خبریں

اپوزیشن کی 19 جماعتوں نے نئے پارلیامنٹ ہاؤس کی افتتاحی تقریب کا بائیکاٹ کیا

نریندر مودی 28 مئی کو نئے پارلیامنٹ ہاؤس  کا افتتاح کریں گے۔ اپوزیشن پارٹیوں کا مطالبہ ہے کہ افتتاح صدر دروپدی مرمو کے ہاتھوں  کیا جانا چاہیے۔ حزب اختلاف کی 19 جماعتوں نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ جب پارلیامنٹ سے جمہوریت کی روح ہی نکال دی گئی ہے تو نئی عمارت ان کے لیے کوئی اہمیت نہیں رکھتی۔

مارچ 2023 میں نئے پارلیامنٹ ہاؤس کا معائنہ کرنے پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

مارچ 2023 میں نئے پارلیامنٹ ہاؤس کا معائنہ کرنے پہنچے وزیر اعظم نریندر مودی۔ (فوٹو بہ شکریہ: پی آئی بی)

نئی دہلی: کانگریس کی قیادت میں انیس اپوزیشن جماعتوں نے بدھ کے روز 28 مئی کو نئے پارلیامنٹ ہاؤس کے افتتاح کے بائیکاٹ کے اپنے فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی  کا خود اس کا افتتاح کرنےاور صدر دروپدی مرمو کو’مکمل طور پر نظرانداز’ کرنے کے فیصلے سے صدر کے عہدے کی توہین ہوتی ہے اور یہ آئین کے خط اور روح کی خلاف ورزی ہے۔ پارٹیوں نے کہا کہ یہ ناقابل قبول ہے۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق، ایک مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے،نئے پارلیامنٹ ہاؤس کا افتتاح ایک اہم موقع ہے۔ ہمارے اس یقین کے باوجود کہ حکومت جمہوریت کو خطرے میں ڈال رہی ہے اورجس  مطلق العنان طریقے سے نئی پارلیامنٹ کی تعمیر کی گئی تھی،اس سےہماری نااتفاقی کے باوجود ہم اپنے اختلافات کو دور کرنےاور اس موقع کو منانے کے لیے تیار تھے۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے، تاہم، صدر مرمو کو مکمل طور پر نظرانداز کرتے ہوئےنئے پارلیامنٹ ہاؤس کا خودافتتاح کرنے کا وزیر اعظم مودی کا فیصلہ نہ صرف توہین ہے، بلکہ ہماری جمہوریت پر ایک سیدھا حملہ ہے، جو کہ یکساں ردعمل کا مطالبہ کرتا ہے۔

بیان پر دستخط کرنے والوں میں کانگریس، ترنمول کانگریس (ٹی ایم سی)، ڈی ایم کے، جنتا دل (یونائیٹڈ)، عام آدمی پارٹی (اے اے پی)، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی (این سی پی)، شیو سینا (ادھو بالا صاحب ٹھاکرے)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ)، سماج وادی پارٹی (ایس پی)، راشٹریہ جنتا دل (آر جے ڈی)، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا (سی پی آئی)، مسلم لیگ، جھارکھنڈ مکتی مورچہ (جے ایم ایم)، نیشنل کانفرنس، کیرالہ کانگریس (ایم)، ریوولشنری سوشلسٹ پارٹی (آر ایس پی)، مارومالارچی دراوڑ منیترا کزگم (ایم ڈی ایم کے)، ودوتھلائی چروتائیگل کچی (وی سی کے) اور راشٹریہ لوک دل (آر ایل ڈی) شامل ہیں۔

پارٹیوں نے کہا کہ ہندوستان کے آئین کا آرٹیکل 79 کہتا ہے، ‘یونین کے لیے ایک پارلیامنٹ ہوگی، جس میں صدر اور دو ایوان ہوں گے جنہیں بالترتیب ریاستوں کی کونسل اور عوام کی اسمبلی کے نام سے جانا جائے گا۔

بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ،صدر نہ صرف ہندوستان کی سربراہ مملکت ہیں، بلکہ وہ پارلیامنٹ کا ایک اٹوٹ حصہ بھی ہیں کیونکہ وہی پارلیامانی سیشن طلب کرتی ہیں، سیشن کو ختم کرتی ہیں اور سال کے پہلے سیشن کے دوران دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس کو خطاب کرتی ہیں۔مختصر یہ کہ پارلیامنٹ صدر کے بغیر نہیں چل سکتی۔ اس کے باوجود وزیراعظم نے ان کے بغیر نئے پارلیامنٹ ہاؤس کا افتتاح کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ غیر مہذب فعل صدر کے اعلیٰ عہدے کی توہین اور آئین کی بنیادی روح کی خلاف ورزی ہے۔ یہ شمولیت کے جذبے کو مجروح کرتا ہے ،جس کی وجہ سے ملک نے اپنی پہلی قبائلی خاتون صدر کا استقبال کیا تھا۔

پارٹیوں نے یہ بھی کہا کہ وزیر اعظم کے لیے غیرجمہوری حرکتیں کوئی نئی بات نہیں، جنہوں نے پارلیامنٹ کو مسلسل کھوکھلا کیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ جب اپوزیشن ارکان نے پارلیامنٹ میں ہندوستانی عوام کے مسائل اٹھائے تو انہیں نااہل، معطل اور خاموش کردیا گیا۔ حکمران جماعت کے ارکان پارلیامنٹ نے پارلیامنٹ میں خلل ڈالا۔ تین زرعی قوانین سمیت کئی متنازعہ بل کو تقریباً بغیر کسی بحث کے پاس کر دیا گیا اور پارلیامانی کمیٹیوں کو عملی طور پر غیرمتحرک کر دیا گیا ہے۔

بیان میں کہا گیا ہے،’صدی میں ایک بار آنے والی اس وبا کے دوران نئے پارلیامنٹ ہاؤس کی تعمیر ہندوستان کے لوگوں یا ارکان پارلیامنٹ سے مشاورت کے بغیر کی گئی ہے،  جن کے لیے یہ واضح طور پر بنایا جا رہا ہے۔ جب پارلیامنٹ سے جمہوریت کی روح ہی چھین لی گئی ہے تو ہمیں نئی عمارت کی کوئی اہمیت نظر نہیں آتی۔ ہم پارلیامنٹ کی نئی عمارت کے افتتاح کے بائیکاٹ کے اپنے اجتماعی فیصلے کا اعلان کرتے ہیں۔ ہم اس مطلق العنان وزیر اعظم اور اس کی حکومت کے خلاف لڑتے رہیں گے اور اپنا پیغام براہ راست ہندوستان کی عوام تک پہنچائیں گے۔

کانگریس اور کئی اپوزیشن جماعتوں نے دسمبر 2020 میں پارلیامنٹ کی نئی عمارت کا سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب میں بھی شرکت نہیں کی تھی۔

انڈین ایکسپریس کے مطابق،ٹی ایم سی اور عآپ  نے منگل کو کولکاتہ میں دہلی کے وزیر اعلیٰ اروند کیجریوال اور مغربی بنگال میں ان کی ہم منصب ممتا بنرجی کے درمیان ملاقات کے بعد اس تقریب میں شرکت  نہ کرنے کے اپنے فیصلے کا اعلان کیا تھا۔

کیجریوال نے دارالحکومت میں انتظامی خدمات کی بے ضابطگی سےمتعلق مرکز کے آرڈیننس کے خلاف حمایت حاصل کرنے کے لیے ممتا سے ملاقات کی۔ سی پی آئی اور سی پی آئی (ایم) نے بھی منگل کو پروگرام کا بائیکاٹ کرنے کا اعلان کیا تھا۔

اپوزیشن رہنماؤں نے درج کیااحتجاج

دریں اثنا، ٹی ایم سی کے راجیہ سبھا ایم پی ڈیرک اوبرائن نے ٹوئٹ کیا،پارلیامنٹ صرف ایک نئی عمارت نہیں ہے، یہ پرانی روایات، اقدار، نظیروں اور قواعد کے ساتھ ایک اسٹیبلشمنٹ ہے – یہ ہندوستانی جمہوریت کی بنیاد ہے۔ وزیر اعظم مودی اس بات کو نہیں سمجھ پا رہے ہیں۔ اس کے لیے اتوار کو نئی عمارت کا افتتاح صرف میں،خود کے بارے میں ہے۔اس لیےہمیں اس سےباہر رکھیں۔

پارٹی کے راجیہ سبھا ایم پی سکھیندو شیکھر رائے نے کہا کہ ‘غیر پارلیامانی’ ہونے کے علاوہ یہ ‘نازیبا’ بھی ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کر کے کہا، ‘بی جے پی براہ راست صدر کی توہین کر رہی ہے جو ایک خاتون اور ایک درج فہرست قبائل بھی ہیں۔ ابھی عمارت بھی مکمل نہیں ہوئی، تو افتتاح کے لیے اتنی جلدی کیا ہے؟ کیا اس کی وجہ 28 مئی (وی ڈی) ساورکر کا یوم پیدائش ہے۔

عام آدمی پارٹی کے راجیہ سبھا ایم پی سنجے سنگھ نے کہا کہ مرمو کو مدعو نہ کرنا ان کے ساتھ ساتھ دلتوں، آدی واسیوں  اور ملک کے محروم طبقات کی بھی توہین ہے۔

انہوں نے ٹوئٹ کیا،عام آدمی پارٹی مودی جی کے ذریعے ان کو  مدعو نہ کرنے کی مخالفت میں افتتاحی پروگرام کا بائیکاٹ کرے گی۔

سی پی آئی کے جنرل سکریٹری ڈی راجہ نے کہا، حکومت کو اس حقیقت کو قبول کرنا چاہیے کہ صدر سربراہ مملکت ہے نہ کہ وزیر اعظم، جو حکومت کا سربراہ  ہوتاہے۔

سی پی آئی کے راجیہ سبھا کے رکن بنائے وشوم نے ٹوئٹ کیا،ہم ایسی کوشش سے کیسے منسلک ہو سکتے ہیں جو ہندوستان کے صدرکو ایک طرف کر دے اور خود کو ساورکر کی یاد سے جوڑے؟ جو لوگ پارلیامانی جمہوریت اور سیکولرازم کی قدروں کی پیروی کرتے ہیں ،وہ صرف اس اکثریتی بے حیائی  سے دور رہ سکتے ہیں۔

ٹوئٹ کی ایک سیریز میں، سی پی آئی (ایم) کے جنرل سکریٹری سیتارام یچوری نے صدر کی’بائی پاسنگ’ کو ناقابل قبول قرار دیا۔

وہیں، کانگریس کے ترجمان گورو ولبھ نے الزام لگایا کہ حکومت نے صدر مرمو اور انہیں تقریب سے دور رکھ کر پوری قبائلی برادری کی توہین کی ہے۔

انہوں نے کہا، ‘عزت مآب صدر، جو ایک عام پس منظر سے یہاں تک پہنچی ہیں، ان کی توہین کیوں کی جا رہی ہے؟ کیا توہین اس لیے کی جا رہی ہے کہ وہ قبائلی سماج سے آتی ہیں یا ان کی ریاست (اڑیسہ) میں کوئی الیکشن نہیں ہے؟

کانگریس لیڈر راہل گاندھی نے بھی ایک ٹوئٹ میں کہا کہ صدرسےپارلیامنٹ کا افتتاح نہ کروانا اور انہیں تقریب میں مدعو نہ کرنا ملک کے اعلیٰ ترین آئینی عہدے کی توہین ہے۔ پارلیامنٹ انا کی اینٹ سے نہیں آئینی اقدار سے بنتی ہے۔

بی جے پی اور کانگریس لیڈروں کے درمیان زبانی جنگ

اس سےایک دن قبل مرکزی ہاؤسنگ اور شہری امور کے وزیر ہردیپ سنگھ پوری نے کانگریس پر جوابی حملہ کرتے ہوئے کہا کہ سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 24 اکتوبر 1975 کو پارلیامنٹ انیکسی کا افتتاح کیا تھا اور سابق وزیر اعظم راجیو گاندھی نے 15 اگست کو پارلیامنٹ کا افتتاح کیا تھا، 1987کو پارلیامنٹ لائبریری کی بنیاد رکھی تھی۔

انہوں نے کہا کہ نئی پارلیامنٹ کی عمارت پر تنقید کرنے اور اس کی ضرورت پر سوال اٹھانے سے، ان میں سے بہت سے لوگ جنہوں نے پہلے اس کی وکالت کی لیکن اس پر عمل نہیں کیا، اب کانگریس صدر اور دیگر اہل افراد آئین کے ایک آرٹیکل کاآزادانہ طور پر غلط حوالہ دے رہے ہیں۔

پوری پر جوابی حملہ کرتے ہوئے،کانگریس کے جنرل سکریٹری اور کمیونی کیشن انچارج جئے رام رمیش نے ٹوئٹ کیا،پارلیامنٹ اور انیکسی کا افتتاح کرنے میں ایک بنیادی فرق ہے جہاں اہلکار کام کرتے ہیں اور ایک لائبریری جو مشکل سے استعمال ہوتی ہے، اور نہ صرف جمہوریت کے مندر بلکہ اس کے مقدس مقام کا  افتتاح کرنے میں بھی بنیادی فرق ہے۔

انہوں نے کہا، ‘وزیرموصوف کو بتانا ہوگا کہ پارلیامانی انیکسی اور پارلیامنٹ میں فرق ہے۔ مجھے امید ہے کہ وہ لائبریری یا انیکسی میں نہیں بلکہ صحیح عمارت میں سیشن میں شرکت کر رہا ہے۔ کیا یہ مودی جی کی کابینہ میں ذہانت کی سطح ہے یا یہ بھکتی کی شکتی ہے؟

مئی 2014 میں لوک سبھا سکریٹریٹ کی طرف سے ‘پارلیامنٹ ہاؤس اسٹیٹ’کے عنوان سے شائع ہونے والی اشاعت کے مطابق اس وقت کی وزیر اعظم اندرا گاندھی نے 1975 میں پارلیامنٹ ہاؤس انیکسی کا افتتاح کیا تھا، جبکہ عمارت کا سنگ بنیاد اس وقت کے صدر وی وی گری نے 3 اگست 1970 کو رکھا تھا۔

اس میں مزید کہا گیا ہے کہ پارلیامنٹ لائبریری کی عمارت کا سنگ بنیاد 1987 میں اس وقت کے وزیر اعظم راجیو گاندھی نے رکھا تھا اور اس وقت کے لوک سبھا اسپیکر شیوراج وی پاٹل نے 17 اپریل 1994 کو بھومی پوجن کیا تھا۔