گراؤنڈ رپورٹ

سری نگر میں جی-20 اجلاس: سخت سیکورٹی، خالی سڑکیں اور مندوبین کے سلسلے میں خاموشی

پچھلی کانفرنسوں کی نفی کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے مندوبین کے نام اور ان کے عہدوں کو خفیہ رکھا ہے۔ چین، سعودی عرب اور ترکی نے اجلاس میں  شرکت نہیں کی۔ مصر اور عمان نے بھی حصہ نہیں لیا۔

سوموارکو سری نگر کے پولو ویو بازار میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد عام شہریوں سے زیادہ تھی۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سوموارکو سری نگر کے پولو ویو بازار میں سیکورٹی اہلکاروں کی تعداد عام شہریوں سے زیادہ تھی۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

جی – 20اجلاس اس طاقتور گروپ کے پانچ ممبران کے کانفرنس  سے دوری بنائے جانے کے بعد ایک متنازعہ نوٹ کے ساتھ سری نگر میں شروع ہوا۔

اگرچہ یہ معلوم تھا کہ چین، سعودی عرب اور ترکی ورکنگ گروپ کے اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے، دی پرنٹ نے بتایا  کہ مصر اور عمان نے بھی اجلاس میں شرکت نہیں کی۔ بیجنگ نے جموں و کشمیر میں اس تقریب کی میزبانی کے خلاف احتجاج  بھی درج کیا ہے۔

جہاں چین، سعودی عرب اور ترکی جی -20 کے رکن ہیں، وہیں مصر اور عمان خصوصی طور پر مدعو ارکان  ہیں۔مصر اس سال یوم جمہوریہ پر مہمان خصوصی بھی تھا۔ عمان ہندوستان کے سب سےقریبی خلیجی اتحادیوں میں سے ایک ہے۔ انڈونیشیا نے حصہ لیا، لیکن صرف دہلی کے سفارتی مشن کی سطح پر۔

وہیں، سری نگر کے ہوائی اڈے پر سوموار کی دوپہر غیر ملکی مہمانوں کا بھگوا رنگ کی پگڑی پہنا کر اور روایتی گانوں اور رقص کے ساتھ استقبال کیا گیا۔

پچھلی کانفرنسوں کی نفی کرتے ہوئے جموں و کشمیر انتظامیہ نے کانفرنس میں شرکت کرنے والے مندوبین کے نام اور ان کے عہدوں کو خفیہ رکھا ہے۔ یورپی یونین کے وفد کے کشمیر کے 2019 کے دورے کے دوران انتظامیہ نے نہ صرف میڈیا کو غیر ملکی مندوبین کے نام اور عہدے بتائے تھے بلکہ صحافیوں کے ساتھ  ان کی بات چیت کی حوصلہ افزائی بھی کی تھی۔

سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی کم از کم دو مختلف تصاویر میں، سڑک کے کنارے تعینات سکیورٹی اہلکار جی -20 کے ہورڈنگ کے پیچھے چھپے ہوئے دکھائی دے رہے ہیں، جب قافلہ گزر رہا ہے۔ بظاہر ایسا کشمیر میں حالات کو نارمل دکھانے کے لیےاور  غیر ملکی مندوبین کی نظروں میں آنے سے بچنے کے لیے ہے۔

دی وائر ان تصویروں کی تصدیق نہیں کر سکا ہے۔

شیر کشمیر انٹرنیشنل کنونشن سینٹر (ایس کے آئی سی سی) کی سڑک پر ایک کثیر سطحی حفاظتی محاصرہ بنایا گیا تھا، جس کی وجہ سے سری نگر میں مقامی لوگوں کے ساتھ ساتھ عام مسافروں کو کافی پریشانی کا سامنا کرنا پڑا۔ وہیں، ڈرون اور شارپ شوٹرز فضائی نگرانی پر مامور ہیں۔ انٹلی جنس ایجنسیوں نے مبینہ طور پر خبردار کیا ہے کہ دہشت گرد تقریب سے توجہ ہٹانے کے لیے جموں و کشمیر میں کوئی بڑا حملہ کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں اور حکام نے کہا کہ کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے حفاظتی اقدامات ضروری تھے۔

سرکاری ذرائع نے بتایا کہ،کسی بھی ناخوشگوار واقعہ کو روکنے کے لیے وفود کے ذریعے استعمال کیے جانے والے راستے سے منسلک تمام سڑکوں کو اتوار کی رات سے ہی بندکردیا گیا تھا، لیکن جیسے ہی قافلہ اپنی منزل پر پہنچا تو پابندیاں ہٹا دی گئیں۔

دریں اثنا، غیر ملکی مندوبین (مبینہ طور پر جن کی تعداد 60تھی)، مقامی حکام اور میڈیا کے سامنے مرکزی وزیر جی کشن ریڈی اور جتیندر سنگھ، اور جی – 20 شیرپا امیتابھ کانت نے مختلف مواقع پر کہا کہ یہ تقریب جموں و کشمیر کے نوجوانوں کے لیے روزگار کے مواقع پیدا کرنے والی ہے۔

تاہم،سینکڑوں غریب دکاندار جو ہوائی اڈے سے ایس کے آئی سی سی تک 16 کلومیٹر کی سڑک کے ساتھ عارضی دکانیں لگا کر  روزی کماتے ہیں اور ٹھیلوں پر کھانا اور دیگر اشیاء فروخت کرتے ہیں،سوموار کو نظر نہیں آئے۔

جی – 20 ایونٹ سے متعلق ‘سکیورٹی خدشات’ کی وجہ سے سری نگر کے کچھ اسکول بھی بند کردیے گئے تھے۔

جموں و کشمیر کے ادھم پور ضلع سے تعلق رکھنے والے منیش کمار، جو سری نگر کے سب سے بڑے بازار لال چوک میں پانی پوری بیچتے ہیں، نے کہا، ‘یہ ایک خراب دن تھا،گویا کرفیو لگا دیا گیا ہو۔ کچھ گراہک دوپہر کو پابندیوں میں نرمی کے بعد ہی میرے پاس آئے۔

سری نگر میں تصویریں لینے والے مندوبین(تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سری نگر میں تصویریں لینے والے مندوبین(تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سٹی سینٹر لال چوک اور گردونواح میں مال، دکانیں اور دیگر کاروبار کھلے رہے، تاہم بہت سے دکانداروں اور سیلس مین نے شکایت کی کہ حفاظتی اقدامات کے باعث گراہکوں  کی آمدورفت بہت کم  رہی۔ اگرچہ ڈل جھیل اور ایس کے آئی سی سی کے اردگرد پابندیاں عائد کی گئی تھیں، لیکن سوموا کو شہر کے دیگر حصوں میں ٹریفک معمول کے مطابق چل رہی تھی۔

قبل ازیں، اس بات پر غور کرتے ہوئے کہ 5 اگست 2019 کو سابقہ ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی حیثیت کی منسوخی کے بعد یہ یہاں پہلا بڑا بین الاقوامی اجتماع ہے، حکام نے زبانی طور پر لال چوک میں تاجروں کوان کے ادارے صبح جلدی کھولنے  اور معمول کےوقت کے بعد بند کرنے کرنے کو کہا تھا۔

لال چوک کے ایک دکاندار نے بتایا کہ کئی سالوں سے جاری اسمارٹ سٹی مہم کے تحت سری نگر کے ری ڈیولپمنٹ کے بعد ان کا کاروبار متاثر ہوا ہے۔ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر انہوں نے کہا، ‘حکومت کا ہر نیا اعلان لال چوک کے تاجروں کے لیے مصیبت لے کر آیا ہے۔ ہم صرف امید کر سکتے ہیں کہ ہمارا دکھ ختم ہو جائے۔

سری نگر کے بنڈ کی ایک تصویر جہاں ایک مقامی فنکار مہمانوں کی تفریح کے لیے بالی ووڈ کے گانے گا رہا ہے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

سری نگر کے بنڈ کی ایک تصویر جہاں ایک مقامی فنکار مہمانوں کی تفریح کے لیے بالی ووڈ کے گانے گا رہا ہے۔ (تصویر: اسپیشل ارینجمنٹ)

جنوبی کشمیر کے پلوامہ ضلع کےایک ہوٹل مینجمنٹ کے  طالبعلم مومن احمد نے کہا کہ سری نگر کے ری ڈیولپمنٹ اور جہلم بنڈ پر لائٹنگ سسٹم کی تنصیب نے، جو کہ جی – 20 کے مندوبین کی آمد سے قبل پوری ہوگئی تھی، نے سری نگر شہر میں نئی جان ڈال دی ہے۔

پچھلے ہفتے سابق وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی نے کہا تھا کہ غیر ملکی مندوبین کو یہ تاثر دینے کے لیے کہ ‘سب کچھ ٹھیک ہے'(آل از ویل ) جموں و کشمیر کو جی 20 اجلاس میں’ٹرافی کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔ حریت کانفرنس نے بھی اس تقریب کی مخالفت کی ہے۔

(اس رپورٹ  کوانگریزی میں پڑھنے کے لیےیہاں کلک کریں۔)