاہم،اپوزیشن کو بحیرہ روم کے اشرافیہ کے علاقوں نیز بڑے شہروں یعنی استنبول، انقرہ، اسکی شہر اور ازمیر وغیرہ میں بھاری ووٹ ملے۔

ترکوں کا کہنا ہے کہ اردوان کا ایک بڑا کارنامہ محرومیت کا شکار پسماندہ علاقوں کو اشرافیہ کے کندھے سے کندھے ملا کر کھڑا کرنے کا ہے۔ اس بار لگ رہا تھا کہ یہ علاقے ان کا ساتھ چھوڑ دیں گے۔

پارلیامنٹ کی 600نشستوں کے لیے بھی اسی دن انتخابات منعقد ہوئے، جس میں حکمران آق پارٹی کو  267 سیٹیں حاصل ہوئی یعنی 35.6فیصد ووٹ ملے اور اس کے اتحاد کو 323 نشستیں (49.4فیصد ووٹ) حاصل ہوئی۔ جبکہ ری پبلکن پیپلز پارٹی یا سی ایچ پی کی زیرقیادت چھ جماعتی اتحاد، جس نے انتخابات سے چند دن قبل 17 پارٹیوں کو اپنے جھنڈے تلے جمع کیا تھا کو کل ملا کر 268 نشستیں (35.5فیصد ووٹ)  ملی۔

ان میں ترکی کی سب سے بڑی اسلام پسند سعادت پارٹی، جو اپوزیشن کے خیمہ میں تھی کو دس نشستیں اور نیو ویلفیر پارٹی، جو حکمران اتحاد میں شامل تھی کو پانچ نشستیں ملی ہیں۔